ممنوعہ ادویات کی فراہمی اور شیڈول جی کا نفاذ


پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں ایسے رسالے بھی ملتے ہیں جن پر لکھا ہوتا ہے اب ڈاکٹر بنیں صرف سو دن میں۔ اگر پاکستان میں سنڈے میگزین دیکھے جائیں تو جنسی مسائل اور دوسری بیماریوں کے علاج کے لیے ایسے اخلاق سے گرے ہوئے اشتہار آتے ہیں کہ بندے کو پڑھ کر بھی شرم آتی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ پورا پاکستان ہی جنسی مسائل کا شکار ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر فلاں فلاں بی اے، ایم اے سے رابطہ کریں۔ ایسی اخلاق سے گری ہوئی عبارات پاکستان بھر کی دیواروں پر بھی لکھی ہوئی ملتی ہیں۔

اور آج کل سوشل میڈیا پر ان لوگوں نے اپنے اپنے چینلز بنا رکھے ہیں۔ ایک چینل پر تو ایک نقاب والی لڑکی بیٹھ کر لیکچر دے رہی ہوتی ہے کہ اپنے جنسی مسائل اور خوشگوار ازدواجی زندگی گزارنے کے لیے ہمارے دوا خانے پر تشریف لائیں۔ یہ سراسر متعلقہ اداروں کی غفلت کا نتیجہ ہے کہ پاکستان بھر کی دیواریں اور سنڈے میگزین ان اشتہارات سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ سب سرکاری افسروں نے اپنی آنکھوں پر پٹی چڑھا رکھی ہے اور ہر بندہ ہی جیسے صحت کے شعبے کا ماہر ہو۔

اگر بات کی جائے محکمہ صحت کی نا اہلی پر تو پاکستان کی ہر گلی محلے اور دیہات میں ایسے عطائی اور بنگالی بابے کثرت کے ساتھ ملتے ہیں جو لوگوں کی صحت کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ ہماری سادہ لوح اور غریب عوام ان کے پاس ایک کثیر تعداد میں جاتی ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ اتنا رش تو ڈاکٹر کے پاس نہیں ہوتا جتنا ان عطائی لوگوں کے پاس ہوتا ہے۔ ایک دفعہ تو ایک ایسے ڈاکٹر صاحب کو بھی دیکھا جو ایک عطائی کے ہسپتال میں صرف حاضری لگانے آتے تھے۔

جبکہ عطائی ڈاکٹر صبح پرائمری سکول میں بچوں کو پڑھاتا تھا اور شام کے ٹائم پریکٹس کیا کرتا تھا۔ اسی طرح پاکستان کے زیادہ تر میڈیکل سٹور، فارمیسیز اور لیبارٹریاں نان کوالیفائیڈ لوگ چلا رہے ہوتے ہیں جبکہ فارماسسٹ کہیں اور نوکری کر رہا ہوتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان عطائی لوگوں کا بزنس کیسے چل رہا ہے۔

فرض کریں ایک ایف اے پاس لڑکا ہے وہ کسی گلی محلے میں کھلے ہوئے پیرامیڈیکل سکول میں داخلہ لیتا ہے اور ایک دو سال پڑھ کر کسی ہسپتال میں ڈاکٹر کے پاس ایک دو سال کام کرتا ہے اور پھر اپنے گاؤں میں پریکٹس شروع کر دیتا ہے یا پھر اگر کسی کے پاس کچھ زیادہ پیسے ہوں تو کسی فارماسسٹ سے اے کیٹگری یا بی کیٹگری لے کر اپنا میڈیکل سٹور بنا لیتا ہے۔ اپنے گاہکوں کو مطمئن کرنے کے لیے پانچ طرح کی ادویات استعمال کرواتا ہے۔

پہلی قسم ہے اینٹی بائیوٹکس کی۔ اینٹی بائیوٹکس وہ ادویات ہوتی ہیں جو کسی بھی انفیکشن میں دی جاتی ہیں۔ اور ان کا کورس پورا کرنا لازم ہوتا ہے ورنہ جراثیم کی ان ادویات کے خلاف مزاحمت پیدا ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں دوائی کسی مخصوص بیماری میں اپنی افادیت کھو دیتی ہے۔ اور ہمیں کسی زیادہ پوٹینٹ سالٹ کی طرف جانا پڑتا ہے۔ اس وقت طب کے شعبے میں اینٹی بائیوٹکس ادویات کی مزاحمت بہت بڑا چیلنج ہے۔ اس میں قصور سب سے پہلے فارما انڈسٹری کا ہے۔

فارما انڈسٹری اپنے میڈیکل ریپس کو یہ پڑھاتے ہیں کہ یہ دوائی سب سے زیادہ قابل اثر ہے۔ پھر پاکستان میں لوکل فارما انڈسٹریز کی غیر معیاری ادویات کی وجہ سے بھی یہ مزاحمت دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔ میڈیکل سٹور پر بیٹھے نان کوالیفائیڈ لوگ مریضوں کو صحیح بتانے سے قاصر ہوتے ہیں اور مریض کو اگر دو دن میں آرام آ جائے تو وہ مزید دوائی نہیں لیتا۔

دوسری قسم کی ادویات ہیں سٹیرائیڈز۔ یہ ایسی ادویات ہوتی ہیں جو کسی مخصوص صورت میں مخصوص وقت کے لیے دی جاتی ہے تاکہ مریض جلد صحت یاب ہو سکے۔ اپنے مریضوں کو مطمئن کرنے کی خاطر عطائی لوگ اپنے گاہکوں کو اندھا دھند یہ ادویات دیتے ہیں۔ پاکستان میں ان ادویات کا استعمال نہ صرف بیمار لوگ کرتے ہیں بلکہ جو لوگ تن سازی کے شوقین ہوتے ہیں وہ بھی اپنے مسلز بنانے کے لیے ان ادویات کا سہارا لیتے ہیں۔ باڈی بلڈر حضرات تن سازی کے مقابلے جیتنے کے لیے مختلف اقسام کے سپلیمنٹس کا استعمال کرتے ہیں جن میں سٹیرائیڈز کی ایک خاص مقدار شامل کی جاتی ہے۔

جم مالکان خود بتاتے ہیں کہ ان کے استعمال کے بغیر آپ مقابلہ نہیں جیت سکتے۔ ابھی پچھلے سال ہی بھارت کے ایک مشہور اداکار کی سٹیرائیڈز کے زیادہ مقدار میں استعمال کرنے سے وفات ہو گئی تھی۔ پاکستان میں ابھی تک کوئی ایک ایسا سرکاری ادارہ نہیں ہے جو ان سپلیمنٹس کا معائنہ کرے جبکہ یہ سپلیمنٹس ایف ڈی اے سے اپروو بھی نہیں ہوتے۔ اگر یہ سپلیمنٹس کوئی مہنگے ہونے کے سبب نہ خرید سکے تو میڈیکل سٹور سے بغیر پریسکریپشن کے با آسانی حاصل کرلیتے ہیں۔ ان سٹیرائیڈز کے کثرت سے استعمال کرنے کی وجہ سے ذیابیطس اور گردوں کے امراض ہونے میں دیر نہیں لگتی۔

تیسری قسم کی ادویات کنٹرولڈ اینڈ نارکوٹکس ہیں۔ یہ ادویات عام طور پر ان مریضوں کو دی جاتی ہیں جو مرگی کے مریض ہوں، کینسر کی درد کے مریض ہوں، کسی دماغی مسئلے میں ہوں یا پھر آپریشن تھیٹر میں کسی مریض کو بے ہوش کرنا ہو۔ یہ ادویات وقتی طور پر سوچ سمجھ اور درد کی کیفیت کو ختم یا کم کرنے میں کام آتی ہیں۔ اس کے علاوہ کھانسی کے شربت میں الکوحل کی ایک مخصوص مقدار موجود ہوتی ہے۔ یہ سب ایسی ادویات ہیں جن کی لت پڑ جاتی ہے۔

شہباز شریف کے گزشتہ دور حکومت میں کچھ دوستوں نے مل کر یہ کھانسی کے شربت پیے تھے۔ زیادہ مقدار میں پی لینے کی وجہ سے ان کی وفات ہو گئی تھی۔ تمام ترقی یافتہ ممالک میں صرف فارماسسٹ ہی ادویات کو فروخت کر سکتا ہے جس کے لیے محکمہ صحت سے باقاعدہ اپروول لینی پڑتی ہے اور ایک ایک گولی کا حساب رکھنا پڑتا ہے۔ اگر کسی جگہ پر کوئی تضاد ہو تو فارماسسٹ کو جیل تک بھی ہو سکتی ہے۔ ابھی حال ہی میں امریکہ کی ایک فارما انڈسٹری کو پانچ سے سات بلین ڈالرز کا جرمانہ ہوا ہے۔

چوتھی قسم کی سیکس سے متعلقہ ادویات ہیں۔ پاکستان میں حکیم اور عطائی لوگوں کا زیادہ تر کاروبار اسی شعبے سے وابستہ ہے۔ مختلف اقسام کی معجونیں، کیپسول اور گولیاں ملتی ہیں جن کی پیکنگ پر تو دیسی ادویات کا ذکر ہوتا ہے مگر جب ان کو تجربہ گاہ میں پرکھا جاتا ہے تو بیچ میں اکثر اوقات Sildenafil اور افیم کی آمیزش ہوتی ہے۔ حکیم اور عطائی لوگ اپنے مریضوں سے یہ بات چھپاتے ہیں۔ ویسے تو یہ سالٹ پاکستان میں بنانا اور بیچنا منع ہے مگر پھر بھی بھارت اور افغانستان سے سمگل ہو کے آتا ہے۔ لگ بھگ ہر میڈیکل سٹور سے ہی یہ سالٹ با آسانی تعلقات کی بنا پر مل جاتا ہے۔

پانچویں قسم ان ادویات کی ہے جو کہ جانوروں کے لیے مخصوص ہوتے ہیں۔ خاص طور پر جانوروں کے ڈیلیوری کیسز میں لگائے جانے والے انجیکشنز۔ عطائی حضرات خواتین کے ابارشن میں ان ادویات کا استعمال بھی کرتے ہیں۔ دیہات میں دائیاں بھی مانع حمل کی ادویات ڈاکٹر سے مشورہ کے بغیر استعمال کرواتی ہیں۔

یہ سب ایسی ادویات ہیں کہ جن کا سیفٹی پروفائل کم ہوتا ہے اور ان سے سائیڈ ایفیکٹس بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ ان میں زیادہ تر ادویات حاملہ عورتوں، بچوں، جگر اور گردوں کے امراض میں منع ہوتی ہیں۔ حتی 1 کہ بہت ساری ایسی ادویات بھی ہوتی ہیں جن کے لیے فارماسسٹ بھی خود سے دوائی نہیں دے سکتا اور بہت ساری ایسی ادویات بھی ہوتی ہیں جو صرف ایک سپیشلسٹ ڈاکٹر ہی لکھ سکتا ہے۔

سال 2007 میں حکومت پنجاب نے شیڈول جی متعارف کروایا۔ اس رول کے مطابق صرف وہی سٹور ان مخصوص ادویات کو رکھ سکتا ہے جہاں فل ٹائم کوالیفائیڈ فارماسسٹ موجود ہو۔ مگر افسوس کہ ڈرگز مافیا جس میں تمام سٹیک ہولڈرز برابر کے شریک ہیں شیڈول جی کے نفاذ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ ان لوگوں کی مسلسل ہڑتالوں اور بلیک میلنگ کی وجہ سے فارماسسٹ اپنا جائز مقام حاصل کرنے سے محروم ہے اور ڈرگ انسپیکٹر حضرات کا رشوت لینا کسی سے ڈھکا چھپا ہوا نہیں ہے۔ شہباز شریف نے پھر بھی ڈرگ مافیا کے خلاف بہت سخت ایکشن لیے مگر موجودہ حکومت اس معاملے میں بالکل لاپروا نظر آتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments