ٹانگیں کٹنے کے بعد کچھ کرنے کا جذبہ جنون میں تبدیل ہو گیا


سدرہ سلطان ضلع سیالکوٹ کی تحصیل ڈسکہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے تعلق رکھتی ہیں۔ پانچ سال کی عمر میں سدرہ روڈ ایکسیڈنٹ کا شکار ہوئیں۔ جس کے نتیجے میں ایک ٹانگ کاٹنی پڑی۔ تیرہ سال کے علاج کے بعد 2010 ء میں دوسری ٹانگ بھی کاٹنا پڑی۔ سدرہ نے بی۔ ایڈ، ایم۔ اے انگلش اور اردو کیے ہیں۔ راولپنڈی کے حبیب بینک کی برانچ میں جاب کرتیں ہیں۔ پشاور روڈ پر واقع ڈاکٹر نوشابہ ملک کے آئی۔ ایل سینٹر میں رہتی ہیں۔ کھیلوں میں خاصی دلچسپی رکھتی ہیں۔ 2021 ء میں خیبر پختون خواہ میں ہونے والے انتیسویں سپورٹس گالا میں بیڈمنٹن کی ٹرافی اپنے نام کرچکی ہیں۔ اس کے علاوہ معاشرتی مسائل پر کالمز اور کہانیاں بھی لکھتی ہیں۔

والد صاحب پاک فوج سے ریٹائرڈ ہیں۔ امام مسجد ہیں ٹائم پاس کرنے کے لئے چھوٹی سی دکان بھی کھول رکھی ہے، جبکہ والدہ خاتون خانہ ہیں۔ سدرہ کے دو بھائی ہیں۔ دنوں شادی شدہ، خوشحال زندگی بسر کر رہے ہیں۔

والد صاحب اللہ تعالٰی سے بیٹی کی خواہش کرتے تھے۔ سدرہ کی پیدائش پر والدین نے خوب خوشیاں منائیں۔ سدرہ پیدائشی طور پر نارمل پیدا ہوئیں۔ پانچ سال کی عمر میں ایک ٹریفک حادثہ ہوا جس کے نتیجے میں سدرہ کی دونوں ٹانگیں بری طرح متاثر ہوئیں۔ ڈاکٹرز نے ٹانگیں کاٹنے کا مشورہ دیا۔ جسے والد صاحب نے رد کر دیا۔

سدرہ والد صاحب کی لاڈلی بیٹی تھیں۔ سدرہ کی ہمت بڑھانے کے لئے والد صاحب اسلامی تاریخ کے واقعات سنایا کرتے۔ والد صاحب اکثر کہا کرتے کہ انسان اتنی زندگی جیتا ہے جتنی وہ جینا چاہتا ہے۔ جب اس کا زندگی سے دل بھر جاتا ہے تو خدا اسے اپنے پاس بلا لیتا ہے۔

چھٹی جماعت میں سدرہ کی ملاقات پروفیسر وسیم فاروقی صاحب سے ہوئی۔ جو پروفیسر ہونے کے ساتھ ساتھ مذہبی سکالر بھی ہیں۔ پروفیسر صاحب نے سدرہ کی زندگی کو بدل کر رکھ دیا۔ اعتماد بحال کیا سمجھانے کی کوشش کی کہ دنیا کا ہر امتحان انسان کی شخصیت، کردار اور اعتماد کو مزید بحال کرنے کے لئے ہوتا ہے۔ ہم میں سے جو ثابت قدم رہتے ہیں وہ بڑے انسان بن جاتے ہیں اور جو مقابلہ نہیں کر پاتے وہ پیچھے رہ جاتے ہیں۔

اللہ تعالٰی انسان سے ستر ماؤں سے بھی زیادہ پیار کرتا ہے۔ مشکلات سکول کے امتحانات کی طرح ہوتی ہیں جن کا مقصد انسان کو اگلی کلاس میں پرموٹ کرنا ہوتا ہے۔ ٹیچر کی باتیں سدرہ کے دل کو اس طرح لگیں کہ انھوں نے باقاعدگی سے نماز پڑھنا شروع کر دی اور خوش رہنے لگیں۔

”گرتے ہیں شہسوار ہی میدان جنگ میں
وہ طفل کیا کرے گا جو گھٹنوں کے بل چلے ”

سدرہ کا علاج تیرہ سال چلتا رہا۔ تیرہ سالوں میں ملک کے اچھے ہسپتال، نامی گرامی ڈاکٹرز، حکیم اور زیارتوں کے چکر بھی لگائے۔ ایک وقت ایسا بھی آیا جب سدرہ کی ٹانگ میں کیڑے پڑ گئے۔ جس کی وجہ سے ٹانگ سے بد بو آنا شروع ہو گئی۔ کلاس کے بچوں نے سدرہ کے پاس بیٹھنا چھوڑ دیا۔ ڈاکٹرز کے پینل نے سدرہ کا معائنہ کیا۔ معائنے کے بعد سدرہ کو کمرے سے باہر جانے کا کہا۔ سدرہ جانتی تھیں کہ ڈاکٹر ان کے والد سے کیا کہنے والے ہیں۔

سدرہ نے ڈاکٹر سے کہا کہ آپ نے جو بات کرنی ہے پہلے مجھ سے کریں۔ ڈاکٹر نے کہا کہ بیٹا آپ کی ٹانگ کاٹنے کے سوا اب کوئی چارا نہیں رہا۔ سدرہ نے دل مضبوط کرتے ہوئے والد صاحب کو بلایا۔ اس بار خطرہ سدرہ کی جان کو تھا اس لیے والد صاحب مان گئے۔ والد صاحب کی خواہش تھی کہ ٹانگ کم سے کم کاٹی جائیں۔ سدرہ نے والد کو دلاسا دیتے ہوئے سمجھایا کہ جہاں تک مرض کے اثرات ہیں۔ وہاں تک کاٹنے کی اجازت دے دیں۔ آپریشن 2010 ء میں جناح ہاسپٹل میں ہوا۔

آپریشن کے دن تک اس بات کا والدہ صاحبہ کو علم نہ تھا۔ آپریشن کے دن سدرہ نے زندگی میں پہلی بار اپنے والد کو روتے ہوئے دیکھا۔ سدرہ سے پوچھا گیا کہ آپ کو آپریشن تھیٹر ویل چیئر پر لے جائیں یا سٹریچر پر، سدرہ نے کہا کہ بکرا قربان گاہ تک اپنی ٹانگوں پر چل کے جانا چاہتا ہے۔ نرس کہنے لگی کہ تمھیں رونا نہیں آ رہا، سدرہ نے جواب دیا کہ اگر رونے سے میں ٹھیک ہو سکتی ہوں تو رو لیتی ہوں۔ بلکہ تم بھی میرے ساتھ مل کر رو اگر میں ٹھیک ہو گئی تو پیپسی اور بسکٹ بھی کھلاؤں گی۔

آپریشن کے نتیجے میں دونوں ٹانگیں کاٹ دی گئیں۔ چھ گھنٹے کے آپریشن کے بعد سدرہ کو کمرے سے باہر لایا گیا تو والد صاحب زار و قطار رو رہے تھے۔ ڈاکٹر والد صاحب سے کہنے لگے کہ ہم نے آپ کی بیٹی کو بہت بہادر پایا ہے۔ آپ فکر مند نہ ہوں انھوں نے بہت آگے جانا ہے۔ سدرہ کی کٹی ٹانگ میڈیکل کے سٹوڈنس کو دکھائی گئیں اور بتایا گیا کہ اتنی کمزور ہڈیوں کے ساتھ مریضہ سیڑھیاں تک چل لیتی تھیں۔ اس بات پر سٹوڈنٹس حیران رہ گئے اور سدرہ سے ملنے کے لئے بھی آئے۔

دو ماہ ہسپتال میں رہنے کے بعد سدرہ گھر پہنچیں تو پتہ چلا کہ سکول والوں نے سدرہ کا نام سکول سے خارج کر دیا ہے اور میٹرک کے لئے داخلہ بھی نہیں بھیجا۔ سدرہ اپنا سال ضائع نہیں کرنا چاہتی تھیں۔ بہت کوششوں کے بعد ایک کرسچن ٹیچر نے پرائیویٹ داخلہ بھجوا دیا۔ امتحانات میں صرف دو ماہ باقی تھے۔ سدرہ تیاری کے لئے بہت سی اکیڈمیوں میں گئیں لیکن سب نے انکار کر دیا۔ اکیڈمیاں سدرہ کو داخلہ دے کر اپنا رزلٹ خراب نہیں کرنا چاہتی تھیں۔

مشکل کی اس گھڑی میں اسی کرسچن ٹیچر نے کہا کہ میں آپ کو امتحانات کی تیاری کراؤں گا۔ والدہ نے فیس معلوم کی تو بولے ”ایک کپ چائے“ ۔ ٹیچر لنچ بریک میں سدرہ کے پاس آ جاتے اور ایک گھنٹہ پڑھا کر چلے جاتے۔ ایک مرتبہ سدرہ نے ٹیچر سے پوچھا کہ آپ نے ایک فیل ہونے والے سٹوڈنٹ کا ہاتھ کیوں تھاما۔ ٹیچر کہنے لگے کہ ”میں چاہتا ہوں کہ آپ کسی مقام تک پہنچ جائیں اور جب آپ اپنی منزل حاصل کر لیں تو آپ کسی دوسرے کا ہاتھ تھام لیں تاکہ یہ سلسلہ چلتا رہے“ ۔ کرسچن ٹیچر سدرہ کو اکثر ایک شعر سنایا کرتے تھے جس سے سدرہ کو بہت حوصلہ ملتا تھا۔

”زندہ رہنے کی تمنا ہو اگر
فاختاؤں کے انداز ہو جاتے ہیں عقابوں جیسے ”

خدا کا کرنا یہ ہوا کہ سدرہ میٹرک کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔ ایف۔ اے کے دوران علاج کے سلسلے میں مظفرآباد جانا پڑا۔ وہاں ایک لڑکی سے ملاقات ہوئی۔ جس نے اسلام آباد میں خصوصی لڑکیوں کے سینٹر کا ذکر کیا۔ سدرہ نے گھر والوں کو بتایا جسے فوری طور پر رد کر دیا گیا۔ وقت گزرتا گیا سدرہ ایف۔ اے اور بی۔ اے کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔ بی۔ اے کے بعد سدرہ نے ایم۔ اے کرنے کی خواہش ظاہر کی لیکن گھر والے نہیں مانے۔ سب کہنے لگے تم نے مزید پڑھ کر کیا کرنا ہے، دوسرا یہ کہ آپ لڑکی ہیں ہم آپ کو ہاسٹل میں نہیں چھوڑ سکتے۔ گرما گرم بحثوں کے بعد سدرہ گھر والوں کو منانے میں کامیاب ہو گئیں۔ والد صاحب کے بعد سدرہ کا سب سے زیادہ ساتھ چھوٹے بھائی نے دیا۔ جسے یہ پیار سے لالہ کہتی ہیں۔

ایف۔ اے کے دوران والد صاحب نے کہا کہ ان کے پاس بچوں کو پڑھانے کے وسائل نہیں ہیں۔ اس پر لالہ نے پڑھائی چھوڑ دی اور کہا کہ آپ ہماری فکر چھوڑ کر سدرہ کو پڑھائیں۔ لالہ نے مزدوری شروع کر دی۔ بی۔ اے سب کی سپورٹ سے ہو گیا۔ ایم۔ اے میں داخلے کے وقت بھی لالہ نے سدرہ کی بھر پور سپورٹ کی۔ سدرہ کو اسلام آباد چھوڑنے بھی لالہ خود آیا۔ کالج اور ہاسٹل کی فیس لالہ ہی دیتا رہا۔

ایم۔ اے اردو کرنے کے فوری بعد سدرہ کو گاؤں کے نجی سکول میں جاب مل گئی۔ جاب کے ساتھ سدرہ نے بی۔ ایڈ میں داخلہ بھی لے لیا۔ ان سب کے ساتھ ساتھ سدرہ نے ہینڈی کرافٹ کا چھوٹا سا کاروبار بھی شروع کر دیا۔ سدرہ نے مزید پڑھنے کی خواہش ظاہر کی جسے سب نے دل سے قبول کیا۔ والد اور بھائیوں کی سپورٹ سے سدرہ انگریزی میں ایم۔ اے کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔

پھر ایک دوست نے ڈاکٹر نوشابہ ملک کا بتایا۔ ڈاکٹر صاحبہ یتیم بچوں کا شیلٹر ہوم چلا رہی تھیں۔ سدرہ نے وہاں پڑھانا شروع کیا اور ڈاکٹر صاحبہ کے ”سن شائن“ ہاسٹل میں رہائش بھی اختیار کی۔ ڈاکٹر نوشابہ ملک کے سن شائن ہاسٹل میں آٹھ خصوصی لڑکیاں رہتی ہیں۔ جن کے تمام اخراجات ڈاکٹر صاحبہ کا ادارہ برداشت کرتا ہے۔

سدرہ نے ایک این۔ جی۔ او کی ٹریننگ میں حصہ لیا۔ ٹریننگ کے بعد سی۔ ویز طلب کی گئی۔ این۔ جی۔ او نے سی۔ وی مختلف کمپنیوں میں بھیجی۔ جس کے بعد حبیب بینک سے کال آ گئی۔ ٹیسٹ اور انٹرویو میں کامیاب ہونے کے بعد سدرہ کو بینک میں جاب مل گئی۔

سدرہ کو بہت سے ہاتھوں نے سپورٹ کیا ہے۔ اب سدرہ وہ ہاتھ بننا چاہتی ہیں جو دوسروں کو سپورٹ کرے۔ سدرہ گاؤں میں ایسا ادارہ قائم کرنا چاہتی ہیں جہاں خصوصی افراد کو تعلیم اور ہنر سے آراستہ کیا جا سکے۔ سدرہ والدین کی کونسلنگ کو بہت اہمیت کی نگاہ سے دیکھتی ہیں اور سمجھتی ہیں کہ والدین کو تربیت دینے سے خصوصی افراد کے آدھے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ مقصد کے حصول کے لئے والد صاحب سے اجازت بھی لے چکی ہیں۔

سدرہ کہتی ہیں کہ معاشرے کے ہر فرد کو دوسرے کے لئے مدد کرنے والا ہاتھ بننے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اخوت اور رواداری سے معاشرتی مسائل بھی حل ہوتے ہیں اور قومیں ترقی بھی کرتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments