میری آواز ہی پہچان ہے گر یاد رہے


آوازوں سے مجھے عشق کس عمر میں ہونا شروع ہوا، یہ تو یاد نہیں۔ ہاں مگر یہ یاد ہے کہ بہت چھوٹی عمر سے ہی جب کبھی بھی سکون کی تلاش ہوتی تو جائے پناہ موسیقی میں ملتی۔ میں ان لوگوں میں سے ہوں جو آوازوں کے سحر میں گم ہو جاتے ہیں۔ آواز کا کنیکشن بہت مضبوط ہوتا ہے۔ آپ لوگ اختلاف رکھ سکتے ہیں۔ مگر میرا یقین اس پہ بہت پختہ ہے۔

آوازوں سے محبت میں مبتلا ہونے کے باوجود میں آوازوں کے نام یاد رکھنے میں تھوڑی نالائق تھی۔ یا پھر آپ اسے یوں کہہ لیں کہ جو آواز پسند آ گئی بس اردگرد سب غائب ہو گیا۔ حتی کہ یہ جاننے کی بھی کوشش نہ ہوتی کہ بولنے والا یا گانے والا کون ہے۔ بس فسوں سا چھا جاتا۔

لیکن اس سب کے باوجود دو تین آوازیں ایسی ہیں جو میں بنا کسی اگر مگر کے پہچان جاتی جن میں سے ایک آواز لتا جی کی تھی۔ لتا جی کے گانے گھر میں ہمیشہ چلتے۔ امی اور خالہ فلمی گانے شوق سے سنتی تھیں۔ اور لتا جی کے بنا فلم کے گیت کہاں پورے ہوتے تھے۔ لتا جی سے مجھے عشق ٹین ایج میں ہوا۔ سچ بات تو یہ ہے کہ اس دور میں مجھے اپنا سب سے بہترین دوست لتا جی کی آواز لگتی۔

میں دکھی ہوتی تو کمرے میں اندھیرا کر کے اک پیار کا نغمہ ہے لگا لیتی۔ مجھے محبت کو محسوس کرنا ہوتا تو تیرے بنا زندگی سے کوئی شکوہ تو نہیں گونجنے لگتا۔ جانے کیوں لوگ محبت کیا کرتے ہیں میں نے اس قدر سنا کہ میرے گھر والے باقاعدہ شک میں پڑ گئے کہ میں کسی لڑکے کے چکر میں ہوں۔ جب کہ دور دور تک ایسا کوئی چکر نہ تھا۔ اس دور میں میرے پاس لتا جی کا ہر والیم ہوتا۔ جو میں اپنی ٹیوشنز کی کمائی سے خریدتی۔ اور پھر کسی سانپ کی طرح اس خزانے پہ بیٹھ جاتی۔ میری کیسٹس کی ترتیب تک کوئی ہلاتا تو میں رونے لگ جاتی یا غصہ کرتی کہ کیوں آخر کیوں۔

سرحدوں کا ایک بڑا نقصان یہ بھی ہے کہ آپ جن کو چاہتے ہیں جن سے ملنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ ان سے ملنے کے لیے آپ کو سرحدوں کے پار جانا پڑے تو سرحدوں کے مالک بن بیٹھنے والے آپ پہ ہنستے ہیں۔ مجھے یاد ہے جب بچپن میں میرے نانا امبرسر امبر سر کرتے رہتے تھے تو میں حیرانی سے انہیں دیکھتی۔ مجھے لگتا یہ بوڑھا آدمی شاید سٹھیا گیا ہے۔ انہیں لاہور میں بیٹھ کے امبرسر کیوں یاد آتا ہے۔ اور یہ تقسیم پہ اتنا غصہ کیوں دکھاتے ہیں۔

آج میں بھی وہ سٹھیایا ہوا شخص بن چکی ہوں۔ لتا جی سے ملنے کے خواب خواب ہی رہ گئے۔ ایسے کئی خوابوں کی کرچیاں پہلے ہی آنکھوں کو نم رکھتی ہیں۔ درد دیتی ہیں۔ آج ان کی موت سے چند کرچیاں دل کی زمین میں پیوست ہو گئیں۔

میرے لیے تو وہ کبھی بھی مریں گی نہیں۔ میری نانی میری ماں پھر میں اور اب میری بیٹی ہم سب یکساں ان کے عشق میں مبتلا ہیں۔ شاید میں کچھ زیادہ تھی۔ کمرے میں لگ جا گلے گونج رہا ہے۔ آنکھ سے آنسو ٹپک کے موبائل کی سکرین پہ گرا ہے۔ مگر دل کو سمجھانے کے لیے یہ سوچ رہی ہوں کہ لتا جی کی آواز ہی ان کی پہچان ہے۔ وہ نہ رہیں، میں نہ رہوں کوئی بھی نہ رہے مگر پھر بھی ان کی آواز اس کائنات میں اپنی پوری شدت اپنے پورے طمطراق سے موجود رہے گی۔

وہ خود ہی تو گا گئی ہیں کہ جیون کا مطلب تو آنا اور جانا ہے۔ سو ہم دل پاگل کو تسلی دیتے ہیں کہ ان کا صرف جسم نگاہوں سے اوجھل ہوا ہے۔ ان کی موجودگی آج بھی ایسی ہے کہ اک ذرا ہاتھ بڑھا کے چھو لیں، سن لیں۔

آج پھر مرنے کا ارادہ ہے گانے والی نے بات سچ کر دی۔ میں آئی مس یو نہیں کہوں گی، کیونکہ آپ تو روزانہ میرے ساتھ ہوتی ہیں۔ کوئی دن ایسا نہیں جس دن آپ کی آواز میرے ساتھ نہ ہو۔

میں بس یہ کہوں گی کہ آئی محبت یو اتنا سارا۔ بس ایک غم ہے کہ یہ لفظ آپ کے سامنے بیٹھ کے آپ کو نہ کہہ سکی۔ مگر جیون میں سب کچھ کہاں ملتا ہے۔ فطرت آپ کی نگہبانی کرے۔

May you rest in love۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).