صدارتی نظام کی دستک


کئی دنوں سے افواہیں گردش میں ہیں کہ ملک میں صدارتی نظام آ رہا ہے جب سے عمران خان نے حکومت سنبھالی اس کے کچھ ماہ بعد ہی شور اٹھا تھا مگر پھر یہ افواہیں آہستہ آہستہ دم توڑ گئیں تھیں اب جبکہ اس حکومت کو تقریباً چار سال ہونے کو ہیں تو ایک دفعہ پھر سوشل میڈیا پر خبریں گردش کرنے لگیں کہ ملک میں صدارتی نظام کی تیاری ہو رہی ہے فریم ورک تیار ہو گیا ہے جلد ہی اس پر عملدرآمد شروع ہو جائے گا۔

پاکستان میں تقریباً پچھلے پینتیس سال سے دو پارٹیوں کی حکومت کا سلسلہ جاری رہا اور لوگوں میں بھی یہ تاثر بڑھنے لگا کہ ملک میں صرف دو پارٹیاں ہی ایسی ہیں جو حکومت کر سکتیں ہیں اور وہ ہیں مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلز پارٹی، اور یہی گزشتہ تین دہائیوں سے حکومت میں تھیں۔

تحریک انصاف 2013 میں ایک بڑی جماعت کے طور پر ابھر کر آئی اور پھر 2018 کے الیکشن میں تحریک انصاف سادہ اکثریت لے کے حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی حکومت سنبھالنے کے ساتھ ہی اپوزیشن جماعتوں نے شور مچانا شروع کر دیا حکومت ناکام ہو گئی اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے موجودہ حکومت کو بالکل ٹک کر حکومت کرنے کا موقع نہیں دیا گیا اور شاید اس دور حکومت میں یہی کچھ ہوتا رہے حالانکہ ملک اس طرح کے طرز عمل کا بالکل متحمل نہیں ہے۔

قارئین کرام اب کچھ دنوں سے اٹھنے والا یہ شور ٹی وی ٹاک شوز کی زینت بنا جار رہا اور اب تو اپوزیشن بھی اس معاملے میں کافی مضطرب نظر آتی ہے جس سے یہ احساس ہونے لگا ہے دال میں کچھ کالا ضرور ہے اور اب اپوزیشن اس امر کے خلاف باقاعدہ کمر بستہ نظر آتی ہے ابھی کچھ ہی دیر پہلے احسن اقبال صاحب اسمبلی میں کافی گرج برس رہے تھے اور صدارتی نظام کے خلاف کافی بیان بازی اور دلائل دے رہے تھے۔

پاکستان میں صدارتی نظام جنرل ایوب خاں لے کر آئے تھے اور اس دور کی ترقی کے ساتھ اس کے بعد میں آنے والے کوئی دور بھی اب تک مقابلہ نہیں کر سکے اب تو پاکستان کے سینیئر صحافی بھی کافی سنجیدہ نظر آرہے ہیں اور باقاعدہ پروگرام کر رہے ہیں پاکستان کا موجودہ آئین 1973 میں بنا جس میں اب تک بائیس یا اس سے زائد ترامیم ہو چکی ہیں جس کا صاف مطلب ہے کہ پارٹیوں نے اپنے مفاد ہا ملکی مفاد میں کافی ترامیم کیں دوسرے لفظوں میں یہ آئین فرسودہ دستاویز بن چکا ہے۔ مگر عوام کو اس سے کوئی ریلیف نہیں ملا، آئے روز مہنگائی کا طوفان اٹھتا رہتا ہے اور عوام اس کی زد میں ہیں۔ اب ایسا کیوں ہے۔

جنرل پرویز مشرف صاحب کے دور میں غالباً بیرونی قرضہ جات 8 بلین ڈالر تھے جو اب تقریباً 111 بلین ڈالر ہے پاکستان کا اکٹھا ہونے والے ریونیو کا 85 فیصد اس لئے گئے قرضے کی قسطوں اور سود میں نکل جاتا ہے اور ملک کی اکانومی اپنے ریونیو کے 15 فیصد پر کھڑی ہے اب خود حساب لگائیں ہمیں اس پارلیمانی نظام نے سوائے قرضوں کے دیا ہی کا ہے ملک کو کھڑا کرنے کے لیے اس وقت نیا آئین اور طرز حکومت کی اشد ضرورت ہے اگر ملک اس نظام سے استحکام حاصل کر سکتا ہے تو ضرور ہونا چاہیے اور اس طرح شاید بیرونی قرضوں سے بھی جان چھوٹ جائے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments