شہزاد اکبر: گرتی دیوار کی پہلی اینٹ


وزیراعظم کے مشیر برائے داخلہ اور احتساب شہزاد اکبر نے استعفی ٰدے دیا جسے وزیر اعظم اور صدر مملکت نے منظور بھی کر لیا۔ ذرائع کے مطابق کابینہ کمیٹی کی میٹنگ میں شیخ رشید نے نواز شریف کی واپسی سے متعلق سوال اٹھایا جس پر شہزاد اکبر نے نواز شریف کی واپسی کو مشکل قرار دیا تھا۔ وزیراعظم عمران خان شہزاد اکبر کی کارکردگی سے خوش نہیں تھے اور انہیں دو ہفتے پہلے ہی استعفیٰ دینے کا اشارہ دیا گیا تھا۔ شہزاد اکبر کو خود سے استعفی دے کر جانے کا کہا گیا بصورت دیگر وزیراعظم انہیں برطرف کر سکتے تھے۔

وزیر اعظم ہاؤس کے ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ گزشتہ روز بھی رابطہ کر کے شہزاد اکبر کو استعفیٰ دینے کے بارے میں کہا گیا شہزاد اکبر کی طرف سے وزیر اعظم کو دی جانے والی بریفنگ میں تضاد تھا جس پر وزیر اعظم عمران خان ان سے ناراضی کا اظہار کیا۔ وزیر اعظم نے شہزاد اکبر سے عدالتوں میں موجود مقدمات کی فہرست مانگی جس پر سابق مشیر احتساب نے نامکمل فہرست فراہم کی۔ دریں اثنا شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ امید ہے وزیراعظم کی قیادت میں احتساب کا عمل جاری رہے گا، پارٹی کا حصہ اور قانونی معاونت جاری رکھوں گا۔

وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا کہ شہزاد اکبر نے شدید دباؤ میں کام کیا، مافیاز پر کام کرنا آسان نہیں تھا لیکن انہوں نے بہترین طور پر کیسز کو دیکھا۔ شہزاد اکبر کے استعفے پر فواد چوہدری نے رد عمل کے اظہار میں شہزاد اکبر کو کوئی اور ذمے داری دیے جانے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا کہ مزید اہم کام آپ کے منتظر ہیں۔

وزیر اعظم کے مشیر احتساب و داخلہ شہزاد اکبر کے استعفے کے اصل محرکات جو بھی ہوں مگر اس سے ایک بات ضرور واضح ہو جاتی ہے کہ حکومت اپنے احتساب بیانیے کو نتیجہ خیز بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ عمران خان کا سب سے بڑا انتخابی وعدہ کرپشن کا خاتمہ، کرپٹ مافیا کو سزائیں دینا اور لوٹی ہوئی دولت کی واپسی تھا اور ان اہداف کے لیے شہزاد اکبر صاحب کی صلاحیتوں پر اعتبار کیا گیا۔ شہزاد اکبر 2018 سے وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب و داخلہ اور اثاثہ جات کے ریکوری یونٹ کے سربراہ بنائے گئے اور جولائی 2020 میں انہیں وزیر اعظم کا مشیر برائے احتساب مقرر کر دیا گیا یہ عہدہ وفاقی وزیر کے برابر تھا۔

وہ سوئس اکاؤنٹس میں پاکستانیوں کے تقریباً ً 280 ارب ڈالرز کی موجودگی اور اس بھاری رقم کی واپسی اور 100 بڑے مگرمچھوں کی نشاندہی اور منی لانڈرنگ کے پیسے کی واپسی جیسے بڑے بڑے دعوؤں کے ساتھ اقتدار کے منظر نامے پر چھائے رہے۔ شہزاد اکبر کی ساڑھے تین سالہ کارکردگی کا حساب لگایا جائے تو نت نئے دعوؤں اور چیختے ہوئے اعداد و شمار پر مبنی بیانات کے سوا حکومت کے پہلے معاون احتساب کے اثاثے میں کچھ نہیں ملتا۔ یہ نتیجہ حکومت کے احتساب بیانیے کے لیے بھی غیر معمولی جھٹکا ہے۔

جب نظام کی مضبوطی پر توجہ دینے کے بجائے شخصیات کو با اختیار بنانے پر زور دیا جاتا اور مخصوص افراد پر کلی طور پر انحصار کیا جاتا ہے تو اسی طرح ہوتا ہے۔ حکومت بظاہر جن واضح اہداف کے ساتھ آئی اگر شخصیات کے بجائے اداروں کی مضبوطی پر توجہ دیتی اور شخصیات اس نظام کے کل پرزوں کی حیثیت سے کام کرتیں تو حکومتی اہداف اشخاص کے مرہون منت نہ رہتے اور کسی کا جانا یا کسی کا آنا یوں حیرت کا باعث نہ ہوتا مگر حکومت نے معیشت، احتساب اور انتظامی اصلاحات کے معاملے میں چند شخصیات کو گرو بنا کر پیش کیا مگر حیران کن طور پر ایک ایک کر کے حکومت کے یہ سورما بچھڑتے چلے گئے۔

مشیر احتساب شہزاد اکبر نے اگرچہ سب سے زیادہ دیر مورچے پر ڈٹے رہنے کا ریکارڈ قائم کیا مگر اپنے دیگر ساتھیوں کی طرح انہوں نے بھی یہ ثابت کیا کہ جس کام کے لیے ان پر انحصار کیا گیا تھا وہ اس کے لیے نہیں بنے تھے۔ وہ چاہتے تو احتساب کا محور بننے کے بجائے ایک سسٹم کو ڈویلپ کر کے اپنی ذمہ داریاں بہتر افراد کے ساتھ تقسیم کرتے مگر انہوں نے احتساب کے وسیع و عریض نظام کا مرکزی نقطہ خود بننا پسند کیا، چنانچہ ان کے منظر سے ہٹنے کے ساتھ حکومت کے احتساب بیانیے کی بے مائیگی کا احساس شدت کے ساتھ ہو رہا ہے۔

شہزاد اکبر صاحب کی جگہ بھی پر ہو گی مگر ان کی قریب دو برس کی کارکردگی کا خلا پر کرنا آسان نہیں ہو گا۔ یہ کام قدرتی طور پر ہوجاتا اگر شہزاد اکبر پر بطور شخص تکیہ کرنے اور ہر عمل کے فوری نتیجے کی خواہش کے بجائے احتساب کو بطور نظام پروان چڑھایا جاتا۔ وزیر اعظم احتساب کو ریاست کے ایک نظام کی صورت تقویت اختیار کرنے دینے نہ کہ اسے حکومت یعنی حکمران جماعت کے سیاسی ایجنڈے کے تحت رکھ کر دیکھا جاتا۔ اداروں کا استحکام ریاست کی مضبوطی اور ترقی کا بنیادی نسخہ ہے مگر اداروں کی مضبوطی اسی وقت ترجیح بن سکتی ہے جب حکومتیں اپنے جماعتی ایجنڈوں سے آگے دیکھنے کی سوچ پیدا کریں۔ مشیر احتساب کے استعفے پر حکومت کے کئی زعما نے اظہار خیال کیا مگر وزیر اطلاعات فواد چودھری کے خیالات سب سے زیادہ جدا تھے۔ آپ کا ارشاد گرامی کہ شہزاد اکبر نے شدید دباؤ میں کام کیا مافیاز پر کام کرنا آسان نہیں تھا لیکن انہوں نے بہترین طور پر کیسز کو دیکھا۔

حیرت ہے کہ وزیر اطلاعات نے ان تاثرات کا اظہار شہزاد اکبر کے استعفے تک کیوں موخر رکھا۔ اگر حکومت کے مشیر احتساب کو کسی قسم کی مشکلات کا سامنا تھا تو اس کا اظہار اسی وقت ہونا چاہیے تھا بلکہ اظہار ہی کیوں حکومت وقت کے پاس سبھی قانونی اختیار ہیں اور وہ ہر طرح کی رکاوٹوں کو عبور کرنے کا قانونی اختیار رکھتی ہے۔ شہزاد اکبر وزیر اعظم کے بھرپور اعتماد اور مکمل اختیارات کے ساتھ احتساب اور داخلہ کی مشاورت کے عہدے پر فائز تھے۔ انہوں نے کبھی کسی دباؤ یا مافیا کی جانب سے رکاوٹوں کی بات نہیں کی۔ اپنے استعفے میں بھی انہوں نے کسی دباؤ کا ذکر نہیں کیا۔ پھر ان پر دباؤ کون سا تھا؟ یا وزیر اطلاعات کس مافیا کی بات کرتے ہیں؟ کیا دباؤ اور مافیا کی رکاوٹ کارکردگی کی ناکامی کا جواز ہو سکتا ہے؟

دنیا کی کون سی حکومت یا ادارہ ہے جس کے لئے کام کی راہ میں رکاوٹیں نہ ہوں مگر سسٹم مضبوط ہو تو دباؤ اور مافیا کام میں رکاوٹ بننے کی جرات نہیں کر سکتے۔ جو ممالک زیادہ ترقی یافتہ ہیں وہاں مافیا اور مفاداتی گروہ ہماری نسبت زیادہ مضبوط ہیں مگر سسٹم کی مضبوطی ان کے کسی عہدیدار کو کہیں بھی پسپا ہونے نہیں دیتی۔ حقیقت یہ ہے کہ کارکردگی کی جس ناکامی کو حکومت دباؤ کا نام دے رہی ہے وہ شہزاد اکبر صاحب کی قابلیت اور وزیر اعظم عمران خان کی مردم شناسی میں تھی۔

حکومت نے اپنے سب سے اہم ایجنڈے کے لئے شہزاد اکبر صاحب پر انحصار کیا مگر وقت نے ثابت کیا کہ وہ جتنا کر سکتے تھے انہوں نے اس سے بہت زیادہ دعوے کیے اور ساڑھے تین سال حکومت میں ایک مضبوط ترین پوزیشن پر ان کی موجودگی کا حاصل ایک بے جوڑ، غیر مربوط اور بے سمت احتسابی عمل ہے جس کے نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکنے کا سبب مافیا اور دباؤ کو قرار دے کر حکومت اپنی ذمہ داری سے پہلو تہی کرنا چاہتی ہے حالانکہ شہزاد اکبر اور فواد چوہدری جیسے افراد پر مشتمل کابینہ دیکھ کر ہی اندازہ ہوجاتا ہے کہ دراصل حکومت خود ایک مافیا ہے جس کے چنگل میں عوام بری طرح پھنس چکے ہیں۔

عین ممکن ہے آج یا آنے والے چند دنوں میں لوگوں کو اندازہ ہو جائے کہ شہزاد اکبر کیوں مستعفی ہوئے، ان کے استعفی پر حکومتی ترجمانوں نے روایتی غلط بیانی کی ہے لیکن حقیقت سامنے آ کر رہے گی۔ آنے والے چند دن حکومت کے لیے خاصے مشکل ہو سکتے ہیں بہر حال گرتی ہوئی دیوار کی پہلی اینٹ گر چکی ہے اور باقی اپنی جگہ چھوڑنے کی منتظر۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments