جوڑوں کا درد


فرشتوں کے لکھے پہ پکڑے جانے والے انسان کو عرش پہ بنے جوڑوں کی وساطت سے دنیا میں لانے کا اہتمام ہوا۔ پھر انسانی جسم میں تین سو ساٹھ جوڑوں کی موجودگی نے جوڑوں کی اصطلاح کو انسان سے لازم کر دیا۔ یوں انسان کے اندر کے جوڑوں اور عرش پہ بنے جوڑوں کے اپنے اپنے درد متعارف ہوئے۔ پر یہاں فقط اک دوجے کے لباس قرار دیے گئے جوڑوں کے گفتہ، شگفتہ و نا گفتہ دردوں کا تذکرہ ہے۔ جوڑوں کے درد کی تاریخ انسانی تخلیق سے جڑی ہے۔

اسی درد کے موجب انسان جنت بدر ہوا اور یہی درد زمین پر پہلے قتل کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوا۔ وقت گزرا تو بنی نوع انسانیت میں وٹامن شی، وٹامن ”ہی“ اور پروٹین کی کمی شدت اختیار کر گئی اور ان کا محض ایک دوسرے پہ گزارا مشکل ہونے لگا۔ لہٰذا شرعی و غیر شرعی کثیر الازدواجی اور دیگر رشتوں کے ساتھ منہ بولی بیویوں کا رواج بھی عام ہو گیا۔ جوڑوں کی اقسام دیکھیں تو ان میں مثالی جوڑے، چھچھورے جوڑے، بن بتھوڑے جوڑے، گھگھو گھوڑے جوڑے، توڑے مروڑے جوڑے، لمبے چوڑے جوڑے اور بھگوڑے جوڑے شامل ہیں جن میں ہمیشہ جوڑ توڑ جاری رہتے ہیں۔

بلحاظ قسمت یہ جوڑے پہلے، دوسرے، چوتھے اور ساتویں آسمان پہ بنائے جاتے ہیں۔ سبھی جوڑے اپنے اپنے حصے کی خوشیاں اور درد ساتھ لاتے ہیں اور ان کے معاشقے قید شریعت سے دوچار ہو کر کثرت اطفالی کو فروغ دیتے ہیں۔ بالی عمر کے جوڑے نظر بازوں کی عمیق نظروں کے باعث غیر محفوظ شمار ہوتے ہیں لیکن خستہ سال و حال جوڑے محفوظ مگر غیر محظوظ ہو جاتے ہیں۔ ہر جوڑا ہر روز ایک دن پرانا ہوجاتا ہے۔ بڑھتی عمر سر پر بھاری گزرتی ہے اور مرد کا سر باہر سے جبکہ عورت کا اندر سے خالی ہونے لگتا ہے۔

کہہ سکتے ہیں کہ بچپن میں یہ درد نا ہونے کے برابر پر پچپن میں سوا ہو جاتے ہیں کیونکہ اس دور میں رومانس کے لئے کچھ باقی نہیں رہتا۔ ازمنہ قدیم میں گھر کا پانی لانے کی ذمہ داری گوریوں کے کندھوں پر تھی لیکن مکافات عمل کے تحت آج پنگھٹ کی بجائے فلٹر سے پانی لانے کا کام مردوں کے سر ہے۔ اچھی صورت بری شے ہے کیونکہ جو ڈالے، بری نظر ہی ڈالے۔ کوئی ”غیر“ اگر زیادہ اچھی لگنے لگے تو اس پہ بری نظر پارساؤں پر بھی واجب ٹھہر جاتی ہے۔

یوں جوڑوں کے یک طرفہ، دو طرفہ یا سہ طرفہ درد اٹھنے کے سلسلے دراز ہونے لگتے ہیں اور شادی کے کچھ عرصہ بعد اکثر دو کی بجائے تین افراد کی ضرورت محسوس ہونے لگتی ہے۔ گویا میاں بیوی گاڑی نہیں رکشہ بن جاتے ہیں۔ پھر، کفو، پہ پورا نہ اترنے اور مزاجوں کے تفاوت کے نزلے بھی جوڑوں کے اعضائے رئیسہ پر گرتے ہیں۔ ایک فریق میر کے سرہانے تو دوسرا توپ کے دہانے پہ کچھ کہنے کہلانے کا خوگر ہوتا ہے۔ یہ بھی دیکھا سنا ہے کہ میاں بیوی خوش رہ سکتے ہیں بشرطیکہ میاں کسی اور کا اور بیوی بھی کسی اور کی ہو۔

بیویوں کو شوہروں کی معلومات کم مگر بیواؤں کو ان کے اصل ٹھکانوں کا وثوق سے علم ہوتا ہے۔ ویسے بھی پہلی بیوی سے ٹوٹ کر محبت کا رواج کہاں۔ یوسفی کے مطابق شاہ جہان نے بھی آٹھویں بیوی کے لئے محل بنوایا۔ عرب ممالک میں یک زوجیے کو مسکین سمجھا جاتا ہے۔ دیکھا دیکھی اپنے ہاں کا یک زوجیہ بھی اس درد کی شدت محسوس کرتے ہوئے شرح خاوندگی میں اضافے کی، ہڈک، میں مبتلا رہتا ہے۔ شاعر نے خوب کہا ہے میں تو اہل ہوں کسی اور کا میری اہلیہ کوئی اور ہے میں ردیف مصرعہ عشق ہوں میرا قافیہ کوئی اور ہے کسی تجربے کی تلاش میں میرا عقد ثانوی ہو گیا میری اہلیہ کو خبر نہیں میری اہلیہ کوئی اور ہے

بنی نوع مردانیت میں کچھ ایسے مرد آزاد بھی ہیں کہ پیری میں رال ٹپکانے سے باز نہیں آتے اور نہ ہی سگی یا سوتیلی بیویوں میں فرق کرتے ہیں۔  ہمسائے سے زیادہ ہمسائی کے خیر خواہ ہوتے ہیں۔ یوسفی نے سچ کہا تھا کہ سیانا مرد نظریں نیچی اور نیت خراب رکھتا ہے۔ کنوارے ان دردوں سے مستثنٰی ہیں کیونکہ کنوارے پن کی ایک دن کی زندگی شادی شدہ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔ تاہم ان میں سے کچھ آؤٹ سٹینڈنگ کی تلاش میں خود ”آؤٹ“ سٹینڈنگ ہو جاتے ہیں۔ ان کے اپنے ڈھیروں درد ہیں جیسے تیرے وعدے اگر وفا ہوتے۔

ہم مجازی سہی، خدا ہوتے البتہ ماہرین مجنوں، رانجھا، مرزا، پنوں اور ماہیوال کے دردوں کی طبی، اخلاقی اور شرعی نوعیت وضع کرنے سے یکسر قاصر ہیں۔ ان کے علاوہ جوڑوں کے درد کے اسباب میں ساس کا وجود ناقابل تردید حقیقت ہے۔ اسی طرح گھر دامادی اور زن مریدی بھی ان دردوں کی شدت بڑھاتی ہیں۔ زن مریدوں میں حسن ظن اور حسن زن کے موجزن ہونے کے موجب، تھلے لگنے، کی خداداد صلاحیت پائی جاتی ہے جو اسے معاشرے میں شرم کے مقام پر فائز کرتی ہے۔

ان کے دلوں میں خوف الٰہی و اہلیہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے۔ ایسے شوہر حق شوہریت اور، بیگم ڈانٹ کام، میں فرماں بردارانہ مہارتوں کے بل بوتے پر چھپے خصم نکلتے ہیں۔ گل نوخیز اخترکے مطابق خواتین کو شکوہ رہتا ہے کہ بھوک نا لگنے کے باوجود ان کا وزن بڑھتا جا رہا ہے۔ سسرال نے آج تک بہو تسلیم نہیں کیا، اوپر سے شناختی کارڈ پر غلط تاریخ پیدائش لکھوا دی ہے۔ میری قسمت میں سکون کہاں ;میرے سارے بھائی رن مرید ہیں۔ خالو کے بیٹے کے رشتے میں مجھ سے مشورہ تک نہیں کیا گیا۔

شوہر شاپنگ پہ نہیں لے جاتا۔ یہ کوئی زندگی ہے۔ شکیل ہی ٹھیک تھا۔ ادھر حضرات کے بھی نرالے درد ہیں جیسے، پاؤں دبوانا کہاں کی شرافت ہے۔ سارے تو لئے ایک ہی دن دھونا ضروری ہیں۔ پھر بستر کی چادر سے منہ بھی صاف نہیں کرنے دیتی۔ موبائل سے کون سی ویڈیو پہلے ڈیلیٹ کی جائے۔ گھر میں کوئی چیز وقت پر نہیں ملتی۔ لڑکیوں کو انکل کہتے شرم نہیں آتی۔ شیو آج کی جائے یا پرسوں ;۔ وغیرہ۔ غرض یہ دنیا کے تمام خطوں میں پایا جانے والا سب سے بڑا انسانی ازدواجی عارضہ ہے جس کے وقتی مداوے بھلے عقد ثانی، دولت کی روانی اور من مانی سہی مگر جز مرگ شاید ہی کوئی ابدی علاج ہو۔

مشہور زمانہ و زنانہ ڈرامہ، میرے پاس تم ہو کے انجام سے بھی یہی پیغام ملا کہ مرد عورت سے بچھڑ جانے سے ہرگز نہیں بلکہ اس کے واپس آنے کے خدشے سے مر جاتا ہے۔ تاہم آخر میں بنی نوع نسوانیت کی عظمت میں اعتراف لازم ہے کہ مرد کی طرح عورت کے قلب و نظر پر بھی قفل نہیں ہوتے مگر جب کبھی دلوں اور گھروں کے ٹوٹنے کی نوبت آ پہنچے تو عورت ہی ہے جو فطری صلاحیتوں سے اپنی خواہشات قربان کر کے خود اور خود سے جڑے بہت سے افراد کو بکھرنے اور ٹوٹنے سے بچا لیتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments