جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے


ہمارے وزیر داخلہ ببانگ دہل کہتے پھرتے ہیں کہ جو ہاتھ عمران خان کے سر پر ہے وہ مخالف سیاسی پارٹیوں کے سر کی بجائے ان کے گریباں پر ہو گا۔ کیا دنیا میں کسی مہذب معاشرے، ملک یا قوم میں یہ رویہ کبھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ حکومت کا کوئی نمائندہ، وزیر یا پھر عہدیدار اس قسم کے غیر ذمہ دارانہ بیانات دیتا ہو اور ملک کی بدنامی کا باعث بنے۔ اس قسم کے بیانات کے بعد سوال تو بنتا ہے کہ یہ کون سا طلسماتی ہاتھ ہے جو جناب وزیراعظم عمران خان کے سر اور مخالفین کے گریباں پر ہے اور خیر سے شیخ صاحب جس کے دوست ہوں پھر دشمن اس کا آسماں کیوں ہو۔

یہ کھیل نیا تو نہیں۔ آئیے تاریخ کے جھروکوں سے اپنی غلطیوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں جب آئین کی تشکیل کے لئے غیر آئینی آمر کہتے تھے کہ آئین سے پہلے ایک عقلمند حکومت کی تشکیل ضروری ہے جس کی آڑ میں اپنے ہی اقتدار کو طول دیا گیا اور یہی ہوتا رہا مگر آج تک عقلمند اور ایماندار حکومت کی تلاش جاری ہے باوجود اس کے کہ ہمیں عدالت سے تصدیق شدہ صادق اور امین وزیر اعظم بھی میسر ہیں مگر شومئی قسمت اب یہ فیصلہ نہیں ہو پا رہا کہ ہمارے لئے پارلیمانی نظام زیادہ بہتر ہے یا پھر صدارتی۔

پاکستان کی ننھی منی جمہوریت پر جتنے تجربات ہوئے ہیں شاید ہی دنیا کے کسی ملک میں ہوئے ہوں جہاں ڈسکہ الیکشن جیسے واقعات بھی تاریخ کا حصہ ہیں جب آپ کا بہت سا الیکشن عملہ ہی دھند میں غائب ہو گیا اور دنیا اس نظام پر ششدر رہ گئی۔

ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں پارلیمانی نظام بھی کامیاب ہیں اور صدارتی بھی کیونکہ ہمارے ہاں مسئلہ نظام کا ہے ہی نہیں بلکہ نظام کی عملداری کا ہے اور اپنے اپنے فرائض کی انجام دہی کا ہے۔ اداروں کے اختیارات کا ہے۔ اداروں کی حدود کا ہے جس کو ہم ماننے کے لیے تیار نہیں۔ یاد رکھیں کشتی کبھی باہر کے پانی سے نہیں ڈوبتی بلکہ اس وقت ڈوبتی ہے جب پانی اس کے اندر چلا جائے اور پانی اس وقت اس کے اندر جاتا ہے جب اس کو چلانے کی کوشش ملاح کی بجائے کشتی میں موجود کوئی ایسا شخص کرتا ہے جو اپنے جسمانی حجم میں برتر اور ڈنڈا بردار ہو اور کشتی میں موجود سوار ممکنہ نقصان سے بے خبر۔

پاکستان کی تھکی ماندی پبلک مایوس نظر آتی ہے اور اکثر سننے کو ملتا ہے کہ یہاں کچھ نہیں بدلے گا۔ اپنے ہی ملک میں مایوسی کی یہ صورتحال کوئی اچھی چیز نہیں کیونکہ اس سے ریاست کو درپیش بیرونی خطرات مزید بڑھ جاتے ہیں۔ معاشرے میں بدامنی پھیلتی ہے اور یہ صورتحال دنیا میں آپ کو کہیں کا نہیں چھوڑتی۔

بڑھتی ہوئی ٹیکنالوجی نے عوام میں سیاسی شعور بھی بڑھا دیا ہے اور بار بار کے ناکام تجربات نے انہیں یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ آخر ہم پر تواتر سے یہ ناکام تجربات کون کر رہا ہے اور کیا کبھی کسی کو اس سب کا ذمہ دار ٹھہرا کر سزا جزا کا کوئی عمل بھی کارفرما ہو گا یا پھر ظالم یونہی پتلی گلی سے نکلتے رہیں گے۔ عوام کو ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا ہے۔

قیام پاکستان کے بعد تحریک آزادی کی روح کے مطابق قائداعظم کے تصور اور علامہ اقبال کی فکر کی روشنی میں جمہوری سیاسی نظام تشکیل دیا جانا چاہیے تھا۔ کلونیل ذہنیت کی حامل اشرافیہ نے کلونیل نظام کو جاری رکھا اور براؤن انگریز گورے انگریزوں سے زیادہ سفاک اور سامراجی و استحصالی ثابت ہوئے اور ریاست کو ہی دولخت کر دیا اور تین بلند قامت وزرائے اعظم لیاقت علی خان، ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کو شہید کر دیا۔ گویا ہم نے بلندی سے پستی کی جانب سیاسی سفر کیا ہے۔

پاکستان کے موجودہ نظام میں دانا بینا شخصیات کی کوئی گنجائش نہیں ہے جس کی وجہ سے قوم تقسیم در تقسیم ہو رہی ہے اور سامراجی طاقتوں کے مقاصد پورے ہو رہے ہیں۔ احتساب کے نعرے کے ساتھ آنے والی موجودہ تبدیلی سرکار کی ناک کے نیچے کرپشن میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت میں پاکستان کے اسکور میں ہر سال کمی آ رہی ہے، سال 2019 میں یہ 120 ویں، سال 2020 میں 124 ویں اور سال 2021 میں مزید گر کر 140 ویں نمبر پر پہنچ گیا ہے۔ جس کی وجہ سے عوام کی اکثریت بنیادی انسانی حقوق روٹی، تعلیم، صحت، روزگار اور انصاف سے محروم ہیں۔

عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے 84 فیصد سے بھی زیادہ عوام کو صاف پانی میسر نہیں ہے۔ ہر سال تقریباً آٹھ لاکھ پاکستانی بچے خوراک کی کمی کی وجہ سے موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔

ایک ایسا کرپٹ نظام بنا دیا گیا ہے کہ منتخب حکمران گورننس پر توجہ دینے کی بجائے اقتدار کو بچانے کی فکر میں رہتے ہیں۔ کوئی شیطانی قوت چن چن کر بدنام، کرپٹ اور مجرم افراد کو پارلیمنٹ کا رکن بنا دیتی ہے اور پھر ان کے ذریعے ہر غلط کام صحیح طریقے سے کروانے کی کوشش کی جاتی ہے جس کی وجہ سے انتہا پسندی اور دہشت گردی کا ناسور قوم کا مقدر بن چکا ہے۔ مگر بقول شیخ رشید ایک طلسماتی ہاتھ ہے جو کہ وزیراعظم صاحب کے سر پر موجود ہے۔

جو کہ اب پارلیمانی نظام سے صدارتی نظام کی جانب ریاست کو لے جانا چاہتا ہے۔ اس طلسماتی ہاتھ کے ان مسلسل ناکام تجربات نے ریاست کو اس قدر مقروض بنا دیا ہے کہ آنے والی نسلیں قرض کے شکنجے سے باہر نہیں نکل پائیں گی مگر اس بارے میں فکر مند ہونے یا پالیسی بنانے میں کسی کو کوئی دلچسپی نہیں لہٰذا بس اتنا ہی کہہ سکتے ہیں جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments