کیا میڈیا خواجہ سراؤں کے حقوق کو انسانی حقوق نہیں سمجھتا؟


میں اپنی ہر صبح کا آغاز موبائل میں موجود خواجہ سراؤں کو صبح بخیر کا پیغام بھیج کر کرتا ہوں۔ میرے ایک میسج کے بدلے میں مجھے خواجہ سراء کمیونٹی سے بہت سی دعائیں مل جاتی ہیں۔ خواجہ سراء کمیونٹی ہمارے ملک کی محروم طبقات کی کمیونٹیز میں سب سے چھوٹا گروپ ہے۔ 2017 ء کی مردم شماری میں خواجہ سراؤں کو شامل کیا گیا اور ملک بھر میں ان کی کل تعداد اکیس ہزار سات سو چوہتر ظاہر کی گئی۔ مردم شماری کے اعداد و شمار پر قانون سازی اور مستقبل کی منصوبہ بندی ہوتی ہے۔ غلط اعداد و شمار خواجہ سراء کمیونٹی کے مسائل میں مزید اضافے کا سبب بنے، کیونکہ حکومتیں مستقبل کی منصوبہ بندی اسی ڈیٹا کی بنیاد پر کرتی ہیں۔

خواجہ سراء کمیونٹی تعداد میں تو سب سے کم ہے لیکن اس کے مسائل دوسری تمام کمیونٹیز سے زیادہ اور گمبھیر بھی ہیں۔ خواجہ سراء دوسری کمیونیٹیز کی نسبت زیادہ تشدد اور ہراسانی کا شکار بنتے ہیں، خواجہ سراؤں میں خودکشیوں کا رجحان بھی باقیوں سے زیادہ ہے اور زیادہ قتل و غارت گری کا شکار بھی بنتے ہیں۔

خواجہ سراؤں سے دوستی اور ان کے مسائل کو تھوڑا بہت پڑھنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ خواجہ سراؤں کی زندگی میں کمی بیشی کے ساتھ کچھ مسائل مشترک ہیں۔

خواجہ سراء بچہ ہوش سنبھالنے کے بعد جب زنانہ حرکتیں کرنے لگتا ہے تو شروع میں والدین سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ سلسلہ مزید بڑھتا ہے تو خاندان، محلے اور سکول کے بچے اس کا مذاق اڑانا شروع کر دیتے ہیں۔ والدین کا پیار اب ڈانٹ اور مار پیٹ میں بدلنا شروع ہو جاتا ہے۔ بدنامی کے خوف سے بچے پر گھر سے نکلنے پر پابندی لگا دی جاتی ہے۔ جو بچے بدنامی اور خوف سے خود کو گھر میں قید کر لیتے ہیں۔ وہ گھٹ گھٹ کر مرتے یا پھر خودکشی کر کے زندگی کا خاتمہ کر لیتے ہیں۔

کچھ بچے مار پیٹ، حقارت اور دھتکار سے تنگ آ کر گھروں سے بھاگ جاتے ہیں۔ گھروں سے بھاگنے کے بعد یہ بچے خواجہ سراؤں کے ڈیروں پر پہنچ جاتے ہیں۔ باغی بچے سوچ رہے ہوتے ہیں کہ شاید اب یہ اپنی مرضی کی زندگی جیئیں گے۔ لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ ہمارا معاشرہ خواجہ سراؤں کے حقوق کو انسانی حقوق سمجھتا ہی نہیں ہے۔ خواجہ سراؤں کے لئے حلال رزق کے تمام دروازے بند کر دیتا ہے جس کہ وجہ سے ان کے پاس پیٹ بھرنے کے لئے صرف تین کام ہی بچتے ہیں۔

بھیک مانگنا، ناچ گانا کرنا یا پھر سیکس ورک کر کے پیسے کمانا۔ بھوک مٹانے کے تینوں کام موت کے کنویں میں موٹر سائیکل چلانے سے زیادہ خطرناک ہیں۔ گلیوں، محلوں اور بازاروں میں بھیک مانگنے والے خواجہ سراؤں کو ہر قسم کے لوگوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بھیک مانگنے والے خواجہ سراؤں مختلف القابات سے نوازا جاتا ہے، جنسی ہراساں کیا جاتا ہے، تشدد کیا جاتا ہے، جنسی درندگی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

ناچ گانے سے منسلک خواجہ سراؤں کو فن کے مظاہرے کے لئے میلے، سرکس، شادی بیاہ اور نجی محفلیں میسر آتی ہیں۔ نجی تقریبات میں بھی خواجہ سراء ہراسانی اور جنسی درندگی کا شکار بنتے ہیں۔ رہی بات سیکس ورکر کی تو وہ بچارے تو رہتے ہی موت منہ میں ہیں۔

اوپر بیان کیے گئے تمام مسائل سے بڑا مسئلہ ہماری پولیس ہے۔ پولیس بھیک، ناچ گانا اور سیکس ورک کرنے والے خواجہ سراؤں سے بھتہ بھی لیتی ہے، انھیں جنسی زیادتیوں کا نشانہ بھی بناتی ہے اور آئے دن ان کے ڈیروں پر دھاوا بول کر لوٹ مار بھی کرتی ہے۔

سکول کے زمانے میں ہمارے اساتذہ کرام کلاس کی الماری میں بانس کے تین، چار ڈنڈے رکھا کرتے تھے۔ جن پر نیٹو کی ٹیپ چڑھائی جاتی تھی اور ذرا سی غلطی پر بانس کے انہی ڈنڈوں سے سزا دی جاتی تھی۔ آج کے دور میں کسی سکول، مدرسہ، فیکٹری، کارخانے میں بچوں پر ہونے والے تشدد کی ویڈیو اگر میڈیا پر وائرل ہو جائے تو پورے ملک میں غم و غصے کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے حکومت اور متعلقہ محکموں کو کارروائی کرنا پڑ جاتی ہے۔

اسی طرح خواتین پر گھریلو تشدد، ہراسانی یا جنسی درندگی کا کوئی واقعہ خبروں کا حصہ بن جائے تو وزرائے اعلٰی، آئی۔ جی وغیرہ کو لائن حاضر ہونا پڑتا ہے۔

اسی طرح میڈیا سندھ میں کتوں کے کاٹنے، لاہور کی گلیوں میں پڑے کوڑے کرکٹ کی نشاندہی دے تو حکومت نوٹس لینے پر مجبور ہو جاتی ہے۔

حیرت اس بات پر ہے کہ خواجہ سراء کمیونٹی اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے واقعات کی ویڈیوز آئے روز سوشل میڈیا پر وائرل کرتی رہتی ہے۔ لیکن ہمارا نام نہاد الیکٹرانک میڈیا ٹس سے مس نہیں ہوتا۔

گلیوں میں کوڑا کرکٹ پہلے بھی ہوتا تھا، بچے پہلے بھی اسکولوں کے اساتذہ، ہوٹلوں، ورکشاپوں کے استادوں کے ہاتھوں تشدد کا شکار بنتے تھے لیکن جب سے میڈیا نے ان واقعات کو خبروں کی سرخیاں بنانا شروع کیا ہے۔ حکومت ایکشن لینے اور قانون سازی پر مجبور ہو گئی ہے۔

اگر ہمارا میڈیا خواجہ سراؤں کو انسان اور خواجہ سراؤں کے حقوق کو انسانی حقوق سمجھتے ہوئے تشدد کے ان واقعات کو خبروں کا حصہ بنا دے تو مجھے امید ہے کہ آنے والے چند ماہ میں ان واقعات میں خاطر خواہ کمی لائی جا سکتی ہے۔ نیز الیکٹرانک میڈیا، خواجہ سراؤں کے حقوق پر بات کرے گا تو آگہی بہت جلد اور تیزی سے عام ہو سکتی ہے اور ہماری خواجہ سراء کمیونٹی بھی مین سٹریم کا حصہ بن سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments