مراقبہ، روح، جنونیت اور ایٹمی جنگ


ایک بار میرے اندر ایک عجیب خواہش پیدا ہو گئی تھی کہ بہت اونچے پہاڑ کی چوٹی پہ شیشے کا بنا گھر ہو۔ اس کے چاروں طرف دبیز برف باری ہو چکی ہو

اور میں اس شیشے کے گھر میں اکیلا بیٹھا بھاپ اگلتی چائے پی رہا ہوں۔ ایک بار خواہش ہوئی کہ سائبیریا کا برف سے ڈھکا وسیع میدان ہو۔ میلوں تک کوئی نہ ہو اور اس میدان میں اکیلا کھڑا میں سوچ رہا ہوں کہ مجھے کہاں جانا ہے؟

ایک بار مجھے ایک ماہر مراقبہ ملا۔ اس نے کہا مراقبہ کی ایک قسم میں انسان کی روح پہاڑوں، جنگلوں، سمندروں اور برف کے میدانوں کے اوپر پرواز کرتی ہے اور اپنے کمرے میں حالت مراقبہ میں بیٹھا شخص نیچے نظر آنے والے سارے مناظر دیکھ رہا ہوتا ہے۔ میں نے بھی مراقبہ کی وہ مشق کر ڈالی۔ چند دنوں بعد واقعی روح نے پرواز کرنا شروع کر دیا اور جیسے اس شخص نے بتایا تھا ویسے سب کچھ نظر آنا شروع ہو گیا۔ ان مناظر کے دوران برف کے میدانوں میں لوگوں کے لکڑی سے بنے خوبصورت گھر بھی دیکھے اور باہر گھومتے ٹماٹر جیسے سرخ چہرے والے لوگ بھی۔ بعد میں سر میں درد رہنا شروع ہو گیا تو وہ مراقبہ چھوڑ دیا اور دوبارہ کبھی مشق نہ کی۔

گزشتہ کچھ عرصہ سے میں بے رحمی اور سفاکی کی حد تک حقیقت پسند ہو چکا ہوں۔ میری روح یا نفس کے اندر آنے والی اس تبدیلی نے جہاں مجھے بہت ساری خواہشات سے آزاد کر دیا ہے وہاں ایک عجیب قسم کے سکون سے بھی ہمکنار کیا ہے۔ اگر انسانی لاشعور کے خفیہ گوشوں اور جبلتوں کو سمجھ لیا جائے تو پھر سمجھنے والے کے اندر رومانس اور منہ زور عشق والا جذبہ مر جاتا ہے البتہ ایک خاص قسم کی رومانوی محبت جنم لیتی ہے۔ وہ رومانوی محبت ضروری نہیں کہ جنس مخالف سے ہو۔ وہ قدرت کی بنائی ہر چیز میں جمالیات کو تلاش کر کے اس سے محبت کرتی ہے۔

کبھی کبھی میرے اندر عجیب سے سوالات پیدا ہو جاتے ہیں۔ مثلاً، اگر جنوبی ایشیا میں ایٹمی جنگ ہو جاتی ہے اور اس کے نتیجہ میں دو ارب آبادی کا صفایا ہو جاتا ہے تو اس کے بعد کیا ہو گا؟

تصور کریں جنوبی ایشیا میں ایٹمی جنگ ہو چکی ہے۔ ہم سب مر چکے ہیں۔ ہم میں سے کوئی بھی زندہ نہیں بچا۔ ہمارے مویشی تک بھاپ بن کے اڑ چکے ہیں۔ جنوبی ایشیا کی زمین ہزاروں سینٹی گریڈ درجہ حرارت پہ تپ رہی ہے۔ غصہ آ رہا ہے؟ حقیقت سے فرار چاہتے ہو؟

اگر کوئی ایک جنونی غصے، جوش اور جذبات میں آ کے بٹن دبانے کی غلطی کر بیٹھتا ہے تو کیا دوسرا جنونی جواب میں بٹن نہیں دبائے گا؟ نہ کوئی مولوی رہے گا، نہ کوئی پنڈت، نہ بھکشو، پادری اور گرو، نہ کوئی لبرل اور نہ کوئی ملحد۔

اب آپ سوچ رہے ہوں گے اکبر شیخ اکبر نے اس سوال کا جواب تو دیا ہی نہیں کہ زمیں ہزاروں فارن ہائیٹ پہ تپ رہی ہے تو اس کے بعد کیا ہو گا؟ تو پیارے دوستو! اس کا جواب یہ ہے کہ سپر پاور ممالک بارشیں اور برف برسانے والی ٹیکنالوجی ایجاد کر چکے ہیں۔ وہ جنوبی ایشا پہ اس ٹیکنالوجی کے ذریعے مسلسل برف باری کریں گے۔ جب کچھ سال بعد جنوبی ایشیا ٹھنڈا ہو جائے گا تو پھر وہ اپنے لوگوں کو لا کے آباد کریں گے یعنی نیا کالونیل ازم لیکن ہم نہیں ہوں گے۔

زندہ رہنا ہے نا اور اپنی نسلوں کو بھی زندہ دیکھنا ہے تو پھر جنونیت کی بجائے امن کو سپورٹ کرو اور امن کی سوچ کو فروغ دو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments