بد کردار مرد


ایک مشہور قول ہے کہ ”اگر معاشرہ خواتین کی آزادانہ ترقی کو تسلیم نہیں کرے گا، تو معاشرے کو از سر نو تشکیل دینا چاہیے۔“

بدقسمتی سے افسانہ نگار، تاریخ دان، فلاسفر سے لے کر مذہبی لوگوں تک ان کے فلسفے، تاریخ اور افسانوں میں آپ کو بدکردار عورت کا ذکر ضرور ملے گا۔ اگر تاریخی اوراق کو پلٹ کر دیکھا جائے تو قدیم یونان سے لے کر اب تک عورت کی محبت اور اس کی مجبوریوں کو بدکرداری سے تشبیہ دینے کی کوششیں کی گئی ہے اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔

اگر فریب کے عینک اتار کر اس سارے منظر نامے کو پرکھا جائے تو اس بدکردار عورت کی بدکرداری کے پیچھے ایک بدکردار مرد کا ہی ہاتھ ہوتا ہے جو بظاہر اس سارے منظر نامے میں معاشرہ مرد کو ایک اچھے کردار کا مالک پیش کرنے میں پیش پیش ہے۔

منٹو کے افسانوں میں کوٹھے پر بیٹھی عورت کا ذکر ضرور ملے گا۔ کیا کسی نے سوچا ہے کہ بہتر حوروں کی سردارنی کو کن حالات نے اس حد تک مجبور کیا کہ وہ کوٹھے پر آ کے بیٹھ گئی۔ کوٹھے پر بیٹھی ہوئی اکثر وہ مجبور عورتیں ہوتی ہیں جن کے خاوند انہیں طلاق دے چکے ہوں۔ جن کے خاوند چرسی، بھنگی اور موالی ہوں۔ جب اس مجبور عورت کے بھوک سے نڈھال بچے اپنی ماں سے رو رو کر کھانے کی فرمائش کرتے ہوں گے ، پتہ ہے کہ اس ماں پر کیا گزرتی ہوگی۔

ان کے پاس کوئی اور راستہ بچتا ہی نہیں ہے۔ مشہور قول ہے کہ بھوک تہذیب کے آداب مٹا دیتی ہیں۔ اور پھر انہی کوٹھوں کو یہی اچھے کردار کے مالک مرد ہی آباد رکھتے ہیں اور اپنے جنسی خواہشات کی تسکین کرتے ہیں۔ کسی کے ذہن میں یہ سوال بھی آیا ہو گا کہ اس عورت کو طلاق لے کر دوسری شادی کر لینی چاہیے، تو میری جان! ہمارے معاشرے میں طلاق یافتہ عورت کے ساتھ نکاح کرنے کو عیب سمجھا جاتا ہے۔ اور پھر ایک ایسی عورت جس کے پہلے سے ہی دو تین بچے ہوں۔ اس سارے منظر نامے میں مجرم مرد ہی لیکن بدکردار عورت۔ میری نظر میں تو وہ عورت مجبور اور بدکردار مرد ہی ہے۔

بی بی سی کی ایک حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ دس اور بارہ سال کی عمر کی بچیوں کو سیکس ٹریفکنگ میں استعمال کیا جاتا ہے اور اس مقصد کے لئے انہیں رومانیہ سے برطانیہ سمگل کیا جا رہا ہے۔

روزنامہ اسلام خبر کے مطابق پاکستان میں سال 2020 میں بچوں کے ساتھ جنسی ہراسانی کے ٹوٹل 2960 کیسز رپورٹ ہوئے جن میں سے 1510 لڑکیاں تھی۔

29 دسمبر 2021 روزنامہ جیو نیوز میں پبلش کی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ جنوری 2021 سے لے کر جون 2021 تک پاکستان میں روزانہ کی بنیاد پر دس بچوں کے ساتھ جنسی زیادتیاں کی جاتی ہے۔ یہاں پر تین تین اور چار چار سال کے بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں کے بعد انہیں مار دیا جاتا ہے لیکن بدکرداری کا لیبل صرف عورت کے لئے ہیں۔ یہاں پر میں عورت کو فرشتہ ظاہر کرنے کی ہرگز کوشش نہیں کر رہا لیکن مانیے کہ مرد عورت سے کئی گنا زیادہ بدکردار ہے۔

ہمارے معاشرے میں بدقسمتی سے ایک اور ٹرینڈ بھی ہے کہ اگر مرد غصہ کرے تو نارمل اور اگر عورت غصہ کرے تو مار پیٹ، طلاق اور گھریلو مشقت جیسی سزائیں۔ مرد نشہ کرے تو وہ نارمل عورت کرے تو گشتی اور بازاری۔ مرد ایک بیوی کے ہوتے ہوئے دوسری شادی کرے تو وہ اس کا حق ہے اور اگر یہی عورت گھریلو جھگڑوں اور شوہر کی مار پیٹ اور زیادتیوں سے تنگ آ کر طلاق کا مطالبہ کرے تو بد کردار اور بد چلن۔ مرد محفلوں میں خواجہ سراؤں اور دیگر ناچنے والوں پر نوٹوں کی برسات کرے تو ٹھیک اور اگر اس کی اپنی بہن جائیداد میں حصہ مانگے تو بدکردار۔

زندہ طوائفوں اور خواجہ سراؤں کے کوٹھوں کو آباد کرنے اچھے کردار کے مالک مرد ان کی نماز جنازہ میں جانے سے کتراتے ہیں، ان طوائفوں اور خواجہ سراؤں کے جنازوں کو کندھا دینے والا کوئی نہیں ہوتا سوائے ان کے اپنے کمیونٹی کے۔ کیونکہ یہ بد کردار طبقہ ہے۔

یقیناً جب مولوی صاحب کو کہا گیا ہو گا کہ جناب ایک طوائف کا نماز جنازہ پڑھانا ہے تو شاید انکار ہی کیا ہو گا کہ میں نہیں پڑھا سکتا ہے۔ سوال ابھرتا ہے ذہن میں کہ ان طوائفوں کے ساتھ سونے والوں کا اور ان سے اپنی جنسی پیاس بجھانے والوں کا نماز جنازہ پڑھا جا سکتا ہے تو طوائف کا کیوں نہیں۔

ہو سکتا ہے کہ معاشرے میں عورت کا کردار اچھا نہ ہو لیکن حقیقت میں اس بدکرداری کا مرکزی ملزم یہی مرد ہے جو شرافت اور اچھے کردار کا چادر اوڑھ کر اپنی اصلیت کو چھپانے کی کوشش کر رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments