دعوے، کرچیاں اور غریب کے ننگے پاؤں


یہ حقیقت دل شکن ہے، کہ اس دور پر فتن کو ، بلند بانگ دعووں، مشترکات کو تنازعات میں بدلنے اور مقدسات کی بے توقیری کے لیے یاد رکھا جائے گا۔ سب سے پہلے مشترکات کی طرف آتے ہیں۔ ہمارے ہینڈسم کو مشترکات کو تنازعات میں بدلنے میں ید طولا حاصل ہے۔ سب سے پہلے وہ خود ایک قومی ہیرو تھے۔ بیس سال کرکٹ میں قوم کی نمائندگی کر چکے تھے۔ شوکت خانم کینسر ہسپتال بنا چکے تھے۔ نمل یونیورسٹی بنا چکے تھے۔ پھر سیاست میں کود گئے۔ اور پھر چشم فلک نے وہ دن بھی دیکھا جب حصول اقتدار کے لیے اس مشترکہ قومی ہیرو نے اصول، انصاف، اخلاقیات اور قانون سب کو بالائے طاق رکھ کر ، طاقت وروں کے آگے اپنا ہیرو ازم اور قوم کے مستقبل دونوں کو قربان کر دیا۔ اور اب ”بڑے بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے“ کے مصداق چل چلاؤ ہے۔

جاوید میاں داد کو سارا ملک یکساں طور پر پیار کرتا تھا قومی ہیرو تھے۔ لیکن پھر قوم نے دیکھا کہ وہی قومی ہیرو، کسی اور کے حصول اقتدار کے لئے کسی بابا جی سے تعویذ لا رہے ہیں۔ اقتدار، جمہوریت میں اپنے محاسن کے بل پر خالصتاً ایک سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں ملنے والی امانت کو کہتے ہیں۔ اس کے لیے تعویذ، گنڈے چہ دارد۔ بہت بلندی سے بہت پستی میں اترے۔ اور پھر ان کا پشیمان ہونا بھی پوری قوم نے دیکھا۔ ”کی میرے قتل پہ پھر اس نے جفا سے توبہ۔ ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا“

ابرار الحق نے بیس سال تک، قوم کی خدمت کی، نارووال میں ایک خیراتی ہسپتال بنایا۔ مشترکہ قومی ثقافتی نمائندے تھے۔ بہت پیار سمیٹا پھر صرف تحریک انصاف کا اثاثہ رہ گئے۔

لالہ عطا اللہ عیسی خیلوی نے کم و بیش پچاس سال تک پاکستانی قوم کی خدمت کی۔ پنجاب اور پاکستان کے لاڈلے تھے۔ بلا تفریق لوگ پیار کرتے تھے۔ اور پھر خان صاحب کی جنبش ابرو پا کر صرف تحریک انصاف کو پیارے ہو گئے۔

وسیم اکرم، رمیز حسن راجہ اور شعیب اختر قومی ہیروز تھے۔ لیکن ان کو بھی ہینڈسم نے اپنے ذاتی مقاصد کے لیے خوب استعمال کیا۔ اور انہوں نے بھی مقدور بھر پشیمانی اور پچھتاوا سمیٹا۔ ان کے تائب ہونے کی خبر کا ہنوز انتظار ہے۔ ایک قومی ہیرو کو کسی بھی انسان کے ذاتی مقاصد میں آلہ کار بننا، مشترکہ سے متنازعہ کا سفر ہے۔ بلندی سے پستی کا سفر ہے، اور کسی قومی ہیرو کو زیب ہی نہیں دیتا۔

اب آتے ہیں مقدسات اور بلند بانگ دعووں کی طرف۔ ریاست مدینہ، ساری دنیا کے کمزور، محکوم، محروم اور مظلوم طبقات کی امید ہے۔ لیکن پاکستان کے عوام میں اس نعرے کو اپنی سیاست اور ذاتی مقاصد کے لئے استعمال کیا گیا۔ ریاست مدینہ کے والی ساڑھے تین سو کنال کے محل میں نہیں ایک کچے کمرے کے مکان میں رہتے تھے۔ ریاست مدینہ میں شیخ رشیدوں، حسن نثاروں اور ثاقب نثار جیسے آئین شکنوں کی پرورش اور حوصلہ افزائی نہیں ہوتی تھی۔

ریاست مدینہ میں اربوں اور کھربوں کی بدعنوانیوں کی داستانیں نہیں تھیں۔ ریاست مدینہ میں بدترین معاشی استحصال اور پگھلاؤ کے باوجود سب خیر ہے کا نعرہ مستانہ بلند نہیں ہوتا تھا۔ ریاست مدینہ میں طاقتور اور کمزور کے لئے الگ قانون نہیں تھا۔ والی ریاست مدینہ نے آمروں اور آمریت کی رسہ گیری نہیں سکھائی تھی۔ ریاست مدینہ میں مخالفوں کو کچلنے کا نہیں بلکہ معاف کرنے کا رویہ تھا۔ فتح مکہ کے روز رسول اللہ ﷺ نے اپنے بدترین دشمن کو بھی معاف کر دیا۔

اب آتے ہیں کارکردگی کی طرف۔ عمران خان صاحب کے ساڑھے تین سال بدترین معاشی استحصال کا دور ہے۔ معیشت سکڑ چکی ہے۔ پاکستانی روپیہ اپنی قدر روزبروز کھو رہا ہے۔ ایک امریکی ڈالر 180 روپے کا ہو چکا ہے۔ ادویات کی قیمتوں میں 500 فیصد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ بجلی کا ایک یونٹ 8 روپے سے 42 روپے فی یونٹ تک پہنچ چکا ہے۔ پٹرول اور گیس کی قیمتیں بالترتیب 150 روپے لیٹر اور 200 روپے کلو ہیں۔ آٹا 80 روپے کلو، اور چینی سو روپے کلو بک رہی ہے۔ ریاست مدینہ کے دعویداروں نے عالمی مالیاتی ادارے سے صرف ایک ارب ڈالر لینے کے لیے ناک سے لکیریں کھینچ دیں۔

ریاست مدینہ کے دعویداروں کے دور حکومت میں ملک کی ایک بیٹی کی عصمت اس کے معصوم بچوں کے سامنے قومی شاہراہ پر تار تار کردی جاتی ہے اور قانون کے رکھوالے نے فرمایا، رات کے وقت اکیلے گھر سے نہیں نکلنا چاہیے تھا غلطی اسی بچی کی ہے۔ قانون کے محافظ، ساہیوال میں قومی شاہراہ پر ایک پاکستانی کو اس کے بچوں سمیت گولیوں سے بھون دیتے ہیں اور ریاست مدینہ کے دعویداروں کے جوں تک نہیں رینگتی۔ مری میں تفریح کے لیے نکلنے والے پاکستانی فیملیز، لاوارثوں کی طرح سڑکوں پر تڑپ تڑپ کر اپنی جانیں گنواتے رہے اور ریاست کے جوں تک نہ رینگی۔ آٹا، چینی، ادویات، پٹرولیم اور گیس کی مد میں سرمایہ دار طبقات غریب عوام کا خون نچوڑتے رہے۔ غربت، بے روزگاری، اور مہنگائی سے تنگ آئے غریب عوام بچے بیچتے رہے اور خودکشیاں کرتے رہے اور نیرو چین کی بانسری بجاتا رہا۔

محمد سجاد آہیر xxx

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد سجاد آہیر xxx

محمد سجاد آ ہیر تعلیم، تدریس اور تحقیق کے شعبے سے ہیں۔ سوچنے، اور سوال کرنے کا عارضہ لاحق ہے۔ بیماری پرانی مرض لاعلاج اور پرہیز سے بیزاری ہے۔ غلام قوموں کی آزادیوں کے خواب دیکھتے اور دکھاتے ہیں۔

muhammad-sajjad-aheer has 38 posts and counting.See all posts by muhammad-sajjad-aheer

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments