عوام حقوق ملنے کے منتظر


پاکستان کے قیام سے لے کر اب تک عوام نے اپنے حق کے لیے جتنی بار آواز اٹھائی وہ شاید کسی اور ملک کی تاریخ نہ ہو اپنے حق کے لیے عوام نے صرف انتخابات کا راستہ ہی اختیار نہیں کیا بلکہ میدان میں بھی اترے وہ الگ بات ہے کہ تجربہ کار سیاست دانوں نے عوام کی خواہشات کو اپنے لیے استعمال کیا۔ عوام نے اپنے حقوق پانے کو پاکستان حاصل کیا اور اس قیام کو عملی جامہ پہنچاتے ہوئے ایسی قربانیاں دی کہ تاریخ رقم ہو گئی دنیا نے مخلص قیادت کی بات کو مانا اور ہمیں ایسی سلطنت مل گئی جہاں عوام کے حقوق کی پامالی نہیں بلکہ اس کی حفاظت کا نعرہ لگایا گیا عوام کی قربانیاں لہو سے رنگی تھیں عوام نے ملک کے لیے اپنی عزتوں کو خود اللہ کے حوالے کیا تاکہ آنے والی نسلوں کو بہتر زندگی دے سکیں۔

ماؤں نے اپنے سامنے لخت جگروں کو تڑپتے دیکھا بہنوں نے اپنی حفاظت کا ذمہ لینے والوں کا خون بہتے ہوئے دیکھا خواتین کی بھری گودیں اجڑ گئیں۔ قیام پاکستان سے قبل سو سال کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو قربانیوں کی ایسی لازوال داستانیں ہیں کہ جن کی کسی اور خطے میں مثال نہیں ملتی آج بھی پاکستان کا قیام دیکھنے والوں کی آنکھوں کے سامنے ہیں قربانی کی تاریخ لکھنے والی روحوں کی سسکتی چیختی آوازیں حکمران طبقے کے ضمیروں کو جھنجھوڑ رہی ہیں کہ ہمارے خون کا سودا نہ کرو ہماری خون میں رنگی ہوئی امنگوں کو کولڈ اسٹوریج میں بند نہ کرو کہ یہ رہتی دنیا تک پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کو کھوکھلا کرنے والوں کے لیے عذاب بن کر قہر نازل کرتی رہیں گی۔

آئین پاکستان میں درج ہے کہ عوام کو بنیادی حقوق دینا حکمرانوں کا فرض ہے اور اس حق کو کوئی جمہوری ہویا آمر حکمران روند نہیں سکتا تو تاریخ لکھنے اور پڑھنے والے اس بات کا بغور جائزہ لیں کہ عوام کو ان کے حقوق کس حد تک ملے یا عوام کو دیے جانے والے حقوق حکمرانوں نے اپنے اپنے انداز میں غصب کیے رکھے یہ کیسے حقوق دینے کا نعرہ لگا سکتے ہیں کہ جب عوام اپنے گھروں محفوظ نہیں کیا لوگ گھروں کے اندر خودکشیاں نہیں کر رہے یا گھر کی دہلیز پر قتل نہیں ہو رہے کیا صاف پانی میسر ہے اور جو صورتحال ہے عوام تو پانی کی ایک بوند کو بھی ترستے نظر آ رہے ہیں کیا حکمران عوام کو کھانے پینے کی اشیاء میں سے کچھ ملاوٹ سے پاک مہیا کر سکتے ہیں اس کو بھی چھوڑ دیں جانداروں کو تو کچھ خالص نہیں مل سکتا آپ نے گھر بنانا ہو تو معیاری چیز ملنا خواب لگتا ہے کوئی یہ نہیں سوچتا کہ اس کے ناجائز منافع کے باعث کتنی جانوں کو خطرہ ہو گا۔

حکمران کہاں پر عوام کے حقوق کی حفاظت کر رہے ہیں غیر معیاری سامان کے باعث جب زیر تعمیر عمارت گر جاتی ہے تو بنانے والے اور اجازت دینے والے کو چند دن کے لیے گرفتار کر لیا جاتا ہے اور اگر کسی کو سزا ہو بھی جائے تو وہ بیمار ہو کر اسپتال منتقل ہو جاتا ہے۔ گھر سے باہر نکلو تو ٹوٹی سڑک بند سیوریج گٹروں سے ڈھکن غائب، سڑیٹ لائٹ بند اور اگر احتجاج کرنے کی کوشش کرو تو آوارہ کتے ہی اپ کا چلنا مشکل بنا دیں گے آپ کی قسمت مزید خراب ہوئی تو کتے کے کاٹنے کی ویکسین نہ ملنے سے موت کے منہ میں بھی جا سکتے ہیں وہاں سے بچ گئے تو علاج گاہوں میں آپ کا ایسا حشر کریں گے کہ اپنی جمع پونجی لگا کر کسی ہوٹل نما اسپتال کے وی آئی پی کمرے میں ایسا علاج کیا جائے گا کہ یہاں سے نکلنے کے لیے قرضہ لینا پڑے گا ان کا ایک ہی اصول ہے بل دو اور میت لے جاؤ

کسی زمانے میں ایسے لوگوں کو قصائی کہا جاتا تھا لیکن پھر بھی کسی کی عمر باقی رہتی تھی تو وہ زندگی کے دن پورے کر لیتا تھا لیکن حکمرانوں کو تحائف دیے کر مراعات حاصل کرنے والے قصائی نہیں جلاد بن چکے ہیں پاکستان کی تاریخ کا کوئی بھی حکمران صرف اتنا بتا دے کہ عوام کے اصل حقوق کب عوام کو منتقل کیے جتنا حکمران اپنا پیٹ بھرتے رہے عوام کا پیٹ اتنا ہی خالی ہوتا گیا اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ فاقے ہی نہیں لوگ غذائی قلت سے مرنے لگے جن چیزوں میں ہم خود کفیل تھے وہ سب خواب ہو گیا پھر بھی حکمران سوئے ہیں اور عوام بھی ان کے دل موہ لینے والے نعروں سے اکتا کر زہر کا گھونٹ خود ہی پی رہے ہیں وہ نہ حکمرانوں اور نہ اپوزیشن کے کہنے پر باہر نکلنے کو تیار ہیں۔ آج سب بڑے بڑے ناموں والے عوام کا ترلے ڈالتے نظر آ رہے ہیں کہ خدا کے لیے باہر نکلو لیکن کسی کی بات میں اثر نہیں رہا خود کفیل طبقے اور عوام کو ایک دوسرے کے لیے ساحر کے اس شعر کی طرح سوچنا ہو گا

علم سولی پر چڑھا پھر کہیں تخمینہ بنا
زہر صدیوں نے پیا کہیں نوشینہ بنا
سینکڑوں پاؤں کٹے تب کہیں ایک زینہ بنا

ورنہ جب تک حکمران اپنے ناجائز ذخیروں اور عوام اپنی خواہشات کے غلام رہیں گے نہ حکمران عوام کو حقوق دے سکیں گے اور نہ عوام اپنے حق کے لیے لڑ سکیں گے سب کو اس بات بارے سوچنا ہو گا کہ حقوق صرف سڑکوں پر آ کر حاصل نہیں ہوتے قربانی سے ملتے ہیں اور سفید خون کی قربانی جائز نہیں شاہراہ عام پر ممنوع ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments