ایک پیج پر


دنیا گلوبل ویلج بن کر انسانی پوروں میں سمٹ آئی ہے غور کریں وقت اور حالات کے تقاضوں کے تحت خود کو تبدیل کیے بغیر یہ ممکن ہوا قطعاً نہیں دنیائے عالم میں نت نئے تجربات ’مشاہدات کے بعد دنیا ترقی کے سفر پر گامزن ہوئی ہے۔ اور یہ طے ہے کہ ہم بحر و بر کی دنیا میں وقت اور حالات کے تقاضوں کے تحت خود کو ڈھال کر ترقی کی دوڑ میں شامل ہو سکتے ہیں انسانی خیالات اور نظریات کی بھی ایک مدت متعین ہوتی ہے اگر آپ کے خیالات و نظریات وقت اور حالات کے ساتھ تبدیل نہیں ہوتے تو فکری موت کے ساتھ غیر متوقع تبدیلی کے آتے ہی خیالات و نظریات بھی دم توڑ جاتے ہیں۔

قوموں کی ترقی و عروج کی تاریخ کا مشاہدہ کر لیں قوموں کی ترقی و عروج کے پس پردہ اہل قلم‘ ادیب اور دانشور کی سوچ اور فکر موجود ہو گی۔ ہمارے ملک میں دراصل گنگا الٹی بہہ رہی ہے اہل قلم اور دانشور طبقہ کی ایک ایسی کھیپ موجود ہے جو ان کرسیوں کے کیڑوں کی حفاظت میں شخصیت پرستی کا شکار ہو کر اپنی ذمہ داری سے مفر اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اس وقت ملک کو نہ صرف سیاسی و معاشی عدم استحکام کا سامنا ہے بلکہ ملک دشمن قوتوں کی جانب سے داخلی و خارجی سطح پر بھی چیلنجز کا سامنا ہے ملک دشمن قوتوں نے پاکستان کے ذرائع ابلاغ اور سیاسی جماعتوں میں بیج بو کر جو آبیاری کی ہے اسی کے باعث نظام عدم استحکام کا شکار ہے اگر اس فصل کو کاٹا نہ گیا تو نہ ملک میں بے لاگ احتساب کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے اور نہ ہی ملک میں سیاسی و معاشی استحکام لایا جا سکتا ہے۔

تحریک انصاف کی حکومت اپنے اقتدار کے تین سال مکمل کر چکی ہے یہ طے ہے کہ ملکی معیشت کو اس قدر استحکام نہیں مل سکا کہ عام آدمی یہ برملا کہہ سکے کہ اس کا آج کل سے بہتر ہے مہنگائی بلند ترین سطح کو چھو کر عوام کی کمر پر کوڑے کی صورت برس رہی ہے حالانکہ میں سمجھتا ہوں مہنگائی عوام کا مسئلہ نہیں ہے اصل مسئلہ روزگار ہے اور اس سلسلے میں حکومت ایسے کیا اقدامات اٹھا رہی ہے جس سے عام آدمی کے لئے روزگار کے مواقع فراہم ہو سکیں اس پر ایک مفصل کالم لکھوں گا۔

صرف مہنگائی کی صورتحال نے اپوزیشن اور سرمایہ دارانہ سوچ کی کوکھ سے جنم لینے والے دانشور طبقہ کو آکسیجن فراہم کی ہے اپوزیشن اور یہ تنخواہ دار دانشور طبقہ عوام کو یہ باور کروانے کی کوشش میں ہے کہ حکمران جماعت (تحریک انصاف) عوام سے کیے گئے وعدوں کی پاسداری میں مکمل ناکام ہو چکی ہے۔ حالانکہ اپوزیشن کا اس قومی سیاست میں کس حد تک کردار ہے کسی سے ڈھکا چھپا نہیں اپوزیشن ایسے ایشوز پر بات کرتی نظر آتی ہے جن ایشوز کا عوام سے دور دور تک کا واسطہ نہیں۔

تحریک انصاف کو عوام نے پانچ سال کے لئے منتخب کیا ہے۔ ہمیں بہتری کی امید رکھنی چاہیے نہ کہ کارپوریٹ کلچر کے حامی سیاستدانوں اور میڈیا کے بے بنیاد پراپیگنڈا کا شکار ہو کر مایوس نہیں ہونا چاہیے میں یہاں ممتاز سینئر کالم نویس اسد اللہ غالب کی نئی کتاب ”ایک پیج پر “ کا تذکرہ اس لئے ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ کتاب ان حالات میں سامنے آئی جب چہار جانب سے ایک منتخب حکومت کی کشتی میں سوراخ کرنے کے لئے جمہوریت کا لبادہ اوڑھے سیاسی قوتیں غیر جمہوری سوچ اور طرز سیاست کے ذریعے ایک صفحہ پر جمع ہیں اور اپنے سیاسی اقتدار کو حاصل کرنے کے لئے ریاستی اداروں پر اپنے زہر آلود نشتر چلانے سے بھی گریز نہیں کر رہی ہیں۔

اس وقت پاکستان چار بڑے مسائل سے نبرد آزما ہے جو نظام کو ساکت کیے ہوئے ہیں پہلا ظالم جاگیر دارانہ سرمایہ دارانہ نظام یہ جاگیر دار طبقہ اس خود ساختہ نظام کے ذریعے لینڈ مافیا ’پٹواری مافیا‘ پولیس مافیا ’ڈی سی مافیا کو سپورٹ کرتا ہے اور جاگیر دار اور بزنس ٹائیکون اس نظام کو گرنے نہیں دیتے کیونکہ اس نظام کی رگوں میں ان کے مفادات کا خون گردش کرتا ہے۔ دوسرا جاگیردارانہ نظام کی وجہ سے بڑھتی ہوئی ناخواندگی‘ تیسرا ناقص عدالتی نظام جس نے نظریہ ضرورت کا پودا لگنے دیا چوتھا مسئلہ ہمارا زر خرید میڈیا ہے جو صرف لفافہ کے حصول کے لئے ملکی سلامتی سے کھلواڑ کرنا بھی اپنا فرائض منصبی سمجھتا ہے یہ چار ایسے بڑے مسائل ہیں جن کی وجہ سے ملک عدم استحکام سے دوچار ہے۔

جس ملک کے نظام کے سامنے یہ خود ساختہ نظام سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہوں وہاں معاشرہ مسائل کی آماج گاہ بن کر دہشت و وحشت کی علامت بن جاتا ہے۔ اسد اللہ غالب کی قلمی جدوجہد قاری کے لئے بڑی حوصلہ افزا ہے وہ اپنی قلم سے معاشرے میں ایک ایسی کھیپ تیار کرنے کی سعی کر رہے ہیں جو اپنے مسائل کے حل کے لئے فکر مند ہوں۔ گورنر ہاؤس کے دربار ہال میں کالم نویس اسد اللہ غالب کی کتاب ”ایک پیج پر “ کی تقریب پذیرائی میں تقریب میں راقم سمیت دانشوروں کی اس محفل میں سابق آئی جی پنجاب پولیس الطاف قمر بھی شریک تھے۔

اسد اللہ غالب کی کتاب ’ایک پیج پر ‘ کی تقریب پذیرائی کے دوران گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور ’لیفٹیننٹ جنرل (ر) غلام مصطفی‘ افتخار سندھو اور سینئر صحافی ’کالم نویس مجیب الرحمن شامی نے ملک کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر سیاست اور ریاست کے کردار اور ملک کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں ممکنہ درپیش خطرات اور چیلنجز پر مفصل اظہار خیال کیا۔ یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ ریاست اور سیاست ”ایک پیج پر “ ہیں رابطوں میں فقدان نہیں ریاست اور سیاست میں ایسا کوئی فاصلہ نظر نہیں آ رہا جس سے صاحب کتاب اسد اللہ غالب کی کتاب نفی کر رہی ہو یہ کتاب ملک سے محبت کرنے والوں کے لئے اپنے اوراق کے در وا کیے ہوئے ہے کتاب لائق مطالعہ اور صاحب کتاب مبارکباد اور تحسین کے حقدار ہیں۔

المیہ ہے کہ ہمارے ہاں کتاب بینی اور کتاب خرید کر پڑھنے کا رواج نہیں ہے والدین اپنے بیٹے کے لئے بیٹ‘ بال ’گٹار اور بیٹی کے لئے گڑیا یا میچنگ ڈریس خریدیں گے اسے اچھے ہوٹل لے جائیں گے لیکن مجال اسے ایک بار کسی کتاب گھر یا لائبریری لے کر جائیں قوموں کے عروج و زوال میں کتاب کے مطالعہ کو کلیدی اہمیت حاصل رہی ہے۔ اس سلسلے میں آخری لیکن اہم گزارش ہے کہ اساتذہ اور پروفیسر صاحبان اپنے طالب علموں کو لکیر کا فقیر نہ بنائیں مطالعے کی اہمیت کو اجاگر کریں کورس کے علاوہ کتب بینی کی ترغیب دیں تاکہ نسل نو رٹا کی بجائے مختلف موضوعات پر بات کرنے اور اپنے اذہان کو کھولنے کی صلاحیت پیدا کر سکیں بصورت دیگر ہم ”نیوٹن بابا“ کو شرعی پردہ کروانے کی ترغیب دیتے رہیں گے اور مغرب ہم پر حکمرانی کرتا رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments