پیپلز پارٹی اور سندھ میں مقامی حکومت کا نظام


بدقسمتی سے اس ملک میں مقامی حکومتوں کا سیاسی و جمہوری مقدمہ ہمیشہ سے تضادات اور ٹکراؤ سمیت دوہرے معیارات کا شکار رہا ہے۔ اس طرز عمل کی وجہ سے مقامی حکومتوں کا سیاسی نظام ہماری ریاستی و حکومتی ترجیحات میں بھی بہت پیچھے کھڑا نظر آتا ہے۔ اس مقدمہ میں وہ تمام بڑی سیاسی و مذہبی جماعتیں جو کسی نہ کسی دور میں اقتدار کی سیاست کا حصہ رہی ہیں مجرم ہیں۔ کیونکہ یہ تمام سیاسی قوتیں سیاست، جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کی باتیں تو بہت شدت سے کرتی ہیں لیکن ان کی حقیقی ترجیح مرکزیت پر مبنی نظام ہوتا ہے۔ ایک ایسا نظام جس میں تمام اختیارات کا مرکز مقامی سطح پر موجود سیاسی نظام نہیں بلکہ صوبائی حکومتوں کے کنٹرول سے جڑا ہوتا ہے۔ مرکزیت پر مبنی یہ نظام عملی طور پر اس ملک کی حکمرانی، گورننس اور عوامی مفادات پر مبنی سیاست کو نقصان پہنچانے کا سبب بنتا ہے۔

آج کل سندھ میں پیپلز پارٹی کی طرف سے منظور کیے جانے والے سندھ مقامی حکومت ایکٹ 2021 پر بہت زیادہ سیاسی مزاحمت دیکھنے کو مل رہی ہے۔ حزب اختلاف کی جماعتیں اس نئے مقامی نظام حکومت کے قانون کو کالا قانون جبکہ پیپلز پارٹی حزب اختلاف کے طرز عمل کو سیاہ کر توں سے تشبیہ دے رہی ہے۔ پیپلز پارٹی بضد ہے کہ اس کی طرف سے منظور کردہ مقامی حکومت کا قانون آئین کے عین مطابق ہے اور اس کے خلاف جو بھی مہم چلائی جا رہی ہے وہ تنقید برائے تنقید کے کچھ نہیں۔

پیپلز پارٹی جو کہ عملی طور پر 18 ویں ترمیم اور صوبائی خود مختاری کی سب سے بڑی حامی اور طاقت ور سیاسی قوت کے طور پر سمجھی جاتی ہے۔ پیپلز پارٹی کے سیاسی نعروں میں دیگر جماعتوں کے مقابلے میں زیادہ جمہوریت، سیاست، قانون کی حکمرانی اور عوامی مفادات پر مبنی نعروں کی جھلک نمایاں طور پر دیکھنے کو ملتی ہے۔ لیکن حالیہ مقامی حکومتوں کے نئے نظام پر پیپلز پارٹی تمام سیاسی قوتوں کے مقابلے میں سندھ کی سطح پر زیادہ سیاسی تنہائی کا شکار ہے۔ کوئی ایک بھی جماعت سندھ کی سطح پر ایسی نہیں جو پیپلز پارٹی کے مقامی قانون کو بہتر قانون سمجھتی ہے۔ تحریک انصاف، مسلم لیگ ن، جماعت اسلامی، ایم کیو ایم کے تمام دھڑے، عوامی نیشنل پارٹی سمیت دیگر تمام چھوٹی جماعتیں اس نظام کے خلاف یکجا نظر آتی ہیں۔

عمومی طور پر ہر صوبائی حکومت کا حق بنتا ہے کہ وہ اپنی مرضی اور منشا سمیت اپنی سیاسی ترجیحات یا منشور کی بنیاد پر مضبوط مقامی حکومتوں کا نظام لے کر آئے۔ لیکن اس کی بنیاد عملی طور پر تمام سیاسی فریقین کی باہمی مشاورت سے ہونی چاہیے۔ اول صوبائی اسمبلی میں موجود تمام پارلیمانی جماعتوں کو اعتماد میں لینا، جو جماعتیں پارلیمانی سیاست سے باہر ہیں ان کی مشاورت کو یقینی بنانا، سول سوسائٹی اور میڈیا کو اعتماد میں لے کر ہی نظام کو حتمی شکل دی جانی چاہیے تھی۔

لیکن سندھ میں پیپلز پارٹی نے یک طرفہ ٹریفک یا حکمت عملی کی بنیاد پر اس نظام کی تشکیل میں سولو فلائٹ سے چلنے کو اہمیت دی اور اس کا نتیجہ ان کو سندھ میں ایک بڑی مزاحمت کے طور پر دیکھنے کو مل رہی ہے۔ اگرچہ جماعت اسلامی کا کئی ہفتوں تک سندھ حکومت کے خلاف جاری دھرنا حکومت اور جماعت اسلامی کے درمیان مفاہمت کی بنیاد پر ختم ہو گیا ہے۔ جماعت اسلامی کے بقول پیپلز پارٹی کی بڑی یقین دہانیوں اور تحریری معاہدے کے بعد دھرنا ختم کیا گیا ہے۔ جماعت اسلامی اس پر بضد ہے کہ اگر پیپلز پارٹی نے اس تحریری معاہدے سے انحراف کیا تو ہم دوبارہ دھرنا دے سکتے ہیں۔

تحریری معاہدے کے تحت پیپلز پارٹی نے جماعت اسلامی سے وعدہ کیا ہے کہ وہ صحت، تعلیم اور بلدیاتی اختیارات شہری حکومت کو دینے پر ، آٹرائے اور موٹر وہیکل ٹیکس میں سے بلدیہ کراچی کو حصہ دینے، میئر کراچی کو سالڈ ویسٹ مینجمنٹ اور واٹر بورڈ کے چیرمین بنانے، صوبائی سطح پر صوبائی فنانس کمیشن کی تشکیل، کے ایم ڈی سی کی کراچی کو واپسی سمیت کراچی کی شہری حکومت کو خودمختاری سمیت مالی وسائل دینے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ حکومت کے بقول یہ ترامیم ایک ہفتے میں سندھ اسمبلی سے منظور کروائی جائے گی۔

لیکن مسئلہ محض جماعت اسلامی تک محدود نہیں بلکہ دیگر حزب اختلاف کی جماعتیں جن میں ایم کیو ایم کے تینوں دھڑے، پی ٹی آئی اور مسلم لیگ نون ابھی بھی جماعت اسلامی کو دی جانے والی حکومتی تجویز سے متفق نہیں اور ان کا مزاحمتی عمل جاری ہے۔ سندھ میں لوکل گورنمنٹ ایکٹ عدالت میں چیلنج بھی کر دیا گیا ہے اور خود اس کے خلاف سول سوسائٹی اور میڈیا میں بھی مزاحمت جاری ہے۔ حزب اختلاف کی جماعتیں جماعت اسلامی پر بھی تنقید کر رہی ہیں اور ان کے بقول متحدہ حزب اختلاف کی ڈیمانڈ کو جماعت اسلامی نے نقصان پہنچایا ہے۔ اب یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ کیا واقعی پیپلز پارٹی جماعت اسلامی سے اپنا وعدہ نبھا سکے گی یا دوبارہ اپنے ہی موقف سے انحراف کرے گی۔

بنیادی طور پر پیپلز پارٹی سندھ کے شہری حلقوں سے دوہرے معیارات کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ کیونکہ وہ سمجھتی ہے کہ سندھ کے شہری حلقوں کی سطح پر اس کی مقبولیت نہیں تو ہمیں ان شہری حلقوں کو ایک مضبوط اور خود مختار حکومت نہیں دینی چاہیے۔ کراچی، حیدرآباد، میرپور خاص سمیت کئی شہری حلقوں میں پیپلز پارٹی کی اس شہری، دیہی تقسیم پر سیاست پر شدید تحفظات سامنے آئے ہیں۔ اسی طرح کراچی جہاں اب مختلف زبانوں کے لوگ جن میں اردو، سندھی، بلوچی، پشتون، سرائیکی، پنجابی، ہزارہ بولنے والے لوگ بڑی تعداد میں موجود ہیں وہاں یہ نظام عملی طور پر لسانی تقسیم کا بھی سبب بن سکتا ہے۔

پیپلز پارٹی شہری حلقوں میں اپنی سیاسی کمزوری کا نزلہ شہری آبادی سے لینا چاہتی ہے جس میں خاص طور پر کراچی شامل ہے۔ کراچی کا بنیادی مسئلہ ہی ایک مضبوط اور خود مختار مقامی حکومت کے نظام کی عدم موجودگی کا ہے۔ دنیا میں تمام بڑے میگا شہروں کا نظام عام شہری نظام سے مختلف ہوتا ہے اور میگا شہروں کو غیر معمولی اقدامات اور نظام کی مدد سے ہی چلایا جاتا ہے ۔ لیکن پیپلز پارٹی کراچی کو سندھ کے ایک ضلع کی بنیاد پر ہی چلانا چاہتی ہے جو عملی طور پر کراچی کی سیاست میں ایک بڑے ردعمل کی سیاست کو جنم دینے کا سبب بن رہا ہے۔

پیپلز پارٹی کی جانب سے شہری حکومتوں بشمول کراچی کو زیادہ سے زیادہ سیاسی، انتظامی اور مالی اختیارات دینے کی بجائے تمام اختیارات کا منبع وزیر اعلی سندھ کو بنا دیا گیا ہے۔ سندھ کا موجودہ مقامی حکومتوں کا نظام عملی طور پر 2013 کے نظام سے بھی کمزور ہے۔ اسی طرح جو لوگ 2000۔ 01 کے نظام کو دیکھیں تو اس کے مقابلے میں موجودہ نظام وزیر اعلی یا بیوروکریٹ تک محدود کر کے

سیاسی طور پر یتیم نظر آتا ہے اور اس کا مقصد سیاسی مخالفین کو دبانا، کمزور کرنا اور چند لوگوں تک نظام کو محدود کرنا ہے۔

وہ تمام ادارے جو 2000۔ 01 میں مقامی حکومت کے پاس تھے وہ بھی 2013 اور اب 2021 میں مقامی حکومتوں سے واپس لے لیے گئے ہیں۔ اس لیے جو بھی دیانت داری سے پیپلز پارٹی کا منظور کردہ مقامی نظام 2021 کا جائزہ لے گا تو وہ یہ برملا اعتراف کرے گا یہ مکمل نظام آئین کی شق 140۔ A اور 32 سمیت 7 کے خلاف ہے جو عملی طور پر مرکزیت یا صوبائیت تک محدود ہے۔ اصولی طور پر تو پیپلز پارٹی کو تمام پارلیمانی جماعتوں سمیت میڈیا اور سول سوسائٹی کو اعتماد میں لے کر ان کی تجاویز کو سامنے رکھ کر نظام کو تشکیل دینا چاہیے تھا، لیکن کیونکہ وہ ایک مضبوط مقامی نظام حکومت کے خلاف ہے تو اسی بنیاد پر نظام کو صوبہ اور شہری حلقوں میں مسلط کیا گیا ہے۔ پیپلز پارٹی کو عملی طور پر موجودہ سیاسی پالیسی پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ سیاست، جمہوریت اور عوامی مفادات کی سیاست پیپلز پارٹی سے ایک مضبوط مقامی نظام حکومت کا تقاضا کرتی ہے۔

آصف زرداری، بلاول بھٹو اور پیپلز پارٹی کی دیگر قیادت جو سب سے زیادہ جمہوریت کی دعوے دار ہے اسے سمجھنا ہو گا کہ اس موجودہ مقامی حکومتوں کا نظام لوگوں میں اس کے سیاسی مقدمہ کو کمزور کرنے کا سبب بن رہا ہے۔ اسی طرح اس کا ایک بڑا نتیجہ سندھ میں بری طرز حکمرانی اور عوام کو شدید حکمرانی کے نظام میں مشکلات کی صورت میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اگر واقعی پیپلز پارٹی عوامی سیاست اور کمزور طبقات کو صوبہ میں مضبوط اور مستحکم دیکھنا چاہتی ہے تو اسے 18 ویں ترمیم کی روح کے مطابق صوبہ سے ضلعوں اور تحصیلوں سمیت نچلی سطح پر انتظامی اور مالی اختیارات کے عمل کو ترجیحی بنیادوں پر مقامی نظام کو دینا ہو گا۔ یہ جو ہمیں ملک میں گورننس کا بحران دیکھنے کو مل رہا ہے اس کی وجہ بھی مقامی نظام کی عدم موجودگی ہے۔ لیکن کیا واقعی پیپلز پارٹی اور بلاول بھٹو مضبوط مقامی نظام دے سکیں گے، ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments