سنہ 2020: 10474کل پاکستانی شہریوں نے امریکی گرین کارڈ حاصل کیے


                                                                                                    

سنہ 2020 ء اور 2021 ء امریکی امیگریشن کے حوالے سے سست روی کے سال رہے۔ کوڈ۔ 19 کی پابندیوں کی وجہ سے سال 2020 میں زیادہ عرصہ دینا بھر میں امریکی قونصل خانے اور سفارت خانے، ماسوائے ہنگامی صورت حال کے عام پبلک کے لیے بند رہے۔ اس کے علاوہ امریکہ میں امیگریشن کی سہولیات فراہم کرنے والے محکمے ’یونائٹیڈ سٹیٹس سیٹیزن شپ اینڈ امیگریشن سروسز‘ (USCIS) کے دفاتر بھی انٹرویوز کے لیے کئی ماہ بندش کا شکار رہے۔

بعد ازاں کرونا سے بچاؤ کے لیے کیے گئے حفاظتی انتظامات کے بعد ”ان پرسنز“ انٹرویوز کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا گیا۔ کرونا (کوڈ۔ 19 ) کی وجہ اتنے کٹھن حالات کے باوجود امیگریشن ڈیپارٹمنٹ کی کارکردگی کافی بہتر رہی۔

اس وجہ سے مختلف قسم کی امیگریشن کی سہولیات کے لیے محکمہ کے پاس موجود درخواستوں پر کارروائی کا عمل سست روی کا شکار رہا۔ ابھی بھی امیگریشن حکام کے پاس، گرین کارڈ، سٹیزن شپ، اسائلم اور دیگر سہولیات کے لیے آنے والی درخواستوں کے انبار لگے ہوئے ہیں۔ جس کی وجہ سے یہ عمل بدستور ”بیک لاگ“ کا شکار ہے۔

محکمہ امیگریشن کی جانب سے (نومبر 2021 ) میں جاری کیے گئے ایک ٹائم فریم کے مطابق امریکہ کے اندر گرین کارڈ اپلائی کرنے سے لے کر کارڈ بننے تک کے مرحلے کا اوسطاً دورانیہ گیارہ ماہ سے ساڑھے تئیس ماہ ہے۔ جبکہ سیٹیزن شپ کی درخواست جمع کروانے سے لے کر شہریت کا حلف اٹھانے تک کا ٹائم فریم اوسطاً ایک سال سے ڈیڑھ سال کے درمیان ہے۔

اسی طرح بیرون ممالک امریکی سفارت خانوں اور قونصل خانوں میں انٹرویوز کی درخواستیں التواء کا شکار ہیں۔ وہاں بھی ”بیک لاگ“ دن بدن بڑھ رہا ہے۔ اور لوگ مایوسی اور بے یقینی کا شکار ہیں۔

امریکی محکمہ ہوم لینڈ سیکورٹی ہر سال امیگریشن کے حوالے سے مختلف قسم کا ڈیٹا جاری کرتا ہے۔ ابھی تک یو ایس گرین کارڈز کے حوالے سے 2020 ء کے مکمل جبکہ 2021 ء کے پہلے چھ ماہ کے اعداد و شمار جاری کیے گئے ہیں۔

2021 ء کے پہلے چھ ماہ کے دوران دو لاکھ چوہتر ہزار سات سو انہتر ( 274769 ) گرین کارڈ جاری ہوئے۔ مسلم ممالک میں نائجیریا کے بعد پاکستان دوسرے نمبر پر رہا، جس کے 3444 جبکہ نائجیریا کے 5554 باشندوں نے گرین کارڈ حاصل کیے۔ جبکہ ٹاپ 5 میں میکسیکو 39115، بھارت 1849، چین 16151، فلپائن 11042 اور کیوبا 9263 کے ساتھ نمایاں رہے۔ لکسمبرگ واحد ملک ہے جس کے سب کم یعنی 10 افراد کو گرین کارڈ جاری ہوئے۔

نامعلوم ممالک کی فہرست میں 2586 ایسے افراد شامل ہیں جن کو گرین کارڈ تو جاری ہوئے۔ مگر ایسے افراد کی شناخت کی جگہ ”نامعلوم“ لکھا گیا ہے۔ گزشتہ سالوں کے مقابلے میں 2020 اور 2021 میں کم تعداد میں گرین کارڈ جاری ہونے کی بڑی وجہ کوڈ۔ 19 بنا۔

اسی طرح 2021 کے پہلے چھ ماہ میں 196000 افراد امریکی شہری بنے۔ جبکہ اس کے مقابلے میں 2020 کے پہلے چھ ماہ میں 191000 لوگوں کو امریکی شہریت دی گئی۔ امریکی شہریت حاصل کرنے والے ٹاپ فائیو ممالک میں میکسیکو، کیوبا، بھارت، فلپائن اور چین کے باشندے سر فہرست رہے۔

2021 ء کے پہلے تین ماہ کے دوران دینا بھر سے نان امیگرانٹ I۔ 94 اور امیگرانٹ I۔ 94 انٹری پر 7.6 ملین لوگ امریکہ میں داخل ہوئے۔ جبکہ یہ تعداد 2020 کے پہلے تین ماہ کے مقابلے میں 90 فیصد کم ہے۔ نان امیگرنٹ I۔ 94 کے تحت امریکہ آنے والے ٹاپ 5 ممالک میں میکسیکو، کینیڈا، کولمبیا، بھارت اور ڈومینیکن ریپبلک شامل تھے۔

سال 2020 ء میں یو۔ ایس سیٹزن شپ اینڈ امیگریشن سروسز نے کل سات لاکھ سات ہزار تین سو باسٹھ ( 707,362 ) گرین کارڈ جاری کیے۔ جس میں براعظم ایشیاء سے تعلق رکھنے ممالک کے شہریوں کو دو لاکھ بائیس ہزار دو سو بہتر ( 272,597 ) براعظم افریقہ کے ممالک کو ( 76649 ) یورپی ممالک کے شہریوں کو ( 68994 ) نارتھ امریکہ کے ممالک کو ( 222,272 ) شمالی امریکہ کے ممالک کو ( 62219 ) گرین کارڈ جاری ہوئے۔ یہ تعداد 2019 ء کے مقابلے میں کافی کم ہے۔ سال 2019 میں کل تیرہ لاکھ گرین کارڈ جاری ہوئے تھے۔

2020 ء میں پاکستانی قومیت سے تعلق رکھنے والے ( 10474 ) افراد کو گرین کارڈ جاری ہوئے۔ یہ تعداد گزشتہ سالوں کے مقابلے میں پاکستانی شہریوں کو جاری ہونے والے گرین کارڈز کے مقابلے میں کافی کم ہے۔ مثال کے طور پر سال 2019 میں پاکستانی شہریوں کو ( 13921 ) ، 2018 ء میں ( 15802 ) ، 2017 میں ( 17408 ) ، 2016 میں ریکارڈ ( 19313 ) ، 2015 میں ( 18057 ) ، 2014 میں ( 18612 ) ، 2013 میں ( 13251 ) ، 2012 میں ( 14740 ) اور 2011 ء میں ( 15546 ) گرین کارڈ جاری ہوئے تھے۔

دیگر بڑے ممالک کو جاری ہونے والے گرین کارڈز کی تفصیل کے مطابق چین کے شہریوں کو ( 41683 ) ، بھارتی باشندوں کو ( 46363 ) ، افغانستان کے شہریوں کو ( 11407 ) ، بنگلہ دیش ( 9272 ) ، کینیڈا ( 9526 ) ، نائجیریا ( 12398 ) ، کیوبا کے باشندوں کو ( 16367 ) گرین کارڈ جاری ہوئے۔

اسی طرح میکسیکو کے باشندوں کو ایک لاکھ تین ہزار پچیس، فلپائن پچیس ہزار چار سو اکانوے، ویتنام ( 29995 ) ، ایران کے باشندوں کو ( 8805 ) ڈومینکن ریپبلک ( 30005 ) ، برازیل ( 16746 ) ، جنوبی کوریا ( 16244 ) جمیکا ( 12826 ) ترکی ( 4368 ) ، سعودی عرب ( 1854 ) یوکرائن ( 9886 ) ، انگلینڈ ( 9655 ) اور یمن کے شہریوں کو ( 5908 ) گرین کارڈ جاری کیے گئے۔

دینا بھر کے ان ممالک کے اعداد و شمار کے علاوہ ایک ”نامعلوم ممالک“ کی کیٹگری بھی شامل ہے، جس کو خفیہ رکھا گیا ہے۔ ایسے بے نام ممالک کے افراد کو چھ سو تینتیس گرین کارڈ جاری ہوئے۔

امریکہ ہر سال گرین کارڈز کے علاوہ لاکھوں افراد کو مستقل شہریت یعنی سٹیزن شپ بھی عطا کرتا ہے۔ سال 2020 اور 2021 کے مکمل اعداد و شمار ابھی تک جاری نہیں کیے گئے۔ تاہم سال 2019 میں مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے آٹھ لاکھ تینتالیس ہزار پانچ سو ترانوے ( 843,593 ) افراد امریکی شہری بنے۔ جبکہ 2018 میں امریکی شہری بننے والے ایسے افراد کی تعداد ( 761,901 ) اور 2017 کے اعداد و شمار کے مطابق ( 707,265 ) افراد کو امریکی شہریت دی گئی۔

سال 2019 میں پاکستانی قومیت سے تعلق رکھنے والے ( 13079 ) افراد کو امریکی سٹیزن شپ ملی۔ جبکہ 2018 اور 2017 میں امریکی شہری بننے والے ایسے پاکستانی افراد کی تعداد بالترتیب ( 10414 ) اور ( 10166 ) تھی۔

امریکی ہر سال دوسرے ممالک کے بہت سے بچوں کو بھی اپناتے ہیں۔ 2020 ء میں امریکی شہریوں نے مختلف ممالک سے مختلف عمروں کے ایسے ( 1648 ) بچوں کو اپنایا۔ جن میں لڑکیوں کی تعداد ( 838 ) اور لڑکوں کی تعداد ( 810 ) تھی۔

ایشیائی ممالک سے ایسے اپنائے جانے والے بچوں کی تعداد ( 685 ) یورپی ممالک سے ( 368 ) افریقہ کے ممالک سے ( 236 ) اور جنوبی اور شمالی امریکہ کے ممالک سے اپنائے جانے والے ایسے بچوں کی تعداد بالترتیب ( 181 ) اور ( 170 ) تھی۔

پاکستان سے ایسے اپنائے جانے والے بچوں کی تعداد چھبیس تھی۔ جنس کے لحاظ سے ایسے بچوں میں بارہ لڑکیاں اور چودہ لڑکے تھے۔ اپنائے جانے والے بچوں میں، ایک سال کی عمر تک کے تیرہ، ایک سے چار سال تک کے چھ اور پانچ سال یا اس سے زائد عمر کے سات بچے شامل تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments