گمشدہ جنت


جناح روڈ پر وہ مسکراتا ہوا چلتا جا رہا تھا۔ خزاں رسیدہ پتے اس کے پاؤں کے نیچے کچلے جانے کے سبب چرچراہٹ کی آواز نکال رہے تھے گویا خود پر کیے اس جبر کے خلاف آواز اٹھا رہے ہوں۔ کوئٹہ میں اس وقت شدید ٹھنڈ تھی۔ درجہ حرارت نقطۂ انجماد سے نیچے گر چکا تھا۔ ہلکی ہلکی برف پڑ رہی تھی۔ آج وہ بہت خوش تھا۔ اسے سرکاری نوکری تو کوئی مہینہ قبل مل چکی تھی مگر آج اسے اپنی تنخواہ ملی تھی جسے وہ اپنی میلوں دور بیٹھی ماں کو دینا چاہتا تھا۔

جناح روڈ سے اس کے پاؤں خشک میوہ جات کے بازار کی جانب بڑھے۔ وہ چلتے چلتے ایک دکان کے پاس رکا۔ وہاں موجود دکاندار سے گویا ہوا۔ ”یہ بادام کتنے کلو ہیں؟“ ۔ ”محض آٹھ سو جناب“ دکاندار نے جواب دیا۔ ”اچھا دو کلو دینا ساتھ میں دو کلو کاجو بھی دے دینا“ ”جی اچھا“ دکاندار نے سر اثبات میں ہلا دیا۔ اس نے جیسے سامنے دیکھا سامنے ایک پیارا سا بچہ اسے دیکھ کر مسکرایا۔ اسے ہمیشہ سے بچے بہت پسند تھے۔ وہ جواباً مسکرایا۔ ان دونوں کو شاید معلوم نہ تھا کہ ان کی مسکراہٹ شاید آخری ثابت ہونے والی تھی

+++++++++++++++++++++++++++++

اس کی چال میں گھبراہٹ تھی۔ ٹھنڈ کے باوجود وہ اپنے چہرے پر آنے والے پسینے کو بار بار پونچھ رہا تھا۔ اس نے ایک خاکی رنگ کی جیکٹ پہن رکھی تھی۔ اس کے ساتھ آنے والا شخص بار بار اس کو حوصلہ دے رہا تھا۔ مگر اس کے اندر ایک طوفان چل رہا تھا۔ اس نے ایک نظر اردگرد کے ماحول پر ڈالی۔ کچھ لوگوں کے چہرے خوش و خرم تھے اور کچھ اپنی زندگی کی گاڑی کو بہ مشکل گھسیٹ رہے تھے۔ ”م میں یہ کیسے کر سکتا ہوں؟ اتنے سارے لوگ ہیں جو اپنی زندگیوں میں خوش ہیں مگر میں کیسے ختم کر سکتا ہوں“ ۔

وہ اپنے آپ سے جیسے سوال کر رہا ہو مگر سوالوں کا وقت تو شاید کب کا گزر گیا۔ اس کے ذہن میں یادوں کے جھکڑ چل پڑے تھے۔ ایک طالب علم سے وہ یہاں تک پہنچا تھا۔ قلم سے اس جیکٹ تک کا یہ سفر آسان تو بہرحال نہ تھا۔ آج اس کو اس جگہ وہی کرنا تھا۔ ”گل خان گل خان اب وقت ہو چلا کر دو اب“ ۔ ”جی بہتر اس کا ہاتھ حرکت میں آیا لیکن اس کو ایک جھٹکا سا لگا جیسے اس کا سویا ہوا ضمیر جاگ چکا ہو۔

++++++++++++++++++++++++++++++

وہ چیزیں تو لے چکا تھا اس کے قدم اسٹیشن کی جانب چل پڑے۔ برف باری کے ذرے اس کے چہرے پر پڑ رہے تھے اور ہر گرتے ذرے کے ساتھ اس کے اندر گویا یادوں کا ایک طوفان برپا تھا۔ وہ خود تو یہاں تھا مگر اس کا ذہن دس برس قبل اپنے گاؤں میں تھا جہاں اس کی والدہ گاؤں کے تپتے موسم میں چاول کی فصل کے ابلتے پانی کے اندر کھڑی کھیتی باڑی کر رہی تھی۔ ”لائیں امی میں یہ کر دیتا ہوں“ ۔ ”نہیں بیٹا تم پڑھو تمھیں تو وڈا آدمی بننا ہے۔ شہر کا صاحب بننا ہے۔“ اس کو آج سب کچھ یاد آ رہا تھا ماں کے ہاتھوں کے چھالے ان کی پیروں پر جما ہوا خون جانے کب کا رس رس کے جم جاتا۔ وہ دنیا کو روٹیاں دیتی تھی مگر ان کے خود کے گھر میں فاقے ہوا کرتے تھے۔ مگر اب سب بدلنے والا تھا۔ اس کی آنکھوں سے خوشی کے آنسو رواں تھے۔ اسے پتا ہی نہ چلا کہ اسٹیشن آ گیا۔ ریل کی آنے کی آواز آئی وہ پلیٹ فارم کے آخر سے وسط کی جانب بڑھا۔ وہ جیسے اپنی جنت کو خوش کرنے کو بے تاب تھا۔

سامنے سے ایک نوجوان چلتا ہوا آ رہا تھا۔ اس کا ہر بڑھتا قدم اس کو ماضی میں لے کر جا رہا تھا۔ ٹھاہ کے ساتھ بندوق کی آواز، وہ اس کی ماں کا چیخنا، ایمبولینس کے سائرن کی آواز۔ اسے بھی اپنی جنت صاف نظر آ رہی تھی۔ اس نوجوان نے اپنے منتشر ذہن میں آتے خیالوں کو جھٹکتے ہوئے اس نے اپنی جیکٹ سے نکالتے ہوئے بٹن دبا دیا۔ فضا میں دھماکا ہوا اور دونوں کی جنت جیسے تشنہ رہ گئی۔

احمد رضا خان کھوسو
Latest posts by احمد رضا خان کھوسو (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments