حکومت پھر جیت گئی


سوچتا ہوں، تو حیران رہ جاتا ہوں، غور کرتا ہوں، تو شرمندگی سر نہیں اٹھانے دیتی، کہ ہم بھی دہائیوں سے کیسے کیسے بے حسوں، دھوکے بازوں، فریبیوں کے ہتھے چڑھے ہوئے ہیں، یہ کہیں ہمارے ہی اعمال کی سزا ہے یا کچھ اور، ویسے بھی جیسی عوام ویسے حکمران، جیسا منہ ویسی چپیڑ والی ہی بات لگ رہی ہے۔

میں نے اپنے گزشتہ کالم میں بھی اس بات کا ذکر کیا تھا کہ یہ بات تسلیم کرنی پڑے گی، پی ٹی آئی کی حکومت کے پاس کوئی نہ کوئی ہاتھ ضرور ہے، جو ہر بار اپوزیشن کے دیکھتے ہی دیکھتے ساتھ ہاتھ کر جاتی ہے۔

فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) ، منی بجٹ یا اسٹیٹ بنک ترمیمی بل ہو، حکومت اسے پاس کروانے کا ہنر بخوبی جانتی ہے، اور یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ عمران خان اچھے کرکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ اچھے سیاستدان بھی ثابت ہو رہے ہیں، اور یہ بھی نہ بھولے کہ عوام کی نظر میں نہیں، صرف اپوزیشن کی نظر میں۔

پچھلی مرتبہ جب منی بجٹ پاس ہوا، اس بار تو اپوزیشن کے ساتھ نہیں پوری پاکستانی عوام کے ساتھ ہی ہاتھ ہو گیا تھا، جس کا خمیازہ پبلک نجانے کب تک بھگتے گی، اور اب کی بار تو اپوزیشن کے ساتھ ایسا ہاتھ ہوا، کہ بندہ دنگ رہ جائے، حیرانی ہے کہ سینٹ میں اکثریت ہونے کے باوجود اپوزیشن ہار گئی اور حکومت جیت گئی۔

حکومت شاید اپنی بات اور اپنی مرزی کے بل پاس کروانے کا ڈھنگ اپنے پلو سے باندھ چکی ہے، اسے پتا ہے کہ یہ اپوزیشن بس پانی کا ایک بلبلہ ہے، وہ جب چاہتی ہے پھوک مار کر ، یا مروا کر اس بلبلے کا خاتمہ کروا دیتی ہے، حکومت کو اس اپوزیشن سے کوئی کسی قسم کا خطرہ نہیں رہا، حکومت جان چکی، اور عوام بھی یہ بات مان گئی ہے، کہ اس اپوزیشن کے پلے، اب کچھ نہیں بچا، بدڑبھگیوں، باتیں اور پارلیمنٹ کے اندر اور باہر لڑائیوں کے سوا یہ کچھ نہیں کر سکتی، اگلا مہینے حکومت گرا دے گئے، حکومت کے اب دن تھوڑے رہ گئے ہیں۔

رنگ رنگ کی باتیں بس۔ سوا تین سال ہو گئے، ابھی تک اپوزیشن حکومت تو گرانا دور کی بات، خود کو بھی اپنے پاؤں پر کھڑا کر لے، تو بڑی بات ہے۔ دراصل اپوزیشن نے خود ہی اپنے آپ کو دھوکے میں رکھا ہوا ہے، یہ سارا مفاد پرست ٹولہ، سارے ہی اپنی اپنی کرسی کے چکر میں مارے مارے پھررہے ہیں، ان کی اپنی اندرونی لڑائیاں ہی ان کی بیرونی ناکامیوں کا نشان ہیں۔ یہ اگر کچھ کرنا چاہتے تو ایک پیج پر رہے کے بہت کچھ کر سکتے تھے، ہر کسی کے چہرے کا رخ، دوسرے کے رخ سے الگ ہے، جیسے پی ڈی ایم بنی اور ٹوٹی کسی سے کچھ چھپا نہیں، ان سوا تین سالوں میں اپوزیشن سے کچھ نہیں ہو پایا، تو باقی ڈیڑھ سال میں بھی کچھ نہیں ہو سکے گا، یہاں سب مایا ہے۔

قارئین اب آ جائیں سینٹ کی طرف، جہاں ہمارے پیارے وزیر خزانہ شوکت ترین نے اسٹیٹ بنک ترمیمی بل پیش کیا، اور پاس ہو گیا، اس بل کی منظوری کے بعد کوئی بھی حکومت اسٹیٹ بینک سے قرضہ نہیں لے سکے گی، اور حکومت کو اسٹیٹ بینک کے گورنر اور اس کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کو بھی تعینات کرنے کا اختیار حاصل ہو گا۔

یاد رہے کہ سینٹ میں میں اس وقت کل اراکان کی تعداد 99 ہے۔ لیکن اس اہم ترین موقع پر 86 اراکین موجود تھے۔

حیرانی والی بات تو یہ ہے کہ سینٹ کی اس اہم کارروائی کے موقع پر اپوزیشن لیڈر یوسف رضا گیلانی سمیت آٹھ ارکان غیر حاضر رہے۔ جبکہ اس سے قبل یوسف رضا گیلانی کو اپوزیشن لیڈر بنانے والے متحرک دلاور خان گروپ نے اپنے چار ووٹ حکومت کو دے دیے۔

اس دوران ایک موقع ایسا بھی آیا کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں کے درمیان ووٹوں کی تعداد برابر یعنی 42 ہو گئی۔ ایسی صورتحال میں چیئرمین سینیٹ کو ووٹ دینے کا حق حاصل ہوتا ہے، جس کو استعمال کرتے ہوئے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے حکومت کو ووٹ دیا، اور یوں سینٹ میں بھی حکومت کی جیت ہوئی۔

جب چیئرمین سینٹ کے انتخابات ہو رہے تھے تو یوسف رضاگیلانی چیئرمین سینیٹ انتخاب ہار گئے اور پیپلز پارٹی کے پاس اپوزیشن لیڈر کے تحت یوسف رضا گیلانی کو منتخب کرنے کے لیے تعداد پوری نہیں تھی، تب پیپلز پارٹی نے دلاور خان گروپ اور بلوچستان عوامی پارٹی کے ارکان سے ووٹ لے کر یوسف رضاگیلانی کو سینٹ میں اپوزیشن لیڈر منتخب کروایا، اور اب سنا ہے کہ انھوں نے اس عہدے سے استعفی اپنی پارٹی کو بھجوا دیا ہے۔ اگر وہ اس دن آ جاتے تو شاید بل پاس ہونے سے رک جاتا، اب بل پاس ہونے کے بعد استعفی دینے کا کیا جواز بنتا ہے۔ دوسری طرف وزیر اطلاعات فواد چوہدری بل پاس ہونے پر یوسف رضا گیلانی کا شکریہ ادا کر رہے تھے۔ حیرت ہے ان سب نے ہی عوام کو بدھو بنا رکھا ہے، جس کا جب جی چاہتا ہے پبلک کو لولی پاپ دے دیتا ہے، اور پبلک بھی چپ کر کے اس لولی پاپ کو لے کے انجوائے کرتی ہے۔

سوچتا ہوں، تو حیران رہ جاتا ہوں، غور کرتا ہوں، تو شرمندگی سر نہیں اٹھانے دیتی، کہ ہم بھی دہائیوں سے کیسے کیسے بے حسوں، دھوکے بازوں، فریبیوں کے ہتھے چڑھے ہوئے ہیں، یہ کہیں ہمارے ہی اعمال کی سزا ہے یا کچھ اور، ویسے بھی جیسی پبلک ویسے حکمران، جیسا منہ ویسی چپیڑ والی ہی بات لگ رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments