طالبان حکومت کو درپیش مسائل اور اوسلو مذاکرات


 

افغانستان کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی کی قیادت میں طالبان وفد نے اپنے پہلے بیرون ملک دورے کے سلسلے میں ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں یورپی ممالک کے حکام اور افغان سول سوسائٹی کے نمائندوں کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کر کے دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ اگر دنیا ان کی حقیقت تسلیم کر لے تو وہ کسی بھی ملک اور بین الاقوامی ادارے سے روابط استوار کر کے افغان عوام کے وسیع تر مفاد میں نہ تو کوئی ہچکچاہٹ محسوس کریں گے اور نہ ہی اس ضمن میں کسی مداہنت سے کام لیں گے۔

گزشتہ اتوار سے شروع ہونے والے اس تین روزہ دورے کے دوران طالبان وفد نے بند کمرے میں ہونے والی میٹنگز میں ناروے کے حکام کے ساتھ ساتھ امریکہ، فرانس، برطانیہ، جرمنی، اٹلی اور یورپی یونین کے نمائندوں کے علاوہ افغان تارکین وطن سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کی تنظیموں کے نمائندوں سے بھی ملاقاتیں کی ہیں۔ طالبان کا گزشتہ سال اگست میں افغانستان میں دوبارہ کنٹرول سنبھالنے کے بعد مختلف یورپی ملکوں کے ساتھ یہ پہلا براہ راست رابطہ ہے جب کہ اس موقع پر اوسلو میں موجود افغانستان کی سول سوسائٹی اور افغان تارکین وطن کے نمایندوں نے مغربی سفارت کاروں کو اپنے مطالبات اور جنگ زدہ ملک کی زمینی صورت حال سے آگاہ کر کے طالبان کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں انسانی حقوق سے متعلق امور کو بھی موضوع بحث لانے کا مطالبہ کیا ہے۔

پہلے روز کے مذاکرات کے بعد افغان نائب وزیر ثقافت و اطلاعات ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ اجلاس کے شرکاء نے تسلیم کیا کہ افغانستان کے تمام مسائل کا واحد حل افہام و تفہیم اور مشترکہ تعاون میں مضمر ہے اور شرکاء نے اس بات پر زور دیا کہ تمام افغانوں کو ملک میں بہتر سیاسی، اقتصادی اور سلامتی کے نتائج کے لیے مل جل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اوسلو کے ان مذاکرات کے بارے میں توقع ظاہر کی جا رہی تھی کہ اس موقع پر طالبان اپنے اس مطالبے پر زور دیں گے کہ امریکا اور دیگر مغربی ممالک افغانستان کے منجمد کردہ قریباً 10 ارب ڈالر کے اثاثے بحال کریں کیونکہ ملک کو اس وقت غیریقینی انسانی صورت حال کا سامنا ہے اور بروقت مالی وسائل مہیا نہ ہونے کی صورت میں ایک بڑا انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اوسلو مذاکرات میں طالبان کی جانب سے فنڈز کی درخواست کے جواب میں مغربی طاقتیں افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کو اپنے ایجنڈے میں شامل کروا سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ مغربی ممالک طالبان انتظامیہ سے افغانستان کے اقلیتی، نسلی اور مذہبی گروہوں کو اقتدار میں شامل کرنے کا اپنا پرانا اور دیرینہ مطالبہ بھی دہرا سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ طالبان نے دوبارہ برسراقتدار آنے کے بعد سے خواتین پر بعض پابندیاں عاید کر رکھی ہیں۔

ان پر صحت اور تعلیم کے شعبوں سے باہر دوسرے محکموں میں ملازمتوں پر پابندی عاید کی گئی ہے، ان کی تعلیم تک رسائی چھٹی جماعت سے آگے محدود کردی گئی ہے اور انھیں گھروں سے باہر نکلتے وقت جہاں حجاب پہننے کا حکم دیا گیا ہے وہاں انہیں بغیر محرم کے اپنے گھروں سے باہر نہ نکلنے کے احکامات بھی جاری کیے گئے ہیں حالانکہ یہ حقیقت ہے کہ طالبان نے اس مرتبہ اپنی ماضی کی حکومت کے برعکس مکمل برقعہ پہننے کی سخت پابندی عاید نہیں کی ہے۔ اسی طرح طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد اپنے ایک حالیہ بیان میں بچیوں کی تعلیم سے متعلق یہ وضاحت بھی کرچکے ہیں کہ وہ مارچ سے بچیوں کی تعلیم پر عائد پابندی ختم کر دیں گے اور انہیں الگ تعلیمی اداروں میں تعلیم کے برابر مواقع فراہم کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔

یہاں یہ امر بھی پیش نظر رکھنا چاہیے کہ طالبان حکومت کو ابھی تک کسی بھی ملک نے تسلیم نہیں کیا ہے اور ناروے کے وزیر خارجہ اینیکن ہیٹ فیلڈ نے بھی اس بات کو واضح کیا ہے کہ اوسلو مذاکرات طالبان کی قانونی حیثیت تسلیم کرنے کے لیے نہیں کیے جا رہے ہیں بلکہ ان کا مقصد طالبان کے ساتھ افغان عوام کے وسیع تر مفاد میں ورکنگ ریلیشن شپ قائم کرنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں ملک کے ڈی فیکٹو حکام سے بات کرنی چاہیے۔ ہم سیاسی صورتحال کو اس سے بھی بدتر انسانی تباہی کی طرف لے جانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔

بقول ان کے اگست کے بعد سے افغانستان میں انسانی صورتحال انتہائی ابتر ہو چکی ہے۔ بین الاقوامی امداد جو افغان بجٹ کے تقریباً 80 فیصد پر مشتمل ہوتی تھی، اچانک رک گئی ہے اور امریکہ نے افغان مرکزی بینک کے 9.5 بلین ڈالر کے اثاثے بھی منجمد کر دیے ہیں۔ بے روزگاری آسمان کو چھو رہی ہے اور کئی مہینوں سے سرکاری ملازمین کی تنخواہیں ادا نہیں کی گئی ہیں، ایک ایسے ملک میں جو پہلے ہی شدید خشک سالی کا شکار ہے اس کو اپنے حال پر چھوڑنا انسانیت کی توہین ہوگی۔ اقوام متحدہ کے مطابق بھوک سے 23 ملین افغانوں یا 55 فیصد آبادی کو خطرہ لاحق ہے جس کے لیے اس سال عطیہ دینے والے ممالک سے 4.4 بلین ڈالر کی فوری ضرورت ہے۔

دوسری جانب طالبان کے ماضی پر نظر رکھنے والے بعض تجزیہ کار طالبان کی جانب سے مغربی ممالک کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھانے اور اس سلسلے میں اوسلو مذاکرات میں بخوشی شریک ہونے کے طالبان کے فیصلے کو اگر ایک طرف طالبان کی پالیسیوں اور رویے میں لچک کا واضح مظہر قراردیا جا رہا ہے تو دوسری جانب اس پیش رفت کو ماضی کے برعکس مغربی دنیا کے طالبان سے متعلق موقف میں بھی ایک بڑی اور حقیقت پسندانہ تبدیلی سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ دراصل اس حقیقت کو کوئی بھی نہیں جھٹلا سکتا کہ طالبان گورننس کے معاملے میں نئے اور ناتجربہ کار ہیں البتہ ان کے پاس اپنے آپ کو مغربی دنیا سے تسلیم کروانے کے سلسلے میں اوسلو مذاکرات ایک اچھا موقع اور نیک شگون ثابت ہوسکتے ہیں۔ #


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments