ڈاکٹر لدمیلا ویسیلیوا: روس میں اردو زبان و ادب کی سفیر


24 ستمبر 2013 کا دن بھی کمال تھا۔ محترمہ لدمیلا ویسیلیوا گیارہ بجے آفس تشریف لائیں۔ انہوں نے چند روز پہلے آ نے کا ذکر تو کیا تھا مگر مجھے امید نہیں تھی کہ وہ اتنی گوناگوں مصروفیات سے وقت نکال سکیں گی۔ مگر انہیں عالمی اردو کانفرنس منعقدہ لاہور میں شرکت کے لیے ویزا درکار تھا۔ چنانچہ اسی بہانے ان سے یہ یادگار ملاقات ہوئی۔ یوں تو ان سے ملنا ہر بار حیرتوں کے نئے باب وا کر دیتا ہے لیکن اس روز کوئی الگ بات تھی۔ مجھے پہلی بار اس دردمندی کا شدت سے احساس ہوا جو وہ مسلمانوں اور پاکستانیوں سے رکھتی ہیں۔

’آداب عرض ہے‘ ماسکو میں یہ آواز سننا اچنبھے کی بات تھی۔ مجھے یہاں آئے ابھی ایک ہی دن ہوا تھا اور صدیوں کی اجنبیت نے مجھے اپنے نرغے میں لے لیا تھا۔ سفارت خانے کی ایک تقریب میں ایک معمر روسی خاتون کے لبوں سے انتہائی شستہ انداز میں ادا کیے گئے یہ الفاظ سنے تو دل باغ باغ ہو گیا۔ لیکن حیرتوں کے ابھی بیسیوں باب وا ہونے تھے۔

لدمیلا ویسلیوا ماسکو میں اردو کی وہ مشعل بردار ہیں جن کی شبانہ روز محنت اور لگن نے اردو زبان، ادب اور شاعری کو روس میں زندہ و تابندہ رکھا ہے۔ انہوں نے اردو میں مشاعرے کی تاریخ، زبان اردو پر دیگر ملکی و غیر ملکی زبانوں اور ادب کے اثرات، اردو زبان کے ارتقا اور بیسویں صدی کے اردو شعراء پر بیش قیمت اور زندہ رہنے والی تحریریں رقم کی ہیں۔ لیکن ان کا سب سے بڑا کام ان کی اردو اور روسی زبان میں کتاب ’فیضٓ‘ حیات و تخلیقات ’ہے۔” یہ کتاب اردو دنیا میں ان کے ایک خوبصورت تعارف کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ رواں سال کی جنوری (2013) میں اس کا ایک خوبصورت ایڈیشن آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے پاکستان سے شائع کیا جو دیکھتے ہی دیکھتے ناپید ہو گیا۔

یہ خوبصورت کتاب اردو ادب اور تاریخ پر محترمہ لدمیلا کی گہری نظر اور تحقیق کے شعبے پر ان کی مکمل گرفت کا ایک منہ بولتا ثبوت ہے۔ راقم کو اس کتاب کا معترف ہونے کے باوجود اس کی ایک چیز ہمیشہ کھٹکتی تھی مگر مصنفہ کی اعلیٰ علمی و ادبی حیثیت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے احتراماً کبھی اس کا تذکرہ نہیں کیا۔ لیکن 23 مارچ 2011 کو یوم پاکستان کے عشائیے میں ڈرتے ڈرتے ایک سوال کی صورت میں اس امر کا اشارتاً تذکرہ کیا گیا کہ فیضٓ کی تمام شاعری اور زندگی کا مکمل احاطہ کیے جانے کے باوجود ان کے قیام بیروت اور اس مدت کے دوران تحریر کی گئی شاعری کے بارے میں کتاب میں ایک لفظ بھی تحریر نہیں کیا گیا، اس کی وجہ کیا ہے؟ مادام انتہائی حیرت اور غور سے دیکھتے ہوئے مجھے ایک علیحدہ میز پر لے گئیں۔ مجھے شدت سے احساس ہوا کہ میں نے شاید غلط سوال کر دیا ہے۔ میری معذرت سے پہلے ہی مادام نے مجھے یہ کہہ کر ورطۂ حیرت میں ڈال دیا کہ۔ آپ کا شکریہ۔ یہ وہ سوال ہے جس کی میں 1997 میں کتاب کی پہلی بار اشاعت سے لے کر آج تک منتظر تھی

لگتا ہے آپ نے کتاب کو غور سے پڑھا ہے۔ ”میرے اوسان کچھ بحال ہوئے تو محترمہ لدمیلا ویسیلیوا نے بتایا کہ بیروت کی زندگی اور شاعری کے بارے میں ایک پورا باب لکھا گیا تھا۔ لیکن بوجوہ وہ کتاب میں شامل نہ کیا جا سکا۔ البتہ وہ یہ باب مجھے مطالعے کے لیے عنایت کر سکتی ہیں۔ ان کی عنایت سے مجھے یہ باب پڑھنے کا اتفاق ہوا ہے اور میرے سوال کا تشفی آمیز جواب مجھے مل گیا ہے۔ محترمہ کی فیض کے علاوہ محی الدین مخدوم اور علی سردار جعفری سے بھی یاد اللہ رہی ہے اور انہوں نے ان شعرا کے بارے میں بھی لکھا ہے۔

اردو دنیا کے اہم ترین اکابرین سے رسم و راہ نے لدمیلا ویسیلیوا کو اردو زباں و ادب اور اسے بولنے اور لکھنے والوں کے مسائل سے گہری آگہی بخشی ہے۔ جس کا برملا اظہار ان کی تحاریر و تقاریر میں ہوتا رہتا ہے۔ دنیا بھر میں اردو زبان و ادب پر منعقد ہونے والی تقاریب میں لدمیلا ویسیلیوا کو خصوصی طور پر مدعو کیا جاتا ہے۔ اور ان کی موجودگی کو کسی بھی تقریب کی کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا ہے۔ حکومت پاکستان نے ان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر انہیں اعلیٰ ادبی ایوارڈوں ’ستارہ امتیاز۔‘ اور ’نشان پاکستان‘ سے بھی نواز رکھا ہے۔

جس دن کا میں ذکر کر رہا ہوں، اس دن وہ تقریباً ً 9 سال بعد پاکستان جانے کے لئے ویزا لے رہی تھیں۔ اور اس بات پر بہت خوش اور جذباتی ہو رہی تھیں کہ اتنے سارے پاکستانی احباب سے ملاقات ہو گی۔ اور پھر نہ جانے کیسے آنجہانی حکیم سعید کا ذکر آ گیا۔ محترمہ ایک دم خاموش ہو گئیں اور پھر میں نے دیکھا کہ ان کی آنکھیں آنسوؤں سے لبریز ہو گئیں۔ ”آپ کو پتہ ہے وہ“ ۔ ان کی آواز ٹوٹنے لگی اور آنسو بہنے لگے۔ ”وہ مجھے اپنی روسی بیٹی کہتے تھے۔

میں جب بھی پاکستان جاتی کراچی میں ان کی رہائش گاہ پر قیام کرتی۔ ان کی تینوں بیٹیوں سے میری گہری دوستی ہے“ محترمہ نے آنسوؤں اور سسکیوں کے دوران اپنی بات جاری رکھی۔ ”یوں تو حکیم سعید ایک لاثانی شخصیت کے مالک تھے اور ایسی شخصیات کہیں صدیوں میں انسانی معاشروں کو نصیب ہوتی ہیں۔ آپ بہت خوش قسمت قوم ہیں کہ آپ کو حکیم صاحب جیسی شخصیت سے بھرپور استفادے کا موقع میسر آیا“

وہ ہماری خوش قسمتی کا ذکر کر رہی تھیں اور مجھے اپنی بدقسمتی پر رونا آ رہا تھا کہ ہم تا حال حکیم صاحب کے قاتلوں تک کا سراغ نہیں لگا سکے۔ لیکن یہ داستان الم تو بہت طویل ہے۔ اپنے پہلے وزیراعظم خان لیاقت علی خان سے لے کر بینظیر بھٹو شہید تک ہم کسی کے قاتلوں تک نہیں پہنچ سکے۔

کہیں نہیں ہے کہیں بھی نہیں لہو کا سراغ!

محترمہ نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے وہ واقعہ سنایا جس نے مجھے بھی جذباتی کر دیا۔ اور جس سے ان کی اس گہری درد مندی کا احساس اجاگر ہوا جس کا ذکر میں نے اس تحریر کی ابتدا میں کیا ہے

” 1992 کا ذکر ہے میں کراچی میں حکیم صاحب کے ڈائننگ روم میں بیٹھی چائے سے لطف اندوز ہو رہی تھی کہ ان کی بڑی بیٹی سعیدہ گھبرائی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی اور کہا کہ ابو جان کچھ کیجیئے۔ بہت سے بلوائی گرو مندر کی طرف ان ہندو خاندانوں کو قتل کرنے جا رہے ہیں جنہوں نے کل ہندوستان میں بابری مسجد کے گرائے جانے پر مسلمانوں کے متوقع انتقام سے بچنے کے لیے وہاں پناہ لے رکھی ہے۔ میں بھی فوراً اس کے اس مطالبے میں شامل ہو گئی حکیم صاحب کو ہماری سلامتی بھی عزیز تھی اور وہ ان ہندو خاندانوں کو بھی بچانا چاہتے تھے۔

انہوں نے پولیس سے بھی رابطہ کیا۔ بلوائیوں کا ایک بڑا ہجوم گرو مندر کو گرانے اور پناہ گزین اور عبادت گزار ہندووں کو قتل کرنے مندر کی طرف بڑھ رہا تھا۔ ہمارا خیال تھا کہ ہم کم از کم ان ہندوؤں کو جو کسی طرح مندر سے زندہ بچ کر باہر آ جائیں، کسی محفوظ مقام تک پہنچا سکتے تھے۔ چنانچہ ہم (حکیم صاحب، ان کی تینوں بیٹیاں اور میں ) حکیم صاحب کی کار میں جلدی جلدی گرو مندر کی طرف روانہ ہو گئے۔ دل و دماغ اندیشوں اور وسوسوں کی آماجگاہ بنے تھے۔ جب ہم گرو مندر کے قریب پہنچے تو۔“ لدمیلا ویسیلیوا اپنے آنسوؤں پر قابو نہ پا سکیں اور زار و قطار رونے لگیں۔ سسکیوں اور آنسوؤں کے درمیان انہوں نے اپنی بھرائی ہوئی آواز پر قابو پاتے ہوئے کہا ”ہم نے عجیب منظر دیکھا۔“

کالے برقعوں میں ملبوس مسلمان عورتوں نے اپنے چھوٹے بچے اٹھائے اور بڑے بچوں کی انگلیاں پکڑے مندر کے گرد ایک انسانی زنجیر بنا رکھی تھی۔ عورتوں اور بچوں کی ایسی دو انسانی زنجیریں مندر کی حفاظت کے لئے بنی ہوئی تھیں۔ سب سے باہر والی انسانی زنجیر مردوں نے بنا رکھی تھی۔ بلوائی دور سے ان پر پتھر پھینک رہے تھے۔ اسی اثنا میں دور سے پولیس کے سائرنوں کی آوازیں بھی آنی شروع ہو گئی۔ بلوائیوں کے حملوں نے کئی جگہوں پر انسانی ہاتھوں کی زنجیر کی کڑیاں توڑ دیں۔

مگر لوگ پھر جلدی سے زنجیر کو مکمل کر دیتے۔ یوں یہ بلوائی اپنی پوری کوشش اور بہت سے لوگوں کو زخمی کرنے کے باوجود مندر کے قریب نہ پہنچ سکے۔ اسی اثنا میں پولیس پہنچ گئی اور بلوائی بھاگ کھڑے ہوئے۔ یہاں لدمیلا کی آواز ٹوٹ گئی۔ وہ بہت دیر کچھ کہہ نہ سکیں اور پھر یوں گویا ہوئیں۔ ”یہ منظر ساری زندگی میرے ساتھ رہے گا۔ جب کوئی پاکستانی معاشرے کی انتہا پسندی کی بات کرتا ہے۔ تو یہ منظر میری آنکھوں کے سامنے گھوم جاتا ہے۔ یہ منظر ساری زندگی میرے ساتھ رہے گا۔“

وہ خاموش ہو گئیں مگر مجھے اس سوچ کی اذیت میں مبتلا کر گئیں کہ ہمارے کچھ لوگ اس زندہ اور توانا مسلم معاشرے کو دہشت گردی سے دو چار کر کے امن و سلامتی کے دین کی کیا تصویر دنیا کے سامنے پیش کر رہے ہیں؟ پاکستان کی مساجد، مزارات، گرجا گھروں، امام بارگاہوں اور مندروں میں عورتوں، معصوم بچوں اور بزرگوں کو قتل کر کے وہ کس دین کی شریعت کا نفاذ چاہتے ہیں اور یہ کہ وہ کس ملک اور معاشرے کی تباہی کا باعث بن رہے ہیں۔

اس بار بھی مادام کا سفر پاکستان نہایت خوشگوار رہا۔ واپسی پر انہوں نے اپنے سب احباب سے ملاقاتوں کا حال بڑے رسان سے سنایا۔ وہ اپنے احباب کے انتہائی خلوص و محبت کا ذکر کرتے ہوئے بار بار روہانسی ہو جاتیں۔ لاہور سے تو انہیں بہت محبت ہے اور وہاں وہ بار بار جانا چاہتی ہیں۔ میں نے مادام کا اقبال کی نظم ہمالہ پر لکھا گیا مضمون پڑھا۔ اقبال کے پہلے مجموعہ کلام ’بانگ درا‘ کی اس پہلی نظم کے صرف تین بندوں کے تجزیے پر مبنی اس مضمون میں لدمیلا ویسیلیوا نے فکر اقبال، لفظیات اقبال، ان کی شاعری کے بیانیہ، خطیبانہ اور ناصحانہ انداز بیان، تاریخ اور عمرانیات پر ان کی گہری نظر، انفس و آفاق پر ان کے انداز نظر اور ان سارے امکانات کی نشاندہی جو ان کی بعد کی شاعری میں ظاہر ہونا تھے، کے بارے میں اتنا کچھ کہہ دیا ہے جو اور بہت سے اعلیٰ پائے کے اقبال شناس شاید کئی کتابوں میں بھی اس سلیقے اور صحت سے نہ سمیٹ پائیں۔ اسی طرح فیض کی نظم ’تنہائی‘ کا ان کے سارے کلام اور ان کی جذباتی و فکری اپچ سے تعلق کا جس ماہرانہ چابکدستی سے محترمہ نے تجزیہ کیا ہے۔ وہ انہیں کا حصہ ہے۔

فیض نے تنہائی کے ذاتی تجربے کو جس طرح حسی اور جذباتی تشبیہات اور استعارات کے تخلیقی و جمالیاتی استعمال کے ذریعے ایک کائناتی تنہائی میں تبدیل کر دیا ہے اسے محترمہ نے ایک مختصر مضمون میں یوں کھول کر بیان کر دیا ہے کہ اس کی ساری جہتیں کھل کر سامنے آ جاتی ہیں، اور تہہ در تہہ معانی کے پرت کھلتے چلے جاتے ہیں، آنکھوں کے بے خواب کواڑوں کا رشتہ کھڑکی کے محبوب کی آمد کے انتظار میں کھلے کواڑوں اور پھر ستاروں کے ٹمٹمانے اور پلکوں کے جھپکنے سے جا ملتا ہے۔ یوں فیض کی تنہائی ایک آفاقی تنہائی بن جاتی ہے اور اس کے سارے کلام کی رگ و پے میں سرایت کر کے اسے لفظیاتی، فکری اور جمالیاتی تاثر اور تسلسل سے ہمکنار کر دیتی ہے۔

فیض کے پرستاروں اور ناقدین میں شاید ہی کوئی ایسا ہو جس نے اس کے کلام کا اس قدر عمیق نظر سے تجزیہ کیا ہو۔ یہ تو ایک مختصر مضمون کا حال ہے۔ محترمہ کے علم، جستجو اور تحقیق کا مرقع تو ان کی کتاب ”فیض، حیات و تخلیقات“ ہے جس کا ذکر پہلے ہو چکا ہے اور جو دنیا بھر کے اردو بولنے اور سمجھنے والوں سے داد و تحسین حاصل کر چکی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments