عورت کو قاضیہ بنانا اسلامی تقاضوں کے مطابق درست نہیں


عورت قاضیہ کے عہدے پہ فائز ہو سکتی ہے یا نہیں۔ اس بارے میں اکثر علماء دین متین کے ہاں عورت کا قضاء کے منصب پر فائز ہونا جائز نہیں اور اگر اسے قضاء کا منصب دے دیا جائے تو اسے قاضی بنانے والا گنہگار ہو گا اور یہ فیصلہ باطل ہو جائے گا اور سب احکام میں اس عورت کا حکم نافذ نہیں ہو گا۔ مالکیہ، شافعیہ، حنابلہ اور بعض احناف کا مسلک یہی ہے۔ (بدایۃ المجتھد از ابن رشد ( 2 / 531 ) المغنی از ابن قدامہ حنبلی ( 11 / 350 ) ان علماء نے کئی ایک دلائل سے استدلال کیا ہے۔ جنہیں ذیل میں درج کیا جاتا ہے۔ 1 اللہ سبحانہ و تعالی کا فرمان ہے۔

”مرد عورتوں پر حاکم ہیں اس وجہ سے کہ اللہ تعالی نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کیے ہیں۔“ ( نساء، 34 ) اس آیت میں یہ بیان ہوا ہے کہ مرد عورت کا قیم یعنی اس کا نگران اور ذمہ دار ہے۔ یعنی دوسرے لفظوں میں وہ عورت کا رئیس اور نگہبان ہے تو یہ آیت عورت کی عدم ولایت اور عدم قضاء پر دلالت کرتی ہے یعنی بطور حاکم و قاضی فیصلہ کرنا۔ اس کے برعکس عورتوں کو مردوں پر نگرانی اور ریاست حاصل ہوتی ہے جو کہ اس آیت کے خلاف ہے۔ 2 اللہ سبحانہ و تعالی کا فرمان ہے

” اور مردوں کو ان ( عورتوں ) پر فضیلت حاصل ہے۔“ ( بقرہ، 228 ) تو اللہ تعالی نے مردوں کو عورتوں پر اضافی درجہ اور فضیلت عطا فرمائی ہے لہذا اس طرح عورت کا قضاء کے منصب پر فائز ہونا اس درجہ اور فضیلت کے خلاف ہے جو اللہ تعالی نے اس آیت میں مردوں کے لیے ثابت کی ہے کیونکہ قاضی کو فیصلہ کے لیے آنے والے دونوں فریقوں پر درجہ اور فضیلت حاصل ہونی چاہیے تا کہ وہ ان دونوں کے مابین فیصلہ کر سکے تبھی جا کے وہ غیر جانبداری سے فیصلہ کرپائے گا۔ احادیث طیبہ میں بھی عورت کا قاضی بننا مستحسن (اچھا) نہیں لیا گیا۔ جیسا کہ حضرت ابو بکرہ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول کریم ﷺ کو یہ خبر ملی کہ اہل فارس نے کسری کی بیٹی کو اپنا حکمران بنا لیا ہے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس وقت فرمایا ”وہ قوم ہرگز اور کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی جس نے اپنے معاملات عورت کے سپرد کر دیے۔“ ( بخاری، 4425 ) تیسرے درجے میں دین متین کے فقہاء کرام نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ عورت کا قضاء کے منصب پر فائز ہونا جائز نہیں کیونکہ ناکامی ایک نقصان اور ضرر ہے جس کے اسباب سے اجتناب کرنا ضروری ہے اور یہ حدیث ہر قسم کے منصب اور ولایت میں عام ہے۔ اس لیے عورت کو کسی بھی قسم کے امور بطور فیصلہ سازی کے دینا جائز نہیں۔ اس لیے کہ حدیث میں لفظ ”امرہم“ عام ہے اور یہ مسلمانوں کے عام معاملات اور سب امور کو شامل ہے۔ فقہ اور قانون کے ماہر امام شوکانی صاحب فتح القدیر کہتے ہیں۔ ”فلاح و کامیابی کی نفی کے بعد کوئی اور شدید اور سخت وعید باقی نہیں رہتی اور امور و معاملات میں سب سے اہم اور اونچا معاملہ اللہ تعالی کے حکم کے مطابق فیصلہ کرنا ہے تو یہ بدرجہ اولی اس میں شامل ہو گا۔

(السیل الجرار، 4 / 273 ) پھر جامعہ ازہر مصر کی فتوی کمیٹی کا کہنا ہے۔“ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا اس حدیث سے مقصد صرف اس قوم کی ناکامی اور عدم کامیابی کی خبر ہی دینا نہیں جس نے اپنے معاملات عورت کے سپرد کر دے کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے منصب کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اپنی امت کے لیے وہ کچھ بیان کریں جو ان کے لیے درست اور نفع بخش ہو تا کہ امت اس پر عمل کر کے خیر و فلاح اور کامیابی حاصل کر سکے اور جو جائز نہیں وہ اس سے اجتناب کر کے شر و خسارہ سے بچ سکے بلکہ اس حدیث سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا مقصد یہ تھا کہ وہ اپنے معاملات میں سے کچھ بھی عورت کے سپرد کرنے میں ایرانیوں کے پیچھے نہ چل نکلیں۔ اور ایسا طرز معاشرت لائیں جس میں ہر قسم کے معاملات کا منظم ہونا دین کی اطاعت میں شامل ہو اور یہ قطعی اسلوب ہے کہ اپنے معاملات عورت کے سپرد کرنے میں ناکامی لازم ہے۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ حدیث سے جو ممانعت ثابت ہوتی ہے وہ ہر دور میں ہر قسم کی عورت کو اپنے عام معاملات کی ذمہ دار بنانے کی ممانعت ثابت کرتی ہے۔ اور حدیث کے الفاظ سے یہی مفہوم عمومی طور پہ واضح ہوتا ہے۔ 4 عورت کی طبیعت اور اس کی خلقت ہی ولایت عامہ یعنی عام امور کی ذمہ داری عورت کو دینے میں مانع ہے۔

جامعہ ازھر مصر کی فتوی کمیٹی نے اس حدیث سے استدلال ذکر کرنے کے بعد درج ذیل کلمات کہے ہیں۔ ”بلا شبہ پیدائشی طور پر عورت کی طبیعت میں ایسے امور شامل ہیں جو اس کی خلقت کے مناسب ہیں جن کے لیے وہ پیدا کی گئی ہے اور وہ امور ایک ممتا اور بچے کی پرورش و تعمیر انسانیت ہیں۔ یہی چیز اسے بہت متاثر کرتی ہے اور اسے نرمی و عاطفت کی دعوت دیتی ہے پھر اس کے ساتھ ساتھ عورت کو طبعی طور پر کچھ ایسے عوارض لاحق ہیں جن کا انہیں ہر ماہ اور برس ہا برس سامنا کرنا پڑتا ہے جس کی بنا پر وہ معنوی طور پر کمزور ہو جاتی ہے اور کسی مسئلہ میں رائے اختیار کرنے میں پختگی سے جم جانے میں کمزوری آجاتی ہے۔ اسی طرح اس کی راہ میں آنے والی مشکلات میں بھی وہ استقامت سے ٹھہر نہیں سکتی یہ ایسی حالت ہے جس کا عورت خود بھی انکار نہیں کرتی۔

اور ہم اس کے لیے ان واقعی مثالوں کے محتاج نہیں جو عورت کے سب حالات اور زمانے میں اس کی عاطفت و نرمی کے ساتھ ساتھ شدت انفعال اور میلان یعنی شدید متاثر و مائل ہونے پر دلالت کرتی ہوں۔ بعض ممالک میں عملی تجربہ سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ عورت کے لیے قضاء کا منصب مناسب نہیں اور جب شریعت اسلامیہ نے عورت کو عمومی ولایت اور ذمہ داری دینے سے منع کیا تو ایسا اصول لائی جو مصلحتوں کو پورا اور خرابیوں کو دور کرتا ہے جسے کوتاہ بینی رکھنے والے لوگ نہ تو دیکھ سکتے ہیں اور نہ ہی جان سکتے ہیں۔ چنانچہ ایک اسلامی ملک کی عدلیہ نے بہترین اور ذہین و فطین عورتوں کے لیے قضاء کے دروازے کھول دیے اور انہیں قاضی بنا دیا لیکن پانچ سالہ تجربہ کے بعد ان سب عورتوں کو ان کے منصب سے معزول کر دیا گیا اور اس تجربہ میں ناکام ہونے کے باعث قضاء کے ادارے کے دروازے عورتوں کے لیے بند کر دیے گئے۔ باوجود اس کے کہ انہیں تعلیم و تدریب ( مشق) کے لیے بہت ساری فرصت مہیا کی گئی تھیں اور انہوں نے علمی میدان میں مردوں سے بہت زیادہ نمبر بھی حاصل کیے تھے جو کہ قابل تحسین امر ہے۔

اسی طرح ایک دوسرے اسلامی ملک میں بھی قضاء میں عورتوں کو ملازمت دی گئی لیکن جب وہ اس میں ناکام ہو گئیں تو پھر گورنمنٹ کو مجبوراً ان عورتوں کو اسی محکمہ کے ریسرچ اور فنی ڈیپارٹمنٹ میں منتقل کرنا پڑا۔ 6 اور اس لیے بھی کہ قاضی نے مردوں کے مشاورتی اجلاس میں حاضر ہونا ہوتا ہے اور فریقین اور گواہوں کے ساتھ میل جول رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے اور بعض اوقات تو اسے ان کے ساتھ علیحدگی اور خلوت بھی کرنا پڑتی ہے اور شریعت اسلامیہ نے عورت کی عزت و شرف کی حفاظت کی اور اسے بچا کر رکھا ہے کہ ضرر رساں قسم کے لوگ اسے اپنا کھیل نہ بنائیں اور عورت کو شریعت نے حکم دیا ہے کہ وہ اپنے گھر میں ہی رہے صرف ضرورت کے وقت ہی گھر سے نکلے اسی میں عورت کے لیے بھلائی ہے۔ پھر اسلام نے اسے مردوں کے ساتھ میل جول رکھنے اور ان کے ساتھ علیحدگی اور خلوت کرنے سے منع کیا ہے کیونکہ اس سے عورت کی عزت و شرف ضائع ہونے کا خدشہ ہے۔ (ولایۃ المراۃ فی الفقہ الاسلامی از ڈاکٹر وھبہ زحیلی 217۔ 250 ) حال ہی میں امریکہ کے ملک ارجنٹینا میں ایک جج عورت میرئیل پولیس افسر کے قتل کے جرم میں عمر قید کے دس سالہ مجرم کرسٹیان نامی شخص سے اس کے جیل سیل میں بوس و کنار کرتی ہوئی پکڑی گئی ہے اور یہ عورت اس کی عمر قید کے فیصلے میں دیگر مرد ججز سے متفق بھی نہیں تھی۔ لہذا عورت کو جج بنانے اور معاملات کی سپردگی میں طبعی میلان بھی شامل ہو گا جو کہ اسلامی و عقلی تقاضوں کے مطابق درست نہیں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments