لکھتے رہے جنوں کی حکایات خونچکاں۔ ( 2 )


’بابا بگا‘ جمہوریت اور جمہوری ادوار کا ذکر خاص نفرت سے کرتے اور آمریت کا تذکرہ خاص التفات سے۔ میں نے یہ بات ان کے خاص الخاص خلیفہ سے پوچھ لی۔ اس نے کچھ یوں وجہ بتائی۔ کہ بابا جی دراصل صدر ایوب کے دور میں دنیا میں جلوہ افروز ہوئے تھے اس لیے آمریت کو پسند کرتے ہیں اور جب پاکستان میں مکمل جمہوریت ہو گی آپ دنیا سے پردہ فرمائیں گے اس لیے جمہوریت سے نفرت ہے۔ بابا جی کا لیکچر جاری تھا۔

” پانچ سال 1972 سے 1977 میں اہل سیاست نے اتنا اودھم مچایا کہ ملک کی نظریاتی اساس تک ہلا کے رکھ دی۔ بھلا ہو جنرل صاحب کا کہ آپ مرمت کا کام بہت اچھے طریقے سے جانتے تھے لہذا آپ نے سب سے پہلے، شبانہ روز محنت کر کے ملک کی نظریاتی اساس کی مرمت اور مضبوطی پر کام کیا۔ نہ صرف نظریاتی اساس کی مرمت فرمائی بلکہ اہل سیاست، اہل صحافت، اہل ثقافت اور اہل لطافت، سب کی خوب مرمت فرمائی۔ آپ دراصل مرمت کے سپیشلسٹ تھے۔ جنرل حمید گل صاحب جیسی نابغہ روزگار ہستی آپ کی دریافت ہے۔ کیا خوبصورت اور وجیہ آدمی تھے۔ طالبان آپ کی ہی ایجاد ہیں۔ اس کے علاوہ کشف کے ذریعے مستقبل بینی اور دینی موضوعات پر خاصی دسترس تھی حمید گل صاحب کو۔

” کیا کہنے مرشد، کیا کہنے“ جب وہ خوشامدی درباری یہ نعرہ بلند کرتا تو بابا جی، پھن پھیلائے ہوئے ناگ کی طرح ہم سب کو گھورتے، کہ ہم سب ان کی تعریف میں نعرہ کیوں نہیں لگاتے۔ پھر جلاد نما دربان کو دیکھتے، جیسے زیرلب کہ رہے ہوں کہ ’ٹھڈے مارو‘ ان سب کو جو نعرہ نہ لگائیں۔ تھوڑا توقف فرماتے اور اپنے موٹے شیشوں والی عینک کے پیچھے سے ایک دفعہ تمام حاضرین کو دائمی رعونت اور جلال کے امتزاج سے دیکھتے۔ اس وقت بابا جی بالکل ڈریکولا جیسے لگتے۔

”جنرل حمید گل کو فرزند اسلام بھی کہا جاتا ہے۔ جنرل حمید گل کے قوم پر بہت سارے احسانات ہیں۔ نظریاتی اساس کی مرمت کے پیچھے بھی جنرل حمید گل صاحب کا دست کرشمہ ساز، معاونت میں تھا۔ آپ صدارتی نظام کے، پاکستان کے معروضی حالات سے میل کھاتے فارمولے کے موجدین میں سے تھے۔ آپ کے (جنرل محمد ضیاء الحق) دل میں ملک و ملت کے خدمت کا جذبہ کوٹ کوٹ کے بھرا ہوا تھا کہ آپ تو شاید تا حیات، اس قوم کی خدمت کرنا چاہتے تھے، لیکن زندگی نے مہلت نہ دی اور انیس سو اٹھاسی میں ایک طیارہ حادثے میں راہی ملک عدم ہوئے۔

بابا جی کے لہجے میں ایسے اداسی اتر آئی جیسے ان کی سائیکل چوری ہو گئی ہو۔ یا میلے میں بابا جی کی جیب کٹ گئی ہو۔

” اس کے بعد 1988 سے 1998 تک دس سال پھر اہل سیاست نے ناجائز قبضہ جمائے رکھا۔ اس دور میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں محمد نواز شریف کی جمہوری حکومتوں کے چار ادوار شامل ہیں۔ اب اس دس سال کے عرصے میں اصولی اور آئینی طور پر صرف دو جمہوری ادوار ہو سکتے تھے، لیکن ان دونوں کی جلد بازی دیکھیے کہ دو ادوار کے مقابلے میں چار ادوار حکومت۔ الامان و الحفیظ۔ ان دونوں نے افتاد طبع سے، دو دو بار وزارت عظمیٰ کا انتخاب جیت لیا اور جہاں ملک کا دو دفعہ انتخابات پر خرچہ ہونا تھا، چار دفعہ کروا دیا۔ اب یہ عاقبت نا اندیشی نہیں تو اور کیا ہے۔ اس غیر سنجیدہ رویے کو آدمی کہاں تک برداشت کرے۔ اور پھر سونے پر سہاگہ میاں نواز شریف نے 1998 میں ایٹمی دھماکے کر دیے۔ جس کی وجہ سے معاشی پابندیاں اور صاحب بہادر امریکہ کی ناراضگی دونوں کو جھیلنا پڑا۔

بس پھر کمانڈو کہاں تک برداشت کرتا۔ ملک و ملت اور قوم کے وسیع تر مفاد میں ایک بار پھر مداخلت کرنا پڑی اور اس بار قوم کے عظیم سپوت پرویز مشرف نے یہ خوشگوار فریضہ سرانجام دیا۔ بہرحال قوم بہت تنگ تھی جمہوریت سے اور بہت خوش ہوئی پرویز مشرف کے آنے پر، شیخ رشید نے بھی یہی کہا ہے کہ پنڈی اور اسلام آباد کی دکانوں پر مٹھائی ختم ہو گئی تھی۔

” شیخ رشید بھی کیا خوبصورت اور نفیس خیالات، اور وسیع و عریض توند کے مالک انسان ہیں۔ گولائی اور چوڑائی میں اتنی بیلنس توند میں نے آج تک نہیں دیکھی۔ آپ نے تین دہائیوں پر محیط جو قومی خدمت کی ہے آخرت میں تو اجر عظیم ملے گا ہی، لگتا ہے دنیا میں بھی یک مشت خراج سمیٹ کے جائیں گے۔ مجھے صرف اسی شخص سے کمپیٹیشن محسوس ہوتا ہے۔“

اس بار بابا جی کی رگ ظرافت پھڑکی اور آپ کے چہرے پر باقاعدہ شیطانی مسکراہٹ تھی۔ بابا جی اس وقت کسی سستے تھیٹر کے پھڑیے جگت باز لگ رہے تھے۔ پھر میرے ذہن میں جلاد نما دربان کی شکل آئی جیسے وہ مجھے کہہ رہا ہو ”حد ادب، گستاخ، بابا جی کو شیطان سے نسبت“ اور میں خوفزدہ ہو کر دوبارہ لیکچر سننے لگا، بابا جی فرما رہے تھے۔

” شیخ رشید اس ملک اور قوم کا وہ محسن ہے جس نے جمہوریت، جمہور پسندوں اور سیاستدانوں کے درمیان میں رہتے ہوئے بھی اپنا وزن ہمیشہ قومی سلامتی کے ادارے کے پلڑے میں رکھا ہے اور اس نے ہمیشہ اپنی قومی خدمت پر ناز کیا ہے بجا طور ہونا بھی چاہیے“ بہرحال انیس سو ننانوے میں جنرل پرویز مشرف صاحب نے جب اقتدار سنبھالا تو اس وقت ملک کی حالت کافی خراب تھی۔ ایٹمی دھماکوں کے بعد صاحب بہادر امریکہ کی ناراضگی اور بین الاقوامی پابندیوں کا سامنا بھی تھا۔ آپ نے کمال بصیرت سے ’سب سے پہلے پاکستان‘ کا نعرہ مستانہ بلند کیا اور پاکستان کو امریکہ کی جنگ ’وار آن ٹیرر‘ میں امریکہ کا غیر مشروط اتحادی بنا دیا۔ امریکا کی یہ جنگ پاکستان کے پہلو میں افغانستان میں لڑی جانی تھی۔ جہاں پر اس وقت قدامت پسند طالبان کا قبضہ تھا۔ ”۔ جاری ہے

محمد سجاد آہیر xxx

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد سجاد آہیر xxx

محمد سجاد آ ہیر تعلیم، تدریس اور تحقیق کے شعبے سے ہیں۔ سوچنے، اور سوال کرنے کا عارضہ لاحق ہے۔ بیماری پرانی مرض لاعلاج اور پرہیز سے بیزاری ہے۔ غلام قوموں کی آزادیوں کے خواب دیکھتے اور دکھاتے ہیں۔

muhammad-sajjad-aheer has 38 posts and counting.See all posts by muhammad-sajjad-aheer

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments