کورونا وائرس کی ویکسین، انسانیت کی بڑی لیکن نامکمل چھلانگ


بیس جولائی 1969 ایک تاریخی دن تھا۔ اس دن انسان نے چاند پر پہلا قدم رکھا۔ اور یہ قدم رکھنے والے خلاباز نیل آرمسٹرانگ کا جملہ ”یہ ایک شخص کا چھوٹا سا قدم ہے، لیکن انسانیت کی ایک بڑی چھلانگ“ بعد میں ایک تاریخی فقرہ بن گیا۔ آٹھ دسمبر 2020 کو دنیا بھر میں کورونا ویکسین کا پہلا باقاعدہ ٹیکہ لگوانے والی اکانوے سالہ مارگریٹ نے یہ ٹیکہ لگواتے ہوئے کوئی تاریخی جملہ تو نہیں کہا، لیکن ان کا یہ قدم یقیناً چاند پر جانے سے زیادہ بڑی چھلانگ ثابت ہوا۔ ان کی وجہ سے ان کے بعد ویکسین لگوانے والے بغیر کسی خوف کے یہ ویکسین لگوانے میں کامیاب رہے۔ آج ایسے لوگوں کی تعداد ساڑھے چار ارب سے زیادہ ہے۔

کورونا وائرس کی ویکسین انسانی تاریخ میں رقم ہونے والی ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔ اس ویکسین پر کام وائرس کے پھیلاؤ کے صرف چار ماہ بعد ہی شروع ہو چکا تھا، اسی برس یعنی 2020 کے اختتام سے پہلے اپنے ٹرائلز کو کامیابی سے پورا کر کے یہ ویکسین عالمی آبادی کو کورونا سے بچانے کے لئے تیار تھی۔ اگلے برس یعنی 2021 کے اختتام تک دنیا کی دو تہائی آبادی کو ویکسین مل چکی تھی۔ پبلک ہیلتھ کے معاملوں میں انسان اتنا سریع الحرکت پہلے کبھی نہیں رہا۔ لیکن کیا ہمیں اس نعمت کا احساس ہے؟

انسان کی ایک فطری کمزوری ہے کہ اسے کسی بات کو جانچنے کے لئے تقابل چاہیے۔ امیر ہونے کا احساس تبھی ہو گا جب کسی غریب کو دیکھیں گے، گاڑی چلاتے ہوئے اس کی تیز یا سست رفتار کا اندازہ دوسری گاڑیوں سے مقابلہ کر نے پر ہوتا ہے۔ اگر یہ تقابل میسر نہ ہو تو کسی نعمت کے موجود ہونے کے باوجود اس کا احساس نہیں ہو پاتا۔ کووڈ کی ویکسین بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ آئیے، اس کا مقابلہ کورونا وبا کے دوران ہی کیے جانے والے ایک اور کام سے کریں۔ دونوں ہاتھوں کو بار بار دھونے کا کام، جس پر ایمان ہمیں پل بھر میں نہیں آ گیا۔ ڈاکٹر جوزف لسٹر کو اس کی افادیت ثابت کرنے میں تقریباً بیس سال لگے۔ یہ 1860 کی بات ہے۔

Joseph Lister

سکاٹ لینڈ سے تعلق رکھنے والے جوزف لسٹر کا تقریباً وہی زمانہ ہے جب فرانس میں لوئی پاسچر اس خیال کو حقیقت ثابت کرنے میں مصروف تھا کہ بیماریاں گندی ہوا سے نہیں بلکہ جراثیم سے پیدا ہوتی ہیں۔ لسٹر کی دھن پاسچر سے ایک قدم آگے تھی، یعنی جراثیم کو بیماری کرنے سے روکا کیسے جا سکتا ہے۔ اس کا مشاہدہ تھا کہ حادثات کا شکار بہت سے لوگ جب بازو یا ٹانگ تڑوانے کے بعد ہسپتال آتے ہیں تو ان کے زخم اتنے خراب نہیں ہوتے جتنے کہ ہسپتال میں آ کر ہو جاتے ہیں۔ حادثات کا شکار لوگوں کے بازو یا ٹانگیں حفظ ما تقدم کے طور پر پہلے ہی کاٹ دی جاتیں اگر چہ اس کے باوجود بہت سے اپنی جان کی بازی ہار جاتے۔

جوزف لسٹر نے دیکھ رکھا تھا کہ متعفن سیوریج کے پانی پر کاربولک ایسڈ ڈالا جائے تو اس کی بدبو ختم ہو جاتی ہے۔ اس کا خیال تھا کہ یہ بدبو پانی میں موجود جراثیم کی وجہ سے ہوتی ہے اور کاربولک ایسڈ ان جراثیم کو مار دیتا ہے جس سے بدبو بھی ختم ہو جاتی ہے۔ اس کی تھیوری یہ تھی کہ ہسپتال میں زخموں کو خراب کرنے والے جراثیم بھی کاربولک ایسڈ سے ہلاک کیے جا سکتے اور بہت سے لوگوں کے بازو اور ٹانگیں کٹنے سے بچائی جا سکتی ہیں۔ اپنے آپریشن تھیٹر میں اس نے کاربولک ایسڈ کا استعمال شروع کیا۔ ابتدائی سولہ مریضوں میں سے ایک کی بھی موت واقع نہیں ہوئی، نہ ہی کسی کا بازو یا ٹانگ کاٹنے کی نوبت آئی۔

بہت سے مریضوں کی جان اور ان کے اعضا کو بچا لینے کے باوجود اپنی دریافت کو عام کروانے میں لسٹر کو بہت وقت لگا۔ سب سے زیادہ مخالفت اس کے ہم عصروں نے کی۔ امریکی اور برطانوی ڈاکٹر اس گھمنڈ میں تھے کہ بڑی ایجادات تو ان کے ملک میں ہوتی ہیں، سکاٹ لینڈ جیسے چھوٹے ملک سے آنے والی کوئی بات قابل توجہ کیسے ہو سکتی ہے؟ ساتھی سرجنوں کا کہنا تھا کہ سرجری میں خون بہت جلدی بہہ کر مریض کی موت کا سبب بن جاتا ہے ایسے میں یہ صفائی ستھرائی کے چونچلے محض وقت ضائع کریں گے۔

جبکہ اموات کی زیادہ شرح دیکھ دیکھ کر کچھ ڈاکٹروں کا یہ خیال بن چکا تھا کہ مریض نے تو بالآخر مرنا ہے، لہذا کوئی بھی کوشش فضول ہے۔ جوزف لسٹر لیکن، اپنی دھن میں مگن رہا۔ اس کے کام کا صحیح اعتراف اس کی وفات کے بعد کیا گیا۔ ہسپتال سے لگنے والے جراثیم کا نام ”لسٹیریا“ رکھا گیا۔ امریکی اور برطانوی ڈاکٹر بھی آج یہی نام استعمال کرتے ہیں۔ جراثیم کش دوا ”لسٹرین“ بھی اسی کے نام پر ہے۔

لسٹر کا زمانہ کوئی ڈیڑھ صدی پہلے کا تھا۔ ہر نئی بات پر شک کرنا مقابلتاً عام تھا۔ آج کے دور میں ایسی دقیانوسی سوچ کی توقع کم ہے اگر چہ حیران کن طور پر امریکہ جیسے ملک میں جسے ترقی کا علمبردار کہا جاتا ہے، ویکسین لگوانے سے انکار کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ نتیجتاً اموات کی تعداد بھی زیادہ ہے اور روزانہ تین ہزار کے قریب مرنے والوں میں سے زیادہ تر وہ ہوتے ہیں جنہوں نے ویکسین نہیں لگوائی۔ افلاطون نے کہا تھا کہ ایسے لوگ جن کی تمام زندگی ایک اندھیرے غار میں گزری ہو، ان میں سے کسی ایک کو باہر کی دنیا میں جانے کا موقع مل جائے اور وہ واپس آ کر غار والوں کو بتائے کہ روشنی کیا ہوتی ہے تو لوگ اس کی بات پر بالکل یقین نہیں کریں گے بلکہ موقع ملے تو شاید مار ہی ڈالیں گے۔ ویکسین سے انکار کرنے اور اپنے آپ کو موت کے منہ میں ڈالنے والوں کو دیکھ کر یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ غار ہمارے ذہن بھی ہو سکتے ہیں اور اندھیرا سوچ کا بھی ہو سکتا ہے۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ ویکسین انتہائی تیز رفتاری سے بنا کر تاریخ تو انسان نے رقم کر دی۔ لیکن دنیا کی ایک تہائی آبادی کو ابھی تک اس ویکسین کی پہلی خوراک بھی نہیں پہنچی۔ تقریباً آٹھ ارب انسانوں پر مشتمل اس دنیا میں جہاں روزانہ پچھتر ہزار جہاز فضا میں اڑتے اور ساٹھ لاکھ لوگ ہوائی سفر کر کے ایک سے دوسری جگہ جاتے ہیں، وائرس کی ایک سے دوسری جگہ منتقلی کا امکان موجود رہے گا۔ تاریخی کامیابی کو مکمل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ کہ وہ تمام لوگ جو غریب ممالک میں ویکسین لگوانے کا انتظار کر رہے ہیں، امیر حکومتیں انہیں ویکسین فراہم کرنے کا بندوبست کریں۔ جب تک یہ مرحلہ طے نہیں ہوتا، انسانیت کی یہ بڑی چھلانگ حقیقتاً ادھوری رہے گی۔

ڈاکٹر زعیم الحق

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر زعیم الحق

ڈاکٹر زعیم الحق ایک میڈیکل ڈاکٹر ہیں اور اپنے شعبہ کے تکنیکی امور کے ساتھ ان انفرادی و اجتماعی عوامل پر بھی نظر رکھتے ہیں جو ہماری صحت یا بیماری کا باعث بنتے ہیں۔

dr-zaeem-ul-haq has 15 posts and counting.See all posts by dr-zaeem-ul-haq

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments