اے خدا، ہمیں عسکری راستے پر چلا!


بقول شخصے میرے دیس میں کام کرنے کے تین طریقے ہیں۔ صحیح، غلط اور عسکری۔ اب عام لوگ تو بس دو ہی طریقوں سے واقف تھے کہ یا تو طریقہ صحیح ہوتا ہے یا غلط۔ خاص آدمیوں نے سمجھایا کہ اس صحیح غلط کے بیچوں بیچ ایک نہیں کئی درمیانی راستے ہوتے ہیں۔ خاص الخاص بندوں نے تنبیہ کی کہ یہ صحیح غلط کچھ نہیں ہوتا، حالات و واقعات کے ساتھ ساتھ قوم، ملک، سلطنت کے وسیع تر مفادات ہی فیصلہ کرتے ہیں کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔ ”خاصاں دی گل عاماں اگے نہیں مناسب کرنی“ ۔

ابھی صحیح غلط کی یہ بحث جاری تھی کہ سامنے بڑے گھر والے اک صاحب شدید معترض ہوئے کہ اس صحیح غلط سے آگے ایک نہیں کئی جہاں اور بھی ہیں۔ انہوں نے زبردستی ہمیں سمجھایا کہ دیکھو، جب کوئی طریقہ کام نہ کر رہا ہو تو سب سے آزمودہ اور صدیوں پرانا عسکری راستہ اختیار کیا جاتا ہے۔ یہ وہ راہ سلوک ہے جس پر خرچ کچھ سے زیادہ آتا ہے اور محب الوطنوں کے منہ پر رنگ بھی چوکھا چڑھتا ہے۔ اب جلنے گلنے سڑنے بھڑکنے والے تو بس لال بجھکڑ ہیں۔ ایسے ہی منہ لال انگارا لیے پھرتے ہیں۔

یہ عسکری طریقت تصوف کے سب سلاسل پر بھاری ہوتی ہے۔ اس صوفی سلسلے میں منہ کالے سے دل کالا بہتر ہوتا ہے اگر کوئی سمجھے تو۔ بڑے صاحب نے ”ڈنڈا پیر ہے وگڑیاں تگڑیاں دا“ اور ”جس کی لاٹھی اس کی بھینس“ جیسی کہاوتوں کے اسرار و رموز پر بھی بیرونی طاقتوں سے ادھار مانگی ہوئی زبردست روشنی ڈالی۔ یہ لوگ ہیں ہی اسی لائق۔

مزید ارشاد ہوا کہ یہ طاقت ہی ہے جو دنیا میں راج کرتی آئی ہے۔ یہ طاقت ہی ہے جو علم پیدا کرتی ہے۔ یہ طاقت ہی ہے جو صحیح غلط کی پہچان کراتی ہے۔ جس طرف طاقت ہو گی وہی حق ہو گا اور باقی سب باطل۔ اور باطل کو تو جڑ سے اکھاڑنا طاقت کی پہلی اور آخری ذمہ داری ہوتی ہے۔ اور بقا صرف طاقت ہی کو ہے۔ طاقت کے اپنے اصول و ضوابط اور اپنی اخلاقیات ہوتی ہیں۔ اس طاقت کی اپنی عدالت، اپنی سیاست، اپنی معیشت اور اپنا مذہب ہوتا ہے۔ ”تم اپنے نظریے پاس رکھو، ہم اپنا نظریہ رکھتے ہیں۔“

یہ طاقت ہی ہے جو پہلے رعایا کے اندر انتہا پسندی، تشدد اور نفرت کے بیج بوتی ہے اور جب جذباتیات کی یہ پنیری تناور درخت بنتی ہے تو ان کی بیخ کنی کے لئے ہجوم کو وقفے وقفے سے عسکری طریقہ پر ہانکا جاتا ہے۔ اور خلافت عسکریہ کے اس دور میں جو بھی جمہوریت کی بات کرے اسے فائرنگ سکواڈ کے سامنے کھڑا کرنا ہی بنتا ہے۔ اب ’چرواہا‘ ہی جانتا ہے کہ بھیڑ بکریوں کو ڈنڈے سے ہی سلسلہ عسکریہ میں داخل کیا جا سکتا ہے۔

افسوس، صد افسوس کہ شاہیں نہ بنے ہم۔ یہ بات سمجھنے میں بہت دیر لگا دی کہ ملک خداداد میں سیدھا راستہ تو عسکری راستہ ہے۔ ہم تو ویسے ہی ادھر ادھر بھٹکتے رہے۔ توبہ ہے۔ اے خدائے ذوالجلال، ہماری غلطیوں سے درگزر فرما۔ ہم سب کو سیدھے راستے پر چلا۔ ہمیں عسکری آہنگ عطا فرما۔ ہم سب کو نیشنل سیکورٹی پالیسی کے عین مطابق اپنی زندگیاں گزارنے کی توفیق عطا فرما۔ آمین ثم آمین

(عسکری ) روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل (حکومتوں ) میں
اقبال سے شدید معذرت کے ساتھ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).