راحیل شریف کی توسیع: کچھ عرفان صدیقی کا انکشاف اور کچھ میرا


سینیٹر عرفان صدیقی صاحب نے گزشتہ دنوں جنرل راحیل شریف کے تعلق سے ایک انکشاف کیا ہے۔ اس انکشاف نے یادوں کی پٹاری کھول دی۔ اس کے ساتھ ہی کچھ ایسی باتیں یاد آ گئی جو اسی حوالے سے خود صدر مملکت ممنون حسین سے مجھے سننے کا موقع ملا تھا۔
وہ ہفتے کا دن ہوتا یا پھر اتوار کا اور کبھی کبھی تو دونوں دن بھی۔ ادھر گیارہ بجتے اور میں کاپی سنبھال کر ادھر کا رخ کرتا۔ طے یہ پایا تھا کہ صدر صاحب کی یادیں ریکارڈ کی جائیں لیکن وہاں تو ریکارڈنگ کا ایک انتظام اور بھی تھا۔ ریزیڈنسی (صدر مملکت کی رہائش گاہ) میں داخلے کے دو راستے ہیں۔ ایک ایوان صدر (سیکریٹریٹ) کے عقب سے اور دوسرا صدر دروازے سے نوے درجے کے زاویے پر یعنی بالکل پچھلی طرف سے۔ موسم اچھا ہوتا تو میں گھر سے نکل کر پیدل ہی ٹہلتا ہوا اس طرف چل دیتا۔ صورت حال مختلف ہوتی تو گاڑی سے مدد لیتا۔ کوئی ایک ڈیڑھ منٹ کی ڈرائیو کے بعد گیٹ آ جاتا۔ پھر وہ چڑھائی یعنی وہ پہاڑی جس پر مملکت کے شہری نمبر ایک کی رہائش گاہ ہے۔
مختصر سی لفٹ دوسری منزل پر ٹھہرتی تو اسی لفٹ ہی کی پشت پر ملاقات کے چھوٹے سے کمرے میں آ کر ہم بیٹھ جاتے۔ صدر صاحب مرکزی نشست پر بیٹھتے اور ہم دائیں بائیں صوفوں پر۔ ایک روز صدر صاحب ابھی پہنچے نہیں تھے کہ فون کی گھنٹی بجی۔ فون میں نے اٹھایا تو نہیں لیکن یہ ضرور دیکھنے کی کوشش کی کہ کہیں صدر صاحب کو تو نہیں۔ اسی دوران میں میری نگاہ صدر صاحب کی نشست اور اپنے صوفے کے بیچ اس گول میز پر پڑی جس پر گل دان دھرا تھا۔ گل دان میں سجے تازہ پھولوں سے ماحول مہک تھا۔ جوں ہی میری نگاہ پھولوں کے عین بیچ میں پڑی، میں چونکا۔ ان میں پرانے زمانے کا ایک چھوٹا سا جیبی ٹیپ ریکارڈر دھرا تھا۔ دکھائی یہی دیتا تھا کہ ٹیپ ریکارڈر بند ہے اور طویل عرصے سے کبھی زیر استعمال نہیں آیا۔ یہ دیکھ کر میں نے اطمینان کا سانس لیا لیکن ایک بات سمجھ میں نہ آ سکی۔ ٹیپ ریکارڈر ایک برقی تار سے منسلک تھا۔ یہ تار پھولوں کے عقب سے نکل کر پچھلی دیوار میں کہیں غائب ہو رہا تھا۔

صدر صاحب آئے تو بات چیت شروع ہو گئی۔ صدر ممنون حسین بڑی دلکش شخصیت کے مالک تھے۔ کوئی تین چار برس انھوں نے درس نظامی کی تعلیم حاصل کی تھی۔ اردو پر ان کی گرفت تو تھی ہی کمال کی درس نظامی کے پس منظر کی وجہ سے عربی فارسی پر بھی ان کی بڑی گرفت تھی۔ اس لیے ان کی گفتگو میں بڑی دل کشی اور چاشنی پیدا ہو جاتی۔ وہ بات سے بات نکالتے جاتے اور درمیان میں موزوں شعر نگینے کی طرح جڑتے جاتے۔ اس روز ماحول کچھ ایسا تھا کہ انھوں نے سردار عبد الرب نشتر کو یاد کیا پھر ان کا ایک شعر سنایا
بس اتنی سی خطا پر رہبری چھینی گئی ہم سے
کہ ہم سے قافلے منزل پہ لٹوائے نہیں جاتے
یہ ان دنوں کی بات ہے جب پانامہ لیکس ہو چکی تھیں اور عمران خان اسلام آباد کے محاصرے یا گھیراؤ کی کوشش کر چکے تھے۔ ان کی یہ کوشش تو کامیاب نہیں ہوئی تھی لیکن اسی دوران میں ایک حیران کن واقعہ رونما ہوا۔ ایک جج نے کہا تھا کہ ہم جو بیٹھے ہیں، ادھر آئیں۔ حالانکہ اس بیان سے تھوڑے ہی دن پہلے پانامہ لیکس سے متعلق پیٹیشن سپریم کورٹ دائر کی گئی تھی۔ اس مرحلے پر عدالت نے اسے غیر سنجیدہ قرار دے کر مسترد کر دیا تھا۔ یوں یہ پٹیشن ایک بار سپریم کورٹ میں گئی۔ اس بار اسے قبول کر لیا گیا۔ پھر وہ سلسلہ شروع ہوا جس کے بعد وزیر اعظم نواز شریف کو نااہل قرار دیا گیا۔
صدر ممنون حسین نے ان تمام واقعات کو یاد کیا پھر ایک حیران کن انکشاف کیا۔ انھوں نے بتایا کہ جن دنوں پانامہ لیکس کا ہنگامہ عروج پر تھا۔ فوج کے سربراہ نے وزیراعظم نواز شریف سے ذاتی طور پر ملاقات کی اور ان سے ایک درخواست کی۔ فوج کے سربراہ نے ان سے مطالبہ کیا کہ انھیں ایک پوری میعاد کے لیے توسیع دے دی جائے۔ وزیراعظم نے اس مطالبے سے اتفاق نہیں کیا تو ایک متبادل تجویز پیش کی گئی۔ متبادل تجویز یہ تھی کہ اگر پورے تین برس کے لیے توسیع ممکن نہیں ہے تو مدت کچھ کم کر لی جائے یعنی دو برس۔ صدر مملکت نے بتایا کہ وزیراعظم اس تجویز سے بھی متفق نہ ہوئے تو ایک اور تجویز پیش کی گئی۔ تیسری تجویز بالکل ہی مختلف نوعیت کی تھی۔ اس کا تعلق توسیع سے نہ تھا۔ تیسری تجویز میں کہا گیا کہ پارلیمنٹ سے قرارداد منظور کر کے انھیں فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی دے دی جائے۔ صدر ممنون حسین صاحب نے بتایا کہ یہ تجاویز ایک پیش کش کے ساتھ کی گئی تھیں۔ وزیر اعظم کو بتایا گیا تھا کہ اگر وہ متفق ہو جاتے ہیں تو ایسی صورت میں پانامہ لیکس وغیرہ سمیت ان کے راستے کی تمام رکاوٹیں دور ہو جائیں گی۔ ممنون صاحب نے اتنا کہہ کر لحظہ سانس لی پھر کہا:

’وزیر اعظم نے اس بار بھی انکار میں سر ہلا دیا‘ ۔

صدر ممنون حسین نے یہ واقعہ سنایا اور پھر سردار عبد الرب نشتر کا وہ شعر سنایا جو قومی سیاست کے ضمن میں ضرب المثل کی حیثیت رکھتا ہے۔

بس اتنی سی خطا پر رہبری چھینی گئی ہم سے
کہ ہم سے قافلے منزل پہ لٹوائے نہیں جاتے

اس شعر کا پس منظر بھی دل چسپ ہے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب گورنر جنرل غلام محمد نے پاکستان کی آئین ساز اسمبلی توڑ کر امریکا میں پاکستانی سفیر محمد علی بوگرا کو وزیر اعظم بنایا۔ مسلم لیگ ان دنوں پژمردگی کا شکار تھی اور سردار عبدالرب نشتر نے اپنی ولولہ انگیز قیادت نے زند گی کی نئی روح بھر دی تھی۔ حکومت چاہتی تھی کہ سردار صاحب اپنی سرگرمیوں میں کچھ کمی لائیں تاکہ حکومت سکون کا سانس لے سکے۔ اس موقع پر محمد علی بوگرا نے سردار صاحب کے پاس ایک پیغام بھیجا۔ انھیں پیش کش کی کہ وہ چاہیں تو حکومت میں اپنی پسند کا کوئی عہدہ قبول کر لیں۔ انھیں دوسری پیش کش یہ کی گئی کہ وہ اپنی پسند کے کسی ملک میں سفیر بن کر بھی جا سکتے ہیں۔ سردار صاحب نے یہ پیش کش غور کیے بغیر مسترد کر دی پھر یہ یادگار شعر کہا، ہر آنے والا دن جس کی حقانیت کو ثابت کر دیتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments