کشمیر: قومی قیادت کی ناکامی


5فروری سنہ2022 ہر سال کی طرح کشمیر سے یکجہتی کا دن منایا جا رہا ہے، عوام کے لیے ایک چھٹی کا دن اگرچہ سرکاری سطح پر شاید چند تقریبات بھی ہوں جن میں وہی گھسی پٹی تقاریر ہوں گی، چائے پانی ہو گا اور اللہ اللہ خیر صلہ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ نام نہاد آزادی کے پچھہتر سال بعد بھی برصغیر ان فیصلوں کا خراج ادا کر رہا ہے جو انگریز راج نے جاتے جاتے اس پر تھوپ دیے۔ کشمیر جس کو بھارت اٹوٹ اننگ اور پاکستان اپنی شہ رگ سمجھتا ہے، آج بھی ایک ایسے زخم کی طرح ہے جو وقتاً فوقتاً رسنا شروع ہو جاتا ہے اور درد کی ٹیسیں سرحد کے دونوں طرف رہنے والوں کے رگ و پیہ میں پھیل جاتی ہیں۔

اس عرصے میں دنیا بدل گئی، انسان چاند پر پہنچ گیا لیکن سرحد کے دونوں اطراف رہنے والے کشمیری اپنے پیاروں سے ملنے کے لیے یا تو بل مقابل پہاڑیوں پر دوربینوں سے ایک دوسرے کو دیکھ کر اپنی پیاس بجھا سکتے ہیں اور اگر خرچ برداشت کر سکتے ہیں تو ویزہ کے تکلیف دہ مراحل میں سے گزر کر، ایک طویل فاصلہ طے کر کے پہاڑی کی دوسری طرف ( جو بصورت دیگر صرف چند میل دور تھی) اپنوں کو مل سکتے ہیں اور یہ عمل عموماً دونوں طرف کی حکومتوں کے اس وقت کے باہمی تعلقات کی نوعیت پر منحصر ہوتا ہے۔

اس دوران آزادی کے وقت والی نسل رخصت ہو چکی، بچے جوان ہو کر بڑھاپے میں داخل ہو گئے اور تیسری نسل اس خراج کو ادا کر رہی ہے۔ دونوں ممالک میں تین بڑی جنگیں تو ہو ہی چکیں لیکن سرحدی جھڑپیں تو جیسے قسمت میں لکھی گئی ہیں، کہ پوری سرحد جیسے خاردار تار اور بارودی سرنگوں سے اٹلی پڑی ہے اور دونوں طرف کے فوجی جیسے کسی خزانے کی حفاظت کر رہئے ہوں۔ ان سرحدی جھڑپوں میں کبھی کبھار اتنی تیزی آ جاتی ہے کہ لگتا ہے کہ جنگ چھڑی کہ اب چھڑی، فروری 2019 میں دونوں فریق بغیر آنکھیں جھپکے باہمی مکمل تباہی کی اندھی گلی میں داخل ہوا ہی چاہتے تھے کہ دوسروں نے بیچ میں پڑ کر معاملہ وقتی طور پر ٹھنڈا کر دیا۔

ان چوہتر سالوں میں جہاں جنگیں ہوئیں، وہیں پر بات چیت کے ادوار بھی چلتے رہے، ٹریک 2 کے تحت بند کمروں میں دونوں طرف کے بڑے کچھ نہ کچھ کھچڑی بھی پکاتے رہے، ثقافتی وفود کا تبادلہ اور شاعر اور ادیب بھی ایک دوسرے کے ہاں آتے جاتے رہے لیکن دونوں ممالک کے عام شہری بالخصوص 1947 کے مہاجرین اس عرصے میں آمدورفت کی ان سہولتوں سے اس طرح فیضیاب نہ ہو سکے جو کہ ان کا حق تھا۔ آج بھی کسی پاکستانی کے لئے ہندوستانی ویزے کا حصول، چاہے وہ کسی اور ملک ہی میں رہتا ہو، ایک ایسا تکلیف دہ عمل ہے جس کی مثال موجودہ دور میں ترقی یافتہ ہمسایہ ممالک میں ملنا نا ممکن ہے۔ یہی صورت حال ہندوستانی شہریوں کے ساتھ ہے۔

اسی دوران دونوں ممالک کی سوسائٹیز میں بھی بہت گہری تبدیلیاں آ چکی ہیں، کہاں پہلے 40 سال تک کانگریس کی سیکولر پالیسیوں پر مبنی حکومتیں جن کی جگہ اب دائیں بازو کی بھارتیہ جنتا پارٹی ( بی جے پی) لے چکی ہے جس نے قوم پرستی کے نعرے پر اب مذہبی رنگ چڑھا دیا ہے۔ اسی طرح پاکستان میں اپنی پہچان کو مذہبی بنیادوں پر استوار کر کے سیاسی پارٹیوں نے اب ہر مسئلہ ٔ کو مذہبی عینک سے دیکھنا شروع کر دیا ہے اور کسی بھی فیصلے کو اسلام کی فتح و شکست سے منسلک کر دیا ہے۔

اسی دوران وقتاً فوقتاً مختلف اداروں، یا تنظیموں کے تحت کشمیر پر مذاکروں یا پینل مباحث کا اہتمام ہوتا رہتا ہے جن میں نہ صرف دونوں اطراف کے سرکردہ سیاسی اور سماجی سطح کے رہنما بلکہ سابقہ حکومتی عہدیدار شرکت کرتے رہتے ہیں۔ یہ کوششیں سرحد کے دونوں اطراف عام شہریوں کی امن اور بھائی چارے سے رہنے کی خواہشات کی عکاسی کرتی ہیں۔ ایسی ہی سیمینار 23 مئی 2021 کو برطانیہ میں دوستوں کی ایک تنظیم Neem tree ”نیم ٹری“ کے زیرانتظام ہوا جو موجودہ عالمی وبا کی بنا پر زوم کے پلیٹ فارم پر منعقد ہوا۔

اس سیمینار کا عنوان ”کشمیر میرا ہے“ تھا۔ اس سیمینار کی بڑی خوبی اس کے شرکا متنوع پس منظر تھا، جس میں ہندوستان اور پاکستان کی سرکردہ شخصیات کے علاوہ کشمیری نمائندگی بہت جاندار تھی۔ شرکا نے پہلے تو تاریخ کا سبق پڑھایا اور جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں، تاریخ ایک ایسا موضوع ہے جو ہر کوئی اپنی اپنی عینک لگا کر پڑھتا ہے۔ یہاں بھی یہی ہوا۔ اپنے اپنے نقطہ نظر سے دلائل دیے گئے اور بغیر کسی متفقہ رائے کے میٹنگ ختم ہو گئی، اگرچہ سب اس بات پر متفق تھے کہ بات چیت جاری رہنا چاہیے۔

میں سوچتا رہا کہ بظاہر آزادی کے چوہتر سال گزرنے کے بعد بھی دونوں ممالک کی قیادت ابھی تک اس مسئلہ ٔ کو حل نہ کر سکی تو فائدہ کس کا ہے؟ ہمیں اس دلدل میں کس نے دھکیل دیا کہ ہمارے وسائل کا ایک بڑا حصہ اس مسئلہ کو قائم و دائم رکھنے پر خرچ ہو رہا ہے۔ میں سوچنے لگا کہ دنیا میں کیا اس طرح کے مسائل اور جگہوں پر بھی ہیں اور دوسرے ممالک نے ان سے کیسے نبٹا؟

ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ دنیا کا موجودہ جغرافیائی نقشہ یورپی سامراجی ریاستوں کا تیار کردہ ہے جس کہ نتیجے میں مختلف علاقائی جھگڑے چل رہے ہیں۔ میں یہاں چند مثالیں گوش گزار کروں گا کہ کیسے دوسرے ممالک نے ان مسائل سے نبٹنے کی کوشش کی ہے۔ میں اس حقیقت سی کما حقہ آگاہ ہوں کہ ہر علاقائی جھگڑا اپنی نوعیت میں انوکھا ہوتا ہے اور ان کے اجزاء ترکیبی مختلف ہو سکتے ہیں۔

سب سے پہلے تو ترقی یافتہ اقوام کے درمیان باہمی جھگڑے نمٹانے کا مطالعہ کرتے ہیں۔ ایک مثال جبرالٹر کی ہے جو کہ جغرافیائی سطح پر سپین کا ہی حصہ ہے اور ایک چونچ کی طرح سمندر میں نکلا ہوا ہے اور صرف ساڑھے چھ مربع کلومیٹر کے رقبے اور اندازہ تینتیس ہزار کی آبادی کے ساتھ آج بھی برطانیہ کے زیرانتظام ہے اور یہ انتظام پچھلے تین سو سال سے زیادہ عرصے سے ہے، اس دوران دو عالمی جنگیں بھی ہوئیں، کبھی کبھار دونوں ممالک کے تعلقات میں تناؤ کی کیفیت بھی آ جاتی ہے اور 2016 کے برطانوی ریفرنڈم میں تو یہاں کی اکثریت نے یورپین یونین کے حق میں ووٹ دیا تھا، لیکن دونوں ممالک کی سرحدیں کھلی رہیں، شہری سرحد کے آر پار آ جا سکتے ہیں اور روزمرہ کی زندگی سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ کیا اس خطے میں فرشتوں کے حکومت ہے؟ حالانکہ وہ بھی دونوں اطراف خاردار تاریں، بارودی سرنگیں بچھا کر اور اپنی اپنی فوجوں کی مورچہ بندی کر کے اپنے اپنے دعوے کے مطابق عوام کو محفوظ رکھ سکتے تھے۔

آئیے دوسری مثال دیکھتے ہیں جو اپنے خطے کے قریب تر ہے، یعنی چین اور اس کے ملحقہ جزائر پر دعوے۔ ہمیں معلوم ہے کہ کس طرح چین نے اپنے دو جزائر ہانگ کانگ اور میکاؤ پر برطانوی اور پرتگیزی قبضہ بالترتیب 1997 اور 1999 میں مذاکرات کے ذریعے ختم کیا۔ یہاں ان مذاکرات کی تفصیل تو نہیں دی جا سکتی اور یہ کہ دونوں جزائر میں انتظامات کی تفصیل وہاں کے معروضی حالات کو مد نظر رکھ کر کی گئی۔ کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ ان دونوں جزائر کے لوگوں کا معیار زندگی پہلے سے کم ہو گیا ہے؟

اور دور کیوں جائیں، تائیوان کے سلسلے میں جنگ سے پرہیز اور تجارت کے تسلسل کی پالیسی میں کیا ہندوستان اور پاکستان کے لیے کوئی سبق ہے۔ اور بہت سی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ ایک اور مثال، اندورہ (Principality of Andorra) جو کہ ہمارے کشمیر ہی طرح دو ہمسایوں کے درمیان جغرافیائی سرحدوں کے آر پار ہے، یہ چھوٹا سا ملک اسپین اور فرانس کے درمیان صرف 468 مربع کلومیٹر کے رقبے اور تقریباً 77 ہزار کی آبادی کے ساتھ دنیا کے چھوٹے ترین ممالک کی فہرست میان سولہویں نمبر پر ہے۔

کیا آپ کو معلوم ہے کہ اسپین اور فرانس نے صدیوں کی باہمی سرحدی چپقلش کو ایک نئے انداز سے حل کر لیا یعنی جہاں مقامی آبادی اپنے نمائندوں کے ذریعے روز مرہ کی زندگی کے مسائل اور ان کے حل کے لیے ضروری اقدامات کرنے میں آزاد ہے وہیں اس کے سیاسی نظام میں فرانسیسی صدر اور بشپ آف یرگل (Bisop of Urgil of Spain) کے پاس آئینی بادشاہت کا عہدہ تو ہے لیکن قانونی طور پر وہ اس ملک کی پارلیمنٹ کے پاس کردہ قوانین پر دستخط کرنے کے پابند ہیں۔ یہ چھوٹا سا ملک اگرچہ یورپین یونین کا حصہ تو نہیں ہے لیکن اس کی کرنسی یورو (Euro) ہی ہے اور یہ1993 سے اقوام متحدہ کا رکن بھی بن چکا ہے۔ ہر سال ایک کروڑ سے زیادہ سیاح اس ملک میں سیر کے لیے آتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے سالانہ جاری کردہ ہیؤمن ڈیویلپمنٹ انڈیکس ( human development index) میں اس کی چھتیسویں پوزیشن ( 36 th) یہاں کے لوگوں کے معیار زندگی کی عکاسی کرتی ہے۔

آئیے اب اپنے اصل سوال کی طرف کہ دونوں ممالک کی موجودہ اور مروجہ پالیسی کا فائدہ کس کو ہو رہا ہے۔ پہلے دونوں ممالک پر نظر ڈالتے ہیں۔ مختلف ذرائع کی رپورٹوں کے مطابق کم از کم پانچ لاکھ سے زائد ہندوستانی فوج کے جوان کشمیر میں موجود ہیں، تمام سرحد خاردار تار، بارودی سرنگوں سے اٹی پڑی ہے۔ صرف 2020 ہی میں رپورٹوں کے مطابق 474 سے زیادہ افراد ہندوستانی کشمیر میں مارے گئے جن میں 65 عام شہری، 232 مشتبہ شدت پسند اور 172 فوجی شامل تھے، ( یہ اعداد شمار ”legal forum for oppressed voices of kashmir“ سے لئے گئے ہیں ) میں مانتا ہوں کہ ہمارے ہندوستانی دوست ان اعداد و شمار کو چیلنج کریں گے اور یہ ان کا حق ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایک انسان کی جان چاہے وہ عام شہری ہو، یا مشتبہ شدت پسند یہ فوجی، قیمتی نہیں، ؟

اور اس سلسلے میں استعمال ہونے وال وسائل جو کے انسانوں کی فلاحی بہبود پر خرچ ہو سکتے تھے اور یہی اصول سرحد کے دوسری طرف پاکستان پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ اور وسائل کا یہ مجرمانہ استحصال اس وقت اور بھی تکلیف دہ ہو جاتا ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ 2021 کے اقوام متحدہ کے جاری کردہ ( Human development index) میں جہاں اقوام عالم کی فہرست میں پاکستان 154 نمبر پر ہے تو ہندوستان 131 نمبر پر۔

کیا یہ ممکن ہے کہ 1947 سے لے کر آج تک کی دونوں ممالک کی قیادت ابھی بھی اس سامراجی کھیل کا حصہ بنی ہوئی ہے جس کے تحت دونوں ممالک کی ترقی اس جھگڑے کے ذریعے کمزور کر دی گئی ہے؟ کیا دونوں طرف کی قیادت ہی اب اس جھگڑے کو قائم و دائم رکھنے میں تو ایک فریق نہیں بن چکی ہے؟ اور نہ صرف دونوں اطراف کے عوام اپنی اپنی قیادت کی کم نظری اور کم ہمتی کے باجگزار بن چکے ہیں بلکہ اس ظالم پالیسی کے اصل شکار کشمیر کے لوگ ہیں جو اس بھنور سے نکلنے کی جدوجہد میں ایک چومکھی لڑائی میں پھنسائے جا چکے ہیں۔ موجودہ بندوبست کو قائم و دائم رکھنے کی اس پالیسی کا فائدہ تو اسلحہ ساز صنعت کاروں، ان کے وظیفہ خوار حکمران طبقے اور ان سب کے مربی وہ سامراجی قوتیں ہیں جو اس انسانی المیہ سے اپنے اپنے مقاصد حاصل کر رہی ہیں۔

برصغیر جو کبھی سونے کی چڑیا کہلاتا تھا اب خاردار تاروں کے حصار میں اسلحے کی ایک نہ ختم ہونے والی دوڑ کا حصہ بن چکا ہے جس کا شکار انسانی خوشی ہے۔ لیکن اس تکلیف دہ صورت حال میں عوام کی امن کی اجتماعی خواہش اتنی طاقت ور ہے کہ اس کو جتنا بھی دبا جائے یہ اتنی ہی شدت سے ابھرتی ہے، جہاں وہ قوتیں (حکمران اشرافیہ) جو قوم پرستی یا مذہب کی آڑ میں اس تنازعے کو جاری رکھے ہوئے ہیں، وہیں ہمیں یعنی عوام کو بھی اپنی جدوجہد جاری رکھنا ہو گی اور اپنے اپنے ملک میں حکمرانوں کو اس بات پر مجبور کرنا ہو گا کہ وہ اس جھگڑے کو صرف ایک علاقائی تنازع سمجھنا بند کر دیں۔ اگر دوسری اقوام اپنے مسائل کو باہمی بات چیت سے حل کر سکتی ہیں تو ہمارے ہاں ایسا کیوں ممکن نہیں؟

برصغیر کے عوام کب تک اپنی اپنی حکمران اشرافیہ کی دی ہوئی لولی پاپ کو چوستے رہیں گے؟ کب تک نام نہاد آزادی کے ثمرات سے کشمیر اور دونوں ممالک کے عوام حروف رکھے جائیں گے؟ لیکن ابھی تو آپ 5 فروری کی تقریبات اور چائے پانی پر ہی گزارہ کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments