جیک شے: جاسوسی کے الزام میں پاکستان کو مطلوب انڈین سفارتکار کو فرار کروانے والے انڈین ڈیفنس اتاشی کی کہانی اُن کی بیٹی کی زبانی

مرزا اے بی بیگ - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، دہلی


یہ 26 جنوری سنہ 1966 کا واقعہ ہے جب پاکستان میں انڈیا کے نائب ہائی کمشنر اوما شنکر واجپئی نے اپنے ملک کے یوم جمہوریہ کے موقع پر کراچی میں ایک شاندار تقریب کا اہتمام کیا تھا۔

یہ تقریب دو واقعات کی وجہ سے قابل ذکر رہی۔ ایک 22 دنوں تک جاری رہنے والی سنہ 1965 کی پاکستان، انڈیا جنگ اور پھر اس کے بعد ایک سینیئر سفارتکار اور اُن کے اہلخانہ کا پاکستان سے کامیابی کے ساتھ فرار۔

ان واقعات کی تفصیل ’اسکیپ فرام پاکستان‘ میں ڈیبورا این شے نے تحریر کی ہیں جو اُس وقت کراچی میں اپنے والد اور انڈین ڈیفنس اتاشی جیک شے کے ہمراہ موجود تھیں۔

انڈیا کے نائب ہائی کمشنر اوما شنکر واجپئی کی جانب سے منعقد کی گئی جشن کی یہ تقریب اچانک ہنگامہ خیزی میں بدل گئی کیونکہ تقریب میں موجود انڈین ڈیفنس اتاشی جیک شے کو نامعلوم افراد نے اس عمارت کے ایک باتھ روم میں پکڑ لیا اور انھیں مار مار کر تقریباً نیم مردہ حالت میں پہلی منزل سے عمارت کے احاطے میں پھینک دیا۔

جیک شے کو کراچی کے ایک ہسپتال لے جایا گیا جہاں ڈاکٹر نے معائنے کے بعد کہا کہ ’ابتدائی معائنہ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اِن کے جسم کی تقریبا تمام ہڈیوں کو کسی نہ کسی طور شدید چوٹ پہنچی ہے، لیکن اچھی بات یہ ہے کہ ان کی حالت خطرے سے باہر ہے۔‘

جیک شے کی بیٹی اور ’سکیپ فرام پاکستان‘ کی مصنفہ مزید لکھتی ہیں کہ اُن کے والد کے ساتھ ایسا اس لیے کیا گیا کیونکہ اُن کے والد ایک انڈین سفارتکار اور اُن کے اہلخانہ کو ’پاکستان سے فرار‘ کروانے کے ذمہ دار تھے۔ جس انڈین سفارتکار کو بمعہ اہلخانہ فرار کروایا گیا تھا انھیں پاکستان میں جاسوسی کے الزامات کے تحت گرفتار کیے جانے کا خطرہ تھا۔

ڈیبورا این شے نے انڈین سفارتکار کے پاکستان سے فرار کی اس کہانی کو کچھ اس انداز میں بیان کیا ہے جہاں بعض اوقات حقیقت اور فسانہ کا ایک دوسرے میں ضم ہونے کا گمان ہوتا ہے۔

جہاں اس کہانی میں ٹھوس حقائق موجود ہیں وہیں سفارتکاروں کی زندگیوں پر بھی روشنی پڑتی اور پھر فرار کی وہ غیرمعمولی کہانی جو کسی جاسوسی ناول کی طرح اپنے اندر تمام تر تجسس کو برقرار رکھتی ہے۔

ڈیبورا این شے لکھتی ہیں کہ جب انڈین ہائی کمیشن کے ایک اہم اہلکار پر جاسوسی کے الزامات کے بادل چھانے لگے اور اُن کی گرفتاری سر پر لٹکتی تلوار کی طرح واضح نظر آنے لگی تو اس وقت کے انڈین ہائی کمشنر جی پارتھا سارتھی کو ہدایت دی گئی کہ کسی بھی صورت جلد از جلد انھیں پاکستان سے انڈیا روانہ کیا جائے تاکہ متوقع گرفتاری سے بچا جا سکے۔

ان ہدایات کے بعد ہائی کمشنر نے نائب ہائی کمشنر اوما شنکر باجپئی کے ساتھ تینوں ملٹری اتاشیوں اور فرسٹ سیکریٹری فرینک دیورز کو طلب کیا۔

میٹنگ میں شامل تمام افسران کا متفقہ خیال تھا کہ حکومت پاکستان جاسوسی کی بات کو انتہائی سنجیدگی سے لے گی اور مبینہ جاسوس سفارتکار کے خلاف سخت ترین اقدام سے گریز نہیں کرے گی۔

اور اس کا ایک ہی حل تھا کہ انتہائی رازداری برتتے ہوئے سفارتکار کے پاکستان سے نکلنے کا بندوبست کیا جائے۔

اب سب کے سامنے صرف ایک ہی سوال تھا کہ یہ ذمہ داری کسے سونپی جائے جو اس مہم کو خفیہ طور پر کامیابی سے انجام دے سکے۔ کتاب میں لکھی تفصیلات کے مطابق میٹنگ میں موجود کسی شخص نے بھی اس مہم کے لیے خود کو رضاکارانہ طور پر پیش نہیں کیا اور بالآخر ہائی کمشنر اور ان کے نائب نے ڈیفنس اتاشی جیک شے کے نام پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔

انڈین ہائی کمشنر نے اُن (جیک شے) کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے سوال کیا ’کین یو ہینڈل اِٹ؟‘

جیک بظاہر اس براہ راست سوال کے لیے تیار نہیں تھے لیکن انھوں نے نظریں چرائے بغیر جواب دیا ’یس سر۔‘

اس کے ساتھ ہی ہائی کمشنر نے اعلان کیا کہ ’بہت خوب۔۔۔ ہائی کمشن کے تمام وسائل تمھارے اختیار میں ہیں۔ آپ صرف مجھے رپورٹ کریں گے اور کسی کو نہیں۔ ہم آمنے سامنے بات کریں گے۔ اپنی صوابدیدی طاقت کا دانشمندی کے ساتھ بھرپور استعمال کریں۔‘

جیک نے جواباً کہا کہ ’سر میں اس پر مسٹر دیور (انڈین فرسٹ سیکریٹری) اور مسٹر واجپئی (انڈیا کے نائب ہائی کمشنر) کے ساتھ مل کر کام کروں گا۔‘

ڈیبورا لکھتی ہیں کہ ہر چند کہ جیک انڈین بحریہ کے ایک قابل افسر تھے اور اُن کا 15 برسوں کا تجربہ تھا لیکن کسی ایسے انتہائی مطلوب شخص کو ’دشمن ملک‘ سے نکالنا انتہائی مشکل کام تھا۔

بہر حال وہ لکھتی ہیں کہ اس دور میں انڈیا اور پاکستان کی سرحد اس قدر ناقابل عبور نہیں تھی جتنی اب ہے اور بہت ہی کم چیک پوسٹس ہوا کرتی تھیں۔ اس لیے یہ منصوبہ بنایا گیا کہ پہلے تو اس شخص کو پاکستان سے نکالا جائے جو پاکستان کی انٹیلیجنس کی نگاہ میں ہے اور پھر ان کے اہلخانہ کو نکالا جائے گا۔

چنانچہ جیک اور فرینک سرحد کا نقشہ لے کر بیٹھے۔ وہ اس منصوبے میں کسی اور کو شامل نہیں کرنا چاہتے تھے تاکہ کہیں بات لیک نہ ہو جائے اور پاکستانی انٹیلیجنس حکام مزید چوکنا نہ ہو جائیں۔ بذریعہ ریل، روڈ یا طیارے سے جانے کا سوال ہی نہیں تھا کیونکہ وہاں پاکستانی انٹیلیجنس کی موجودگی یقینی تھی۔

اس لیے فشنگ بوٹ کے ذریعے کراچی سے نکلنا مناسب نظر آیا لیکن پھر اس منصوبے کو بھی مسترد کر دیا گیا کیونکہ پاکستان کی حدود سے انڈیا کی حدود میں پاکستانی کشتی کا داخل ہونا کوئی معقول خیال نہیں تھا اور اس کی وجہ یہ تھی 1965 کی جنگ کے بعد حال ہی میں دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ ہوا تھا اور دونوں ممالک کی بحریہ چوکنی تھی اور گشت بھی معمول سے زیادہ۔

بہرحال سوچ بچار کے بعد سڑک کے ذریعے گجرات کی سرحد سے انڈیا میں داخل ہونے کے منصوبے کو حتمی شکل دی گئی۔

اسی منصوبے کے تحت سفارتکار کو کراچی سے سڑک کے ذریعے بدین پہنچانا تھا اور پھر وہاں سے اونٹ کے ذریعے لکھپت کی سرحد عبور کر کے انڈیا میں داخل ہونا تھا۔

جیک شے نے فرسٹ سیکریٹری اور آئی پی ایس افسر امر سنگھ سے پوچھا کہ ’آپ نے کہا تھا کہ کراچی میں آپ کا ایسے لوگوں سے رابطہ ہے جو سرحد پار کروا سکتے ہیں، تو امر سنگھ نے جواب دیا کہ کراچی ریلوے سٹیشن پر بہت سے لوگ جوتے پالش کرتے ہیں جن میں سے ایک شخص ایسا ہے جس کا شو بکس سبز رنگ کا ہو گا اور اس پر سُرخ ستارہ بنا ہوا ہو گا، وہ ہمارا آدمی ہے۔ ان کے پاس جائیں اور ان سے کہیں کہ اقبال سے بات کرنی ہے۔ اور پھر آپ کسی بینچ پر بیٹھ جائیں ایک آدمی آپ سے آ کر ملے گا۔‘

یہ بھی پڑھیے

چھوٹی سی کشتی اور 56 گھنٹے: نازی قبضے سے فرار ہونے والے بھائیوں کی کہانی

تقسیم کی ایک نامکمل محبت کی کہانی

ڈیتھ مارچ: جب قیدی خواتین کا گروہ ’مردہ لاشوں کا ڈھیر‘ بن کر جرمنی سے فرار ہوا

انھوں نے پہلے منصوبے کے ناکام ہونے کی صورت میں دوسرا منصوبہ بھی بنا رکھا تھا۔ کہ اگر اُن سے راستے میں پوچھ گچھ ہوئی تو وہ کیا کریں گے۔ اُن کے ساتھ جو ڈرائیور تھا اس کا نام پربھ جیوت تھا جو اپنے حلیے سے کسی پٹھان کی طرح لگتا تھا اور وہ مقامی زبان بھی اسی انداز میں فراٹے سے بول سکتا تھا لیکن مشکل یہ تھی کہ جس سفارتکار کو پاکستان سے نکالنا مطلوب تھا وہ نہ تو اپنے چہرے مہرے اور اور نہ ہی اپنی زبان سے کسی طور مقامی لگتے تھے۔

شناخت چھپانے کے لیے کہانی

چنانچہ جیک شے نے اُن کے لیے ایک کہانی ترتیب دی اور پکڑے جانے کی صورت میں سفارتکار کو سکیورٹی اہلکاروں کو یہ کہانی سنانی تھی کہ اُن کا تعلق صومالیہ سے تعلق رکھنے والے عرب مہاجر ہیں اور اُن کا نام بشیر علی ہے۔ کہانی کے مطابق اُن کے والدین زندہ نہیں تھے۔

انھیں جو کہانی رٹوائی گئی اس کے مطابق سفارتکار کو پکڑے جانے پر حکام کو یہ بتانا تھا کہ ’وہ صومالیہ میں پلے بڑھے اور اپنے مالک کی بھیڑ بکریاں چرایا کرتے تھے۔ لیکن جب بڑے ہوئے تو اُن کے مالک نے اُن پر زیادہ بھروسہ کرنا شروع کر دیا اور وہ گھر کا کام کاج کرنے لگے جس دوران انھیں مالک کی لڑکی سے محبت ہو گئی۔ وہ دونوں بھاگنے والے تھے کہ مالک کو پتہ چل گیا اور وہ انھیں جان سے مارنے والے تھے لیکن وہ خوش قسمت تھے کہ وہاں سے بھاگ نکلے اور موغادیشو پہنچے جہاں بندرگاہ پر چھ ماہ تک کام کرتے رہے اور ایک دن وہ ایک جہاز میں رہ گئے اور کراچی کی بندرگاہ پہنچ گئے۔‘

’پھر کراچی میں انھوں نے نوکری کر لی اور اب اپنے مالک کے ساتھ کام کے سلسلے میں بدین جا رہے ہیں۔‘

انھیں یہ بھی باور کرایا گیا کہ اگر کوئی ان سے مذہب کے متعلق سوال کرنے لگے تو وہ کہیں گے وہ بہت دین دار نہیں ہیں اور مذہب کی بہت کم معلومات رکھتے ہیں۔

بہرحال انھیں بدین پہنچنا تھا جہاں سے ہفتے میں دو بار اونٹوں کا قافلہ سرحد کی جانب جاتا تھا اور اسی کے ذریعے انھیں سرحد عبور کرنا تھی۔

اسکیپ فرام پاکستان کے مطابق وہ رات کو نکلے تو سب ٹھیک تھا پھر صبح انھوں نے لوگوں کی نظروں سے بچنے کے لیے گاڑی کو کچے اور ریتیلے راستے پر اُتار دیا جہاں ایک جگہ وہ ایسی پھنسی کے نکل نہ سکی چنانچہ وہ دونوں پیدل ہی چل پڑے۔ بھوک پیاس کی شدت بڑھتی جا رہی تھی کہ انھیں ایک اونٹ گاڑی والا شخص نظر آیا جو اپنے گھر جا رہا تھا۔ دونوں ان کے ہمراہ ہو لیے، رات میں گاڑی والے کے اصرار پر وہ ان کے ہاں ہی ٹھہر گئے اور پھر گاڑی والے نوجوان نے صبح اپنے والد سے اجازت لے کر انھیں بدین پہنچانے کا فیصلہ کیا۔

جیک شے اور مسٹر امر نے بدین میں انتظام کر رکھا تھا جہاں سفارتکار اور پربھجوت کو ایک مخصوص پان کی دکان پر جا کر ایک پرچی دکھانی تھی جس پر لکھا تھا ’سپر برانڈ 5٭55‘ اور انھیں بتایا گيا تھا دو پارسل سرحد پار بھیجنے ہیں۔

پربھجوت وہاں پہنچے تو دکاندار سے کہا: ’ایک پان بنانا بھائی‘ اور پھر اِدھر اُدھر دیکھ کر احتیاط سے وہ پرچی پان والے کو دے دی۔ پان والے نے بھی اُسی احتیاط سے پرچی لی اور پربھجوت کو پان دیتے ہوئے کہا: ’او اچھا، آپ ہیں۔ وہ کھلونوں والی دکان پر چلے جائيں۔ ابا آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ ان سے بولیں کہ یوسف نے بھیجا ہے۔‘

پربھجوت نے شکریہ ادا کیا اور کھلونے والی دُکان کا رُخ کیا اور وہاں جا کر کہا کہ ’جھنجھنا‘ ملے گا، یوسف نے بھیجا ہے۔ دکان پر موجود نوجوان نے کوئی تاثر نہیں کیا لیکن اس کے ساتھ پلنگ پر بیٹھے ایک معمر آدمی نے کہا ’یوسف نے بھیجا ہے، تو ٹھیک ہے میرا لڑکا آپ کا کام کر دے گا۔‘

اور پھر انھوں آواز لگائی ’رضا! اُن کو گھر لے جاؤ اور امی سے کہو ان کے لیے کھانا بنا دیں۔ اندر کا کمرہ صاف کر دو، نہانے کے لیے گرم پانی رکھ دو، یہ شام کو جائیں گے۔‘

دوسری جانب سفارتکار پربھجوت کی راہ دیکھ رہا تھا کہ انھیں ایک پولیس اہلکار نظر آیا جس پر اُن کا خون سوکھنے لگا۔ جب پربھجوت نے اُن کے کندھے پر ہاتھ رکھا تو وہ چونک گئے۔ پربھجوت نے رضا سے کہا کہ وہ پولیس اہلکار کا دھیان بٹائے اور پھر وہ وہاں سے نکل پڑے۔

جانے کی تیاری

جب رضا نے سفارتکار کو دیکھا تو وہ اپنے چہرے سے انھیں مقامی شخص معلوم نہ ہوا لیکن اس نے اسے نظر انداز کر دیا کیونکہ اسے اپنا کام پورا کرنا تھا۔ اس نے سر پر پگڑی باندھی اور گلے میں چادر ایسے ڈالی کہ ٹھوری تک چھپ گئی۔ اور پھر وہ کئی راہداریوں سے ہوتے ہوئے انھیں اپنے گھر لے گیا جہاں انھوں نے آرام کیا اور پیٹ بھر کر کھانا کھایا۔

شام کو بوڑھے شخص نے آ کر کہا کہ ’کراچی کے صاحب سے بات ہو گئی ہے۔ میرا لڑکا یوسف ابھی آتا ہو گا۔ وہ آپ کو پار پہنچا دے گا۔ سرحد سے ایک کلومیٹر پہلے چھوڑ کر وہ واپس چلا آئے گا۔ آپ اس کی بات کو دھیان سے سُن لینا اور وہ جیسا کہے ویسا ہی کرنا۔’

یوسف نے کہا کہ آپ کمبل لپیٹ لیں اور پھر وہ انھیں لے کر نکل گیا۔ کیونکہ رات کو قافلہ نکلنے والا تھا۔ جیسے ہی وہ اونٹ پر سوار ہوئے اچانک مقامی تحصیل دار کی جیپ قافلے کے قریب آ کر رکی۔ اس نے سوال کیا کہ کون ہے؟

یوسف نے جواب دیا: ’سلام صاحب، یوسف ہوں، چاند غلام کا بیٹا۔‘ اچھا اچھا کہاں جا رہے ہو؟

’چچا کو پرلے گاؤں چھوڑنے جا رہا ہوں۔‘ اچھا اچھا، ابا کیسے ہیں؟ جی حضور خیریت سے ہیں۔‘

تھوڑی دیر تک تحصیل دار اونٹوں کو جاتا دیکھتے رہے اور یہاں دونوں کے گلے خشک ہوتے رہے۔ جب تحصیل دار نظروں سے اوجھل ہو گیا تو یوسف نے ماؤتھ آرگن نکالا اور کسی گیت کی دُھن فضا میں بکھیرنے لگا۔

تھوڑی دیر بعد مناظر بدلنے لگے اور ایک جگہ رُک کر یوسف نے انھیں اونٹوں سے اُتارا اور کہا کہ یہاں سے دوسرا کارواں جائے گا جس کے ساتھ ہم ہو لیں گے۔

تھوڑی دیر میں وہ قافلہ آ گیا اور وہ ان کے ساتھ ہو لیے۔ رات بھر اونٹ کی سواری رہی اور رات آنکھوں میں کٹی یہاں تک کہ صبح صادق ہونے لگی اور انھوں نے دیکھا کہ دور سامنے کوئی بستی ہے۔

تبھی یوسف نے اونٹ روکا اور پربھجوت سے کہا کہ آپ دونوں ایک اونٹ پر بیٹھ جائیں۔ میں بس یہیں تک جا سکتا ہوں۔ سامنے آپ کا چھوٹا سا سرحدی گاؤں لکھپت ہے۔ وہاں پہریدار سے بات کر لینا اور آپ کارواں کے ساتھ چلتے رہنا۔ گاؤں پہنچتے ہی آپ محفوظ ہو جائيں گے۔

پربھجوت کے اونٹ پر بیٹھنے سے قبل سفارتکار نے یوسف کو پانچ سو روپے دیے۔ اس نے شکریہ ادا کیا اور رخصت ہو لیا۔ یوسف پاکستان کی جانب مڑا اور اُن کا اونٹ انڈیا کی سرحد میں داخل تھا۔

کتاب کی مصنفہ ڈیبورا یہ ڈرامائی کہانی بیان کرنے کے بعد مزید لکھتی ہیں کہ اس کے بعد ان کے والد کب گھر واپس آئے، کسی کو علم نہ ہوا۔ انھوں نے ان باتوں کو خود سے بھی چھپا رکھا تھا۔

بہرحال اب مرحلہ انڈین سفارتکار کے اہلخانہ کو انڈیا روانہ کرنے کا تھا۔

انڈین ڈیفنس اثاشی اپنے گھر سے دو دنوں سے ’لاپتہ‘ تھے، اس لیے ان کی اہلیہ مرسی بہت پریشان تھیں۔ جب دروازے کی گھنٹی بجی تو وہ دوڑ کر دروازہ کھولنے کے لیے اٹھیں، لیکن شوہر کے علاوہ اشخاص کو ان کے ساتھ دیکھ کر وہ قدرے مایوس ہو گئیں۔ گھر پر سفارتکار کا 15 سالہ بیٹا سیسل اور 16 سالہ سائبل کے علاوہ چھ سال کی بیٹی ملائکہ تھی۔

بہر حال جیک شے نے اُن سے بات کی اور بتایا کہ ان کے شوہر ایک ضروری کام سے باہر گئے ہوئے ہیں۔ انھوں نے مزید بتایا کہ ان کے شوہر نے فون پر ان سے کہا ہے کہ میں آپ لوگوں کو فلم ’بارن فری‘ دکھانے لے جاؤں۔ آپ لوگ ساڑھے پانچ بجے تک تیار رہیں گے۔ بچے فلم دیکھنے کے ذکر سے خوش ہو گئے۔

انھوں نے ریکس ہال میں فلم دیکھی اور واپس چلے آئے۔ جیک چاہتے تھے کہ اگر کوئی ان کی نگرانی کر رہا ہے تو وہ یہ دیکھ لے کہ دونوں خاندان ایک ساتھ فلم دیکھنے گئے تھے۔

دوسرے دن صبح جیک ایک بار پھر مرسی سے ملنے گئے اور انھیں حکومت کے موقف سے آگاہ کیا کہ تمام فیملیز انڈیا واپس جائیں کیونکہ ان کے مطابق یہ جگہ محفوظ نہیں ہے۔ مرد کچھ دنوں تک یہاں رہیں گے اور پھر ہائی کمیشن کے فیصلے کے بعد ہی کچھ طے کیا جائے گا۔

جیک نے کہا: ’آپ سب کو معلوم ہے یہاں پر بہت غیر یقینی صورتحال ہے اس لیے حکومت دشمن ممالک میں ہوشیار رہنا چاہتی ہے۔‘

جیک کی باتیں سُن کر مرسی مزید پریشان ہو گئیں کہ انھیں کب جانا ہے۔ وہ گھریلو خاتون تھیں اور اپنے شوہر کے بغیر کچھ نہیں کرتی تھیں۔

انھوں نے پوچھا کہ کب جانا ہے تو جیک شے نے مضبوط لہجے میں کہا کہ ’ابھی۔‘ آپ جو انتہائی ضروری سامان ہے اسے ایک بیگ میں رکھ لیں، کاغذات، زیورات اور بدلنے کے لیے ایک جوڑی کپڑے کافی ہوں گے۔ کوئی سوٹ کیس نہیں۔‘

مرسی نے پوچھا اور گھر کی باقی چیزوں کا کیا ہو گا تو جیک نے کہا کہ اسے ہم بعد میں دیکھ لیں گے۔ اس کے بعد جلد ہی سب تیار تھے۔

ڈیبورا بتاتی ہیں کہ ان کے والد نے سفارتکار کے اہلخانہ کو بحری راستے سے بھیجنے کی مکمل منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔ اس کے لیے انھوں نے کراچی کے بندرگاہ سے بمبئی (اب ممبئی) جانے والی تجارتی شپ میں دو پارسل بھیجنے کی درخواست کر رکھی تھی۔

وہ بندرگاہ سے بخوبی واقف تھے اس لیے خود ہی گاڑی لے کر وہاں پہنچے۔ ایک پولیس اہلکار نے انھیں روکا لیکن جب انھوں نے اپنا شناختی کارڈ دکھایا تو اس نے رجسٹر میں انٹری کر کے انھیں وہاں جانے دیا۔

ڈیبورا اپنی کتاب میں لکھتی ہیں کہ اس سب کچھ کے باوجود جیک شے کے دل میں ناکامی کا ڈر تھا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ بعض اوقات اچھی سے اچھی منصوبہ بندی بھی ناکامی سے دوچار ہوتی ہے۔

بہرحال انھیں اس تجارتی شپ تک پہنچنے میں زیادہ دشواری نہیں ہوئی، اور انھوں نے بروقت جہاز کے کپتان اجے مشرا کے کیبن کے دروازے پر دستک دی۔

جب تک سفارتکار شخص کے اہلخانہ پہنچے، انھیں چائے پیش کی گئی لیکن اسی دوران جیک نے اجے مشرا کو ڈیک پر لے جا کر وضاحت کی۔ انھوں نے پوچھا مجھے امید ہے کہ آپ کو تفصیل بتاتی دی گئی ہوں گی۔ اس کے جواب میں شپ کے کپتان نے کہا کہ انھیں صرف ایک پارسل کو حفاظت سے بمبئی پہنچانے کے لیے کہا گیا ہے۔ اس میں کسی مہمان یا مسافر کا ذکر نہیں تھا۔

جیک نے موقع کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے انھیں کہا کہ یہ کراچی ہائی کمیشن میں ہمارے ایک سفارتکار کی فیملی ہے۔ ہماری حکومت چاہتی ہے کہ انھیں خاموشی سے یہاں سے اس طرح بھیجا جائے کہ کسی کو پتہ نہ چلے۔ اس کے ساتھ انھوں نے کپتان کو خط حوالے کیا اور کہا کہ جہاز پر ان کی موجودگی کو درج نہ کیا جائے اور اس فیملی کو جہاز کے مالک کے کیبن میں جگہ دی جائے۔ یہ سفر چھوٹا ہے اس لیے کوئی زیادہ دقت نہیں ہونی چاہیے۔‘

اب مرسی اور بچے جہاز میں کپتان کے حوالے تھے۔ کپتان نے انھیں جہاز کے مالک کے کمرے میں پہنچا دیا جہاں پہنچ کر بچے بہت خوش تھے لیکن کپتان مشرا کی پریشانی بڑھ گئی تھی۔

ڈیبورا لکھتی ہیں کہ دو دن بعد وہ بمبئی کے بندرگاہ پر تھے جہاں انھیں لینے کے لیے وہ پاکستان سے فرار ہونے والے سفیر خود موجود تھے۔

اور جیک شے کو ان کے اس کارنامے کے لیے ہر چند کے موت کے منھ میں جانا پڑا تھا لیکن انھیں واپسی پر ووششٹ سیوا میڈل سے نوازا گیا۔

16 اپریل سنہ 1969 کو ایوان صدر میں منعقدہ تقریب میں انڈیا کے صدر وی وی گری نے جب وزیر اعظم اندرا گاندھی اور ان کی کابینہ کے وزرا کی موجودگی میں انڈین بحریہ کے کیپٹن شے کے سینے پر میڈل لگایا تو ان کی اہلیہ ڈوروتھی کی آنکھوں میں آنسو تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments