غذائی قلت کا بحران: دنیا بھر میں امن و سلامتی کے لئے مستقل خطرہ


اقوام متحدہ کی رپورٹ اسٹیٹ آف دی ورلڈ پاپولیشن کے مطابق دنیا میں مجموعی آبادی 7 اعشاریہ 7 ارب سے زائد نفوس پر مشتمل ہے،

جس میں ہر برس اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ 2050 تک دنیا کی آبادی 9 اعشاریہ 7 ارب تک پہنچ سکتی ہے، جب کہ صدی کے آخر تک 11 ارب نفوس تک پہنچے کے اندازے لگائیں گئے۔ ایک اندازے کے مطابق 3 ارب سے زائد لوگ خطہ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ تاہم 30 برس بعد ہر سال تیزی سے بڑھنے والی آبادی میں اضافے کی امکانات کم ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ 2050 کے بعد دنیا کی اس کثیر آبادی میں 24 برس کے عمر کے لوگوں کو تنوع مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔

دنیا کی مجموعی آبادی ایک اعشاریہ ایک فیصد کے حساب سے بڑھ رہی ہے۔ دنیا میں 10 برس تک عمر والے بچوں کی تعداد 125 ملین ہے۔ جس کا اہم توجہ طلب پہلو یہ ہے کہ نوجوانوں اور بچوں کی 89 فیصد آبادی ترقی پذیر ممالک میں رہتے ہیں۔ صنفی امتیاز کی وجہ سے لڑکیوں کو لڑکوں کی با نسبت زیادہ مسائل کا سامنا ہے۔ تاہم دنیا کو اس وقت سب سے بڑا مسئلہ فوڈ سیکورٹی کا ہے۔ جس سے تمام عمر کے لوگ یکساں متاثر ہو رہے ہیں۔ غذائیت کی کمی اور قلت کی وجہ سے دنیا کو آنے والی نسل میں کمزور اور کم صلاحیت والے انسانوں کا سامنا رہنے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔

غذائی قلت اور کمی کی وجہ سے صورت حال اس وقت مزید سنگین نظر آتی ہے کہ دور جدید میں خوراک کے مسائل حل نہ کرنے کی وجہ سے رواں صدی تک 11 ارب انسانوں کے آباد ہونے کے اندازوں میں کروڑوں انسانوں کو بدترین غذائی قلت کا سامنا ہو گا اور خوراک کے حصول کے لئے ترقی یافتہ ممالک اپنے وسائل سے خوراک کا بڑا حصہ ترقی یافتہ ممالک بالخصوص زرعی مملکتوں سے حاصل کرنے کی وجہ سے انسانی بحران میں اضافے کا موجب بن سکتے ہیں۔

انسانی آبادی میں اضافے میں نو ممالک کا بڑا حصہ خیال کیا رہا ہے۔ جس میں پاکستان، بھارت، نائجیریا، ایتھوپیا، تنزانیہ، انڈونیشیا، مصر اور امریکا شامل ہیں۔ صرف براعظم افریقہ میں 13 ملین سے زائد لوگ فاقہ کشی کا شکار ہیں۔ تنگ دست افراد کی تعداد جنوبی ایشیائی ممالک پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش میں بستے ہیں۔ 2019 میں سامنے آنے والے پاکستان غذائی سروے کے مطابق ملک میں ایک تہائی سے زیادہ بچے خوراک کی کمی کا شکار ہیں، 29 فی صد کے قریب وزن کی کمی جب کہ 17 فی صد سے زائد کمزور ہیں۔

ان بچوں میں بڑی تعداد صوبہ سندھ اور بلوچستان سے تعلق رکھتی ہے۔ تیزی سے بڑھتی آبادی کے مقابلے میں خوراک کی کمی دور کرنے کے لئے مناسب اقدامات نظر نہیں آرہے، بلکہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے فصلوں کو نقصانات سے خوراک کے وسائل میں خطرناک حد تک کمی واقع ہو رہی ہے۔ غربت کی کمی کے عالمی منصوبے پر اگر درست طریقے سے عمل کیا جاتا تو لاکھوں انسانوں کو اس وقت اور مستقبل میں غذائی قلت کے بحران کا سامنا نہ ہوتا۔

غذائی قلت کا بحران دنیا بھر میں بقائے امن و سلامتی کے لئے مستقل خطرہ بن چکا ہے۔ مہنگائی، غربت نے معاشرے میں بے روزگاری، چوری ڈکیتی، اغوا برائے تاوان، قتل و غارت، شدت پسندی سمیت گمبھیر مسائل میں اضافہ کیا ہے۔ خوراک کی کمی کا مسئلہ عالمی بنیادوں پر بڑی اہمیت اختیار کرچکا ہے۔ قومی سلامتی کے حوالے سے غذائی بحران کو قابو کرنے کے لئے دنیا کے ہر ممالک کو چیلنجز درپیش ہیں، پاکستان میں بھی فوڈ سیکورٹی ایک ایسا سنگین مسئلہ بن چکا ہے جس کے کئی وجوہ ہیں۔

جن سے نمٹنا ریاست کی ترجیحات میں شامل تو ہیں لیکن اس کے خاتمے کے لئے مافیائی گروہوں کے خلاف ریاستی قوت کا سخت شکنجہ ہی کار گر ہو سکتا ہے۔ سرکاری سطح پر حکمت عملیاں، پالیسیاں اور اقدامات ہی کسی بھی ملک کی فوڈ سیکورٹی کو یقینی بنا سکتا ہے۔ بد قسمتی سے پاکستان غذائی قلت اور خوراک کی کمی کے بدترین بحران سے گزر رہا ہے، اشیا ء خورد نوش میں گرانی، زراعت میں فصلوں کی ترجیحات میں تبدیلی اور مافیا کے ہاتھوں ذخیرہ اندوزی سے کمیابی جیسے مسائل مملکت کے لئے کڑے چیلنج ہیں۔

1974 میں عالمی سطح پر دنیا کو خوراک کی کمی کے چیلنج کا ادراک ہو چکا تھا کہ آنے والی دہائیوں میں دنیا کی بڑھتی آبادی کو غذائی قلت کا سامنا ہو گا۔ فوڈ سیکورٹی کانفرنس میں اس اہمیت کو اجاگر کیا گیا تھا کہ دنیا کے جملہ افراد تمام اوقات میں اپنی بنیادی ضروریات کے مطابق خوراک کے طبیعی اور معاشی دسترس رکھتے ہیں۔ 1986 میں جب عالمی بنک کی رپورٹ میں جنگوں اور خانہ جنگیوں، قدرتی آفات اور معاشی بحران سے دوچار ممالک کے مسائل کو اجاگر کیا تو ایک فعال اور صحت مند زندگی گزارنے کے لئے بہتر اور مکمل خوراک کی اہمیت کو شدت سے محسوس کیا گیا۔

1996 میں خوراک اور نشو و نما کے لئے بہتر غذا کے تصور نے مزید وسعت اختیار کی اور فعال اور صحت مند معاشرے کے لئے غذائیت کے معیاری و توانائی کے اجزا پر خصوصی اہمیت پر توجہ مرکوز کی جانے لگی۔ 2001 میں خوراک کی کمی اور تحفظ کے لئے طبیعی، سماجی اور غذائیت سے بھرپور ترجیحات کو اپنانے کی ضرورت اپنانے کا رجحان پیدا ہوا۔ 2000 کے آغاز میں اقوام متحدہ کے 189 ممالک نے ملینیم ترقیاتی اہداف کو طے کرتے ہوئے بنیادی تعلیم، زچہ و بچہ کی صحت، صنفی مساوات اور دیگر شعبوں میں بہتری کے ساتھ 2015 میں غربت کی شرح کو نصف کرنے کا عہد کیا تھا، لیکن ایسا ممکن نہیں ہوسکا اور غربت میں اضافے سمیت فوڈ سیکورٹی کے مسائل میں خطرناک حد تک بڑھے، یہاں تک کہ افغانستان جیسے ملک کے ڈھائی کروڑ افراد کو غذائی قلت کا سامنا ہے۔

جیسے اس صدی کا سب بڑا بحران قرار دیا جا رہا ہے۔ وفاقی وزارت خزانہ کی اکنامک اپ ڈیٹ 2021 کے مطابق مالی سال 2015۔ 16 میں ملک میں خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی مجموعی شرح 24.3 فیصد تھی جس میں شہروں میں غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی شرح 12.5 فیصد تھی جبکہ دیہی علاقوں میں خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی شرح 30.7 فیصد تھی۔

پاکستان کی آبادی 22 کروڑ سے زائد ہے ایک اندازے کے مطابق 2030 تک آبادی 26 کروڑ تک پہنچ جانے کا امکان ظاہر کیا گیا۔ پاکستان کو آبادی میں اضافے کے اعتبار دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔ قدرت کی تمام وسائل اور دنیا کا بہترین قدرتی نہری نظام، زرخیز زمین، چاروں موسم کے علاوہ ہر نعمت سے مالامال ملک ہونے کی وجہ سے دنیا میں بہترین ممالک میں پاکستان کا شمار کیا جاتا ہے۔

لیکن توجہ طلب پہلو یہ ہے کہ آبادی کے مسلسل اضافے اور 80 کے دہائی سے غیر قانونی تارکین وطن سمیت لاکھوں مہاجرین کی آمد نے مملکت کے مسائل میں غیر متوقع اضافہ کر دیا۔ بالخصوص ہمسایہ ممالک میں خوراک کی ضروریات پوری کرنے کے لئے اسمگلنگ نے پاکستان میں فوڈ سیکورٹی کے بحران میں شدت سے اضافہ کیا۔ ملک کی قریبا 68 فیصد دیہی آبادی اور ملک کے مجموعی 21 فیصد قومی پیداوار میں زرعی شعبہ پر انحصار کیا جاتا ہے۔ چھوٹے بڑے 86 فیصد کاشت کار زرعی رقبے کے 48 فیصد مالک اور 52 فیصد کی اراضی پر صرف 14 فیصد جاگیردار کاشت کاری کرتے ہیں۔ ملک کے بڑے حصے، جاگیر داروں کی ملکیت ہونے کے باعث ان کی ترجیحات نے بھی خوراک کی کمی بڑا منفی کردار ادا کیا ہے۔

دوسری جانب افغان جنگ، توانائی بحران، مہنگی بجلی اور زرعی و صنعتی آلات میں جدید ذرائع کا کم استعمال اور صارفین کی قوت خرید کی کمی، موسمیاتی تبدیلیوں سے بارشوں اور سیلابی صورتحال نے زرعی و صنعتی شعبے کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ وفاقی وزارت خزانہ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملک میں خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی مجموعی شرح 21.9 فیصد ہے جس میں سے شہروں میں خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی شرح 11 فیصد ہے جبکہ دیہی علاقوں میں خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی شرح 28.2 فیصد ہی بالخصوص افرادی قوت کی بے روزگاری اور کم اجرت نے خوراک اور بھرپور غذائی قلت کی کمی نے غریب اور متوسط طبقے کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔

خوراک تک رسائی میں دشواریوں میں پیٹرولیم مصنوعات میں مسلسل اضافہ، نقل و حرکت کے ذرائع میں اخراجات بڑھنے اور کم اجرت رکھنے والوں کو ضروری اشیا ء کا حصول کسی بھی طبقے کے لئے مشکل بنا دیا ہے۔ سرکاری محصولات میں اضافہ اور دوسری جانب پیداواری لاگت میں بھی اضافے نے قوت خرید پر اثر ڈالا ہے۔ خطے میں تبدیل ہوتی صورت حال کی وجہ سے بین الصوبائی سطح سے ہمسایہ ممالک میں غذائی اسمگلنگ نے درآمدات کو بڑھایا، جو روپے کی قدر کم ہونے کی وجہ سے عام فرد کے لئے بدترین مہنگائی کا باعث بنا اور کرونا جیسی عالمی وبا کی وجہ سے سفید پوش طبقہ بھی خوراک کے حصول کے لئے اپنی چادر کو پیروں سے باہر جانے کی کوشش میں جتا ہوا ہے۔

پاکستان اس وقت بدترین غذائی قلت کا شکار ہو رہا ہے، جو زرعی اجناس برآمد کی جاتی تھی، اب گراں نرخوں پر درآمد کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں، پاکستانی معیشت سخت دباؤ کا شکار ہے۔ بلند مالیاتی خسارہ اور قرضوں کے بوجھ نے ریاست کی کمر دوہری کردی ہے۔ توانائی کی قلت نے فوڈ سیکورٹی کے سنگین چیلنجز پیدا کیے ہوئے ہیں۔ کم سرمایہ کاری کی تشویش ناک شرح کی وجہ سے عالمی مالیاتی اداروں سے کڑی شرائط پر لئے جانے والے قرضے اور سود کی ادائیگیوں اور سود ادا کرنے کے لئے بھی قرضے حاصل کرنے کی وجہ کے باعث عوام کو مہنگائی کے سونامی کا سامنا ہے۔ افلاس، بھوک اور غذائی عدم تحفظ کے شکار عوام کو جہاں بھرپور غذائیت کی کمی کا سامنا ہے تو پینے کے صاف پانی کی عدم فراہمی نے بھی مشکلات میں اضافہ کیا ہوا ہے۔

پاکستان کو غذائی قلت کے خاتمے کے لئے زرعی ایمرجنسی نافذ کرنا ہوگی، صنعت کو مقامی سطح پر فروغ دینا ہو گا۔ خوراک سے متعلقہ تمام درآمدی اجناس کی پیداوار کو ملک کے مخصوص علاقوں میں افزائش کے رجحان کو اپنانے کی اہمیت بڑھانا ہو گا۔ ملک کا بڑا حصہ دیہی علاقوں پر مشتمل ہے۔ فوڈ سیکورٹی کے لئے جدید ٹیکنالوجی کو اپنانے کے لئے اقدامات بڑھانا ہوں گے۔ مستقبل کی خوراک میں شہری ضروریات میں ملٹی نیشنل کمپنیوں، اور مخصوص اقسام کی مہنگی خوراک کی حوصلہ شکنی کی ضرورت صحت عامہ کے مسائل کو قابو کرنے میں بھی مدد دیں گے۔

پیداواری عمل میں تکنیکی خامیوں کو دور کرنے کے لئے سرکاری ریاستی اقدامات کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ گندم کی کاشت کے علاوہ دیگر غذائی اجناس کے لئے نئی ٹیکنالوجی کو اپنانا ہو گا۔ خوردنی تیل، فصلات، اور ادویاتی اہمیت اور افادیت کو اختیار کرنے سے قیمتی زر مبادلہ بچایا جاسکتا ہے بلکہ اضافی کاشت کے فوائد سے زر مبادلہ حاصل بھی کیا جاسکتا ہے۔ قومی وسائل کو جو ذرائع اپنے فروعی مقاصد کے لئے استعمال کر رہے ہیں ان کی حوصلہ شکنی کرنا ہوگی۔ معاشی پالیسیوں کے تسلسل کو برقرار رکھنے کے لئے قلیل المیعاد پالیسیوں کے ساتھ طویل المدت آزاد پالیسی اور اسٹریٹجی پر عمل درآمد ناگزیر ہے۔

گندم کی پیداواری لاگت اور امدادی قیمتوں پر خریداری کی پالیسی میں دیکھنا چاہے کہ چھوٹے کاشت کاروں کے بجائے اس سے بڑے کاشت کار زمین دار کو دوہرا فائدہ تو نہیں پہنچ رہا۔ مربوط نظام کو اپنا نا ہو گا۔ غذائی قلت پیدا کرنے والے سٹے بازوں اور ذخیرہ اندوزوں کو قانونی گرفت میں لانے کے لئے حکومت کو ایسے عناصر پر نظر رکھنا ہوگی جو اپنے اثر رسوخ کا فائدہ اٹھا کر بے پناہ مراعات بٹورتے ہیں، مفادات کے ٹکراؤ کا شکار ہونے والے سیاسی شخصیات کو ایسے عمل سے دور رکھنا ضروری ہے جس میں ان کا مالی فائدہ قومی ضرورت پر حاوی نظر آتا ہو۔

فوڈ سیکورٹی کو ڈیجیٹل سسٹم کے تحت حکومتی رٹ میں لانا ہو گا۔ خصوصی منصوبے برائے خوراک میں شفافیت کو مد نظر رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ نقد رقوم اور امدادی پیکجز پر اربوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں لیکن نچلی سطح پر اس طرح کی تقسیم سے کسی خاندان یا فرد کو مستقل فائدہ نہیں پہنچتا، کم مالیت کی گھریلو انڈسٹری کے ذریعے کم آمدنی والی خاندانوں کی حوصلہ افزائی کی جا سکتی ہے اس طرح انہیں اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی قوت فراہم ہوگی اور اربوں روپے غربت کے خاتمے کے نام پر خرچ کیے جاتے ہیں انہیں بتدریج ڈیجیٹل طریقے سے منقسم کیا جائے تو شارٹ ٹرم اور طویل المدت اقدامات سے غربت کے خاتمے اور خوراک کی کمی پر قابو پانے میں مدد مل سکتی ہے۔

دنیا میں ساڑھے تین کروڑ لڑکیاں تعلیم سے محروم ہیں اور بدقسمتی سے ان میں 50 لاکھ سے زائد بچیوں کا تعلق پاکستان سے ہے۔ محکمہ تعلیم سندھ اور جاپان انٹرنیشنل کارپوریشن ایجنسی (جائیکا) کی تیار کردہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان میں 2 کروڑ 2 لاکھ بچے اب بھی اسکول سے باہر ہیں۔ تعلیم سے محروم رہ جانے والے بچوں کی سب سے زیادہ تعداد سندھ میں ہے۔ انہیں تعلیمی وظائف دے کر ان کے والدین کو کاٹیج انڈسٹری کا حصہ بنا کر، انٹر نیٹ کی جدید سہولت سے فوائد اٹھانے کی خصوصی تربیتی ورکشاپ علاقائی سطح پر منعقد کی جائیں تو معاشی تنگ دستی کے شکار خاندان، مالی دشواریوں کی وجہ سے لڑکیوں کو بوجھ سمجھ کر آنے والی نسل کو بھیڑ میں بدلنے کا رجحان تبدیل کر سکتے ہیں۔ دیگر اقدامات میں ووکیشنل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ، دستکاری اسکول، اسکول فیڈنگ، محفوظ مامتا اور بچوں کا غذائی پروگرام، صوبوں میں عالمی ادارہ خوراک، عالمی ادارہ صحت، یونیسیف اور یونیسکو کی مدد سے تخفیف غربت کے مختلف منصوبے شامل ہیں۔

پالیسی ساز اداروں کو گندم کے علاوہ متبادل ذرائع مثلا چاول، مکئی، باجرہ، اور جوار، مرغبانی، مچھلی بانی اور حلال جانوروں کی افزائش، سبزیات اور غذائی بیجوں کو محفوظ بنانے اور تجارتی بنیادوں پر استعمال کو ثانوی طور پر قومی سطح پر فوڈ سیکورٹی کے لئے استعمال کرنے کے رجحان کو بڑھانا ہو گا۔ ملک کے ہر حصے کی آب و ہوا کے مطابق خوراک کے تحفظ کو ممکن بنانے کے لئے تحقیقاتی اداروں کی استعداد کو بڑھانا ہو گا۔ ملک کے ہر حصے میں موسم کی نوعیت مختلف ہوتی ہے، کم زرخیز زمینوں پر جن اجناس کی افزائش ہو سکتی ہے انہیں بنجر بننے سے بچانے کے لئے سائنسی طریق کار کو اپنانا ہو گا۔

دیہی سطح پر فوڈ سیکورٹی کو یقینی بنانے کے لئے نئی ٹیکنالوجی کو رواج دینا ناگزیر ہے۔ ماڈل ولیج جہاں کاشت کاروں میں خوش حالی کا باعث بن سکتے ہیں تو دوسری جانب ملک کو درپیش غذائی مسائل کے حل کے لئے معاون کار ثابت بھی ہوسکتے ہیں۔ فوڈ سیکورٹی کی پالیسیوں میں چھوٹے بڑے کاشت کاروں کو براہ راست مشاورتی عمل میں شریک کرنے سے مڈل مین کا کردار ختم کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح انہیں براہ راست نمائندگی کے ساتھ ساتھ جدید سائنس کو سمجھنے کے مواقع و ذرائع بھی میسر ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments