دیسی کھانے اور “سیونتھ” جنریشن وارز


رات کے تقریباً ساڑھے بارہ بجے ہیں۔ میں یہ بلاگ لکھ رہا ہوں۔ کچھ وقت پہلے میں نے کمپیوٹر آف کیا تاکہ میں سو جاؤں۔ سونے سے پہلے میں نے تھوڑی

سی چہل قدمی کی۔ آج میری بڑی بہن نے میرے لیے کھانا بھیجا۔ کنول پھول کے پودے کی جڑیں جن کو بہاولپوری سرائیکی زبان میں ”بھے“ کہتے ہیں مرغی کے گوشت کے ساتھ مصالحہ میں فرائی کیے ہوئے۔ ایک ٹفن بکس میں چنے کی دال اور انڈوں کا حلوہ بنا ہوا تھا جو مجھے بہت پسند ہے۔ ایک بکس میں ابلی ہوئی شکر قندی تھی۔ میں ڈنر جلدی کر لیتا ہوں تاہم تھوڑا سا حلوہ اور شکر قندی رکھ چھوڑے تھے کہ صبح کھا لوں گا۔ دو دن پہلے میں ان سے ملنے گیا تو وہ میرے لیے مولیوں والے تین گرم گرم پراٹھے دہی کے ساتھ لائیں۔

میں نے دو کھائے۔ پھر وہ ساگ فرائی کر کے گرم گرم سادہ پراٹھے کے ساتھ لائیں۔ وہ بھی کھایا۔ مرغی کے گوشت کی نمک لگی چھوٹی چھوٹی بوٹیاں گھی میں روسٹ کر کے لائیں۔ وہ بھی کھائیں۔ ان کے گھر کے صحن میں دھوپ میں بیٹھ کے بھاپ اگلتی گرم چائے پی۔ آپ کہو گے۔ اکبر شیخ اکبر ندیدہ ہے۔ ایسا نہیں۔ مجھے دنیا میں سب سے زیادہ اپنی بہنوں کے ہاتھ کا پکا کھانا پسند ہے۔ میری سوچ ہے کہ ماں اور باپ کے بعد دنیا میں سب سے مخلص رشتہ بہنوں کا ہوتا ہے۔

باہر کا کھانا میں مجبوراً کھاتا ہوں اور ندیدہ ہو کے نہیں کھاتا۔ میں جب کبھی ڈپریشن کی کیفیت محسوس کرتا ہوں تو اپنی بہنوں سے ملنے چلا جاتا ہوں۔ میری ڈپریشن اور اداسی ختم ہو جاتے ہیں۔ میرے روانہ ہونے سے پہلے بہن نے میرے لیے ڈرائی فروٹس اور گڑ والا دلیہ بنایا جو میں ساتھ لے آیا۔ میں ان کے لیے امپورٹڈ سویٹر لے کے گیا تھا جو انھیں بہت پسند آیا۔ بھائی کوئی بہت سستی چیز بھی بہنوں کے لیے لے کے جائیں پھر بھی بہنوں کو پسند آتی ہے۔

چہل قدمی کرتے ہوئے خیال آیا شکر قندی کھا لوں۔ ذہن اچانک اس نکتہ کی طرف چلا گیا کہ ففتھ جنریشن وارز کے تناظر میں شہروں کے قریب نئے انڈسٹریل پارکس بنانے سے بائیولوجیکل اور کیمیکل ہتھیاروں کی اثر پذیری کا ماحول تو پیدا نہیں ہو گا؟ بس پھر شکر قندی کھانے کی بجائے کمپیوٹر دوبارہ آن کیا اور اس وقت یہ سطریں لکھ رہا ہوں۔

میں عموماً ایک آدھ افسانہ لکھ کے رکھ دیتا ہوں پھر فیس بک پہ کوئی ادبی فورم افسانہ ایونٹ منعقد کرنے کا اعلان کرتا ہے تو اسے بھجوا دیتا ہوں۔ ایک ہفتہ سے سوچ رہا تھا، نیا افسانہ لکھوں اور عنوان رکھوں، ”بازاریے“ میرے نزدیک بازاریے ایک مائنڈ سیٹ ہے۔ دنیا میں تباہی کے حیاتیاتی اور کیمیائی ہتھیار بنانے والے بھی بازاریے ہوتے ہیں چاہے وہ سپر پاورز ممالک میں بیٹھے ہوں یا دنیا کے کسی بھی ملک میں۔

شہروں کے قریب نئے انڈسٹریل پارکس بنانے سے وہاں جو آلودگی پیدا ہوگی وہ حیاتیاتی اور کیمیائی ہتھیاروں کی اثر پذیری کا ماحول بنا دے گی اس لیے دنیا کے کسی بھی ملک کو اپنے شہروں کے قریب نئے صنعتی زون نہیں بنانا چاہیے۔

میری اپنے پیارے وطن پاکستان کے کسٹوڈینز سے بھی گزارش ہے کہ اس نکتہ کو سامنے رکھ لیں کہ آج تو ہم شہروں کے قریب نئے صنعتی زون بنا رہے ہیں، آئندہ پچاس سال بعد جب سپر پاورز ٹیکنالوجی کی تیزی سے بدلتی ہوئی شکلوں اور 6 جی اور 7 جی ٹیکنالوجی کی وجہ سے سکستھ جنریشن اور سیونتھ جنریشن وارز کے دور میں داخل ہو رہی ہوں گی تو اس وقت شہروں کے اندر اور قریب صنعتی زونز کوئی بہت بڑا مسئلہ نہ بن جائیں۔ بہتر ہے شہروں کے اندر اور قریب نئی صنعتوں کے قیام پہ پابندی لگا دیں۔ نئی صنعتیں شہروں سے بہت دور بنائی جائیں۔ میرا یہ مشورہ عالمی امن کے لیے دنیا کے تمام ممالک کے لیے بھی ہے۔

شکر قندی اب صبح ہی کھاؤں گا۔ شب خیر۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments