جھگڑوں کی زبان


زبان، روابط جوڑنے کا اہم عنصر ہے۔ ایک دوسرے سے تعارف کا ذریعہ ہے۔ تفہیم و تفاہم کا آسان اور بہترین وسیلہ ہے۔ تاہم ہر زبان سماج کے اندر پائے جانے والے مخصوص اجتماعی طرز فکر کی عکاس بھی ہے۔ جھگڑالو ماحول در حقیقت خاص زبانی فضا میں پیدا ہوتا ہے۔ اور اسی ماحول کا اثر دوبارہ زبان میں منعکس ہوتا ہے۔ سماج میں پائے جانے والے مشترکات سے تغافل برتا جاتا ہے اور چھوٹے چھوٹے مسائل کو اچھالا جاتا ہے۔

ایسی زبانی و کلامی فضا میں، دوسروں کو پچھاڑ کر اپنی برتری ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ سامنے والے پھر کیوں پیچھے رہیں، انہیں بھی تو اپنی شکست کی تلافی کرنی ہے، اس لیے موزوں حرکات کا تانتا بندھ جاتا ہے۔ بحث پر بحث۔ کلام پر کلام۔ اور کہیں تو گالی پر گالی۔ یوں مخصوص زبان خاص قسم کا طرز فکر ایجاد کرتی ہے۔

اس زبانی کلامی فضا میں سب سے زیادہ کمی باہمی احترام اور الفت و محبت کی ہوتی ہے۔ دوسروں کے نکات ضعف کو اچھالنا،  دکھتی رگوں پر ہاتھ رکھنا اور گلاس کے خالی حصے پر توجہ مرکوز رکھنا اس مزاج کا خاصہ ہے۔

کبھی مکھی پر غور کیا ہے، ہمیشہ زخم اور گندگی کی تلاش میں رہتی ہے۔ جھگڑالو ماحول میں تربیت پانے والوں کی نفسیات بھی قریب مکھی جیسی ہوجاتی ہیں۔ یوں زبان، سماج اور نفسیات تینوں ایک ٹریک پر آ جاتے ہیں۔ ایسے ماحول میں اگر سوشل میڈیا میسر آ جائے تو پھر کیا ہی کہنے۔ ظلمات فوق الظلمات۔

سیاست سے ہٹ کر دیکھیں تو ہمارا مذہبی مزاج عرصہ دراز سے جدلی اور جھگڑالو زبان کی نذر ہو چکا ہے۔ مذہب کو عقیدہ حقہ کا نام دے کر ، خاص افکار پر تعصبات کا پرچار کر کے انہیں پھیلایا جاتا ہے۔ رسہ کشی کا سا ماحول ہے۔ منبر ہوں یا محراب، بندگی و سازندگی کے بجائے، فی سبیل اللہ فساد پر پورے انہماک سے ہمہ وقت عمل پیرا ہیں۔

خود خوری میں مبتلا ایسا معاشرہ آگے بڑھنے کے بجائے پرانی غلطیوں پر بہت مزے لے لے کر بحث کرتا ہے۔ اس جھگڑالو کیفیت کا علاج کہیں سے ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ بھلا علاج کیسے ہو جب اسے بیماری ہی نہ سمجھا جائے۔ البتہ یہ بیماری نہیں ہے، بلکہ عذاب ہے۔

قرآن حکیم کی تعبیر یہ ہے کہ اگر تم فرقہ وارانہ رویہ رکھو گے تو اللہ تعالی اس بات پر قادر ہے کہ تمہیں ٹکڑوں میں بانٹ دے اور بعض کو بعض کا مزا چکھائے۔ یعنی ایسی قوم بنا دے جن کے ختم کرنے کے لیے بیرونی دشمن کی ضرورت نہ ہو، بلکہ ایک دوسرے سے دست بگریباں ہو کر خود کو مٹانے کے لیے کافی ہوں۔ یہ ایسا عذاب ہے جسے یہ قوم مزے لے لے کر اڑا رہی ہے۔ چلیں دیکھتے ہیں انجام گلستاں کیا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments