اسرائیل کے بڑھتے قدم بذریعہ ابراہام معاہدے


بحرین کے وزیر دفاع نے تلوار اپنے ہاتھوں پر بلند کی اور اسرائیلی وزیر دفاع کی طرف بڑھاتے ہوئے ان کو پیش کردی اور میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے کہ آخر اسرائیل کے بڑھتے قدم جو ابراہام معاہدے کی صورت میں خلیجی ممالک کی سرزمین پر محسوس ہونے لگے ہیں وہ کس قدر جم گئے ہیں۔ گزشتہ بدھ کی رات کو اسرائیلی ائر فورس کا بوئنگ سیون زیرو سیون سعودی فضائی حدود سے پرواز کرتا ہوا بحرین کے دارالحکومت منامہ میں اتر گیا۔ اسرائیلی وزیر دفاع کامیابی کے مزید احساس کے ساتھ سیڑھیوں کو اترتے ہوئے بحرین کی سرزمین پر وارد ہو گئے۔

اس موقع پر اسرائیلی وزارت دفاع کے پولیٹیکل ڈیفنس بیورو کے سربراہ ضوہر پالتی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی فوجی طیارے کی بحرین میں آمد کی نوعیت بذات خود ایک غیرمعمولی سنگ میل ہے۔ کیونکہ اس سے قبل اسرائیلی فضائیہ کا کوئی طیارہ بحرین میں اس طرح نہیں اترا تھا اور بلاشبہ اس کی ناصرف کے بحرین بلکہ پورے خطے کے لیے غیر معمولی اہمیت اور اس میں اشارہ موجود ہے۔ کیونکہ اگر ہم خلیج فارس اور ایران کو ذہن میں رکھیں تو صرف 120 میل کا فاصلہ بن جاتا ہے اور ہم بھی کوئی زیادہ دور نہیں۔

اسرائیلی وزیر دفاع کا یہ دورہ صرف ایک دورہ ہی نہیں تھا بلکہ اس دورہ میں اسرائیل نے یہ سنگ میل بھی حاصل کیا کہ بحرین، ابراہام معاہدے کے بعد خلیجی ممالک میں وہ پہلا ملک بن گیا کہ جس نے اسرائیل کے ساتھ سیکورٹی کی دستاویز پر دستخط کر دیے ہیں۔ اس سے قبل عرب سلطنتوں میں مراکش اس کے ساتھ سکیورٹی معاہدہ کر چکا ہے۔ بحرین عرب دنیا کا دوسرا اور خلیجی ممالک کا پہلا ملک بن گیا ہے۔ اس معاہدے میں صرف رسمی دفاعی تعلقات کی بابت گفتگو نہیں کی گئی ہے بلکہ بحرین کے ساتھ یہ نہایت دوررس اثرات کا حامل ہو گا۔

اس کی رو سے یہ دونوں ممالک ایڈوانس انٹیلی جنس میں تعاون جبکہ مشترکہ فوجی مشقوں کا فریم ورک طے کریں گے اس کے ساتھ ساتھ دفاعی صنعت میں بھی ایک دوسرے کا ہاتھ بٹائیں گے۔ اب یہ ایک دوسرے کا ہاتھ کیسے بٹائیں گے تو اس کو سمجھنا بالکل بھی مشکل نہیں ہے۔ بحرین انٹیلیجنس، مشترکہ فوجی مشقوں اور دفاعی صنعت کی مصنوعات میں سے کچھ بھی اسرائیل کو ایکسپورٹ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے جبکہ یہ تینوں ”مصنوعات“ وہ اسرائیل سے ہی خریدے گا اور جواب میں اسرائیل ناصرف کہ اسٹرٹیجک حوالے سے اپنی پوزیشن کو مزید مستحکم کرے گا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ بحرین جیسی تیل کی دولت سے مالا مال ریاست کی دولت کا بہاؤ بھی اسرائیلی خزانوں کی جانب رخ اختیار کر لے گا۔

یعنی ہر اعتبار سے اسرائیل منافع ہی منافع حاصل کرے گا۔ دفاعی تعاون کے آغاز کا اشارہ تو گزشتہ برس نومبر میں اس وقت ہی مل گیا تھا جب متحدہ عرب امارات اور بحرین نے اسرائیل کی بحریہ کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقیں کی تھیں۔ یمن کے بگڑتے حالات اور اس کے حوالے سے ایران اور عرب ملکوں کی ناعاقبت اندیشی نے حالات کو اس حد تک خراب کر دیا ہے کہ اسرائیل کو اپنا کھیل کھل کر کھیلنے کا موقع مل گیا۔ سکیورٹی کے معاہدوں سے لے کر فوجی طیاروں کے فضائی حدود کے استعمال تک سب کچھ اسرائیل کی مرضی و منشا سے وقوع پذیر ہو رہا ہے اسرائیلی وزیر دفاع نے بحرین کے دورے کے دوران اس معاہدے پر تبصرہ کرتے ہوئے اس کو ”تاریخی ابراہام معاہدہ“ کا تسلسل قرار دیا اب یہ تسلسل کہاں تک پھیلتا چلا جا سکتا ہے اس کو واضح کرنے کے لئے انہوں نے ایک اور یہ قدم اٹھایا کہ وہ بحرین میں مقیم امریکی ففتھ نیول فلیٹ کا دورہ کرنے بھی گئے۔

یہ امریکی نیول فلیٹ اس سارے خطے میں امریکی فوجی مفادات کا نگہبان اور طاقت کی علامت کے طور پر موجود ہے۔ یہی پر سے امریکی سینٹرل کمانڈ ( سینٹ کام) کے بھی بہت سارے فوجی آپریشن کیے جاتے ہیں۔ اسرائیلی وزیر دفاع کا یہ دورہ اس لیے بہت اہم ہے کہ حال ہی میں امریکی ففتھ نیول فلیٹ کی قیادت میں مشرق وسطیٰ میں سب سے بڑی unmanned بحری فوجی مشقوں آئی ایم ایکس کا اہتمام کیا گیا اور ان مشقوں میں اسرائیلی بحریہ نے بھی شرکت کی آنکھیں کھول دینے کے لیے بلکہ اچھی طرح سے کھول دینے کے لئے یہ جاننا بہت اہم ہے کہ اس میں اسرائیل کے ساتھ پہلی بار ان ملکوں کی بحریہ نے بھی شرکت کی جو اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتے ہیں جن میں سعودی عرب اور پاکستان بھی شامل تھے۔

خیال رہے کہ یہ تاریخ میں پہلی بار تھا کہ پاکستان نے اسرائیل کے ساتھ ان بحری فوجی مشقوں میں شمولیت اختیار کی پاکستان کے ارباب اختیار امریکہ کی چاپلوسی کے لئے کیا کچھ کرنے کو تیار نظر آتے ہیں وہ ان مشقوں میں شمولیت سے صاف نظر آ رہا ہے۔ بہر حال اسرائیل صرف یہیں تک محدود نہیں ہے۔ ترک صدر اردگان نے گزشتہ ہفتے یوکرائن کا دورہ کیا۔ یوکرائن روس کشیدگی عالمی منظرنامے کی اس وقت اہم ترین خبر ہے اس کشیدگی کے بڑھنے سے یورپ کو روسی گیس کی ترسیل رک سکتی ہے جو یورپ کے لیے بہت بڑا بحران ہو گا۔

جب یوکرائن کا دورہ ختم کر کے ترک صدر انقرہ پہنچے تو انہوں نے وہاں بتایا کہ وہ ترکی کے لیے اسرائیلی گیس خرید سکتے ہیں اور ناصرف کے ترکی کے لیے بلکہ یورپ کے لیے اسرائیلی گیس کی ترسیل بھی کروا سکتے ہے اور اس حوالے سے گفتگو اسرائیلی صدر کے اگلے ماہ کے وسط میں دورہ ترکی کے دوران ایجنڈے میں شامل ہوگی۔ ترک صدر نے دو فروری کو عراق کے نیم خود مختار علاقے عراقی کردستان کے صدر نوشیروان بارزانی سے بھی ملاقات کی اور اس ملاقات کی تفصیل بتاتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ گیس کے معاملات میں وہ عراق کو بھی شامل کرنا چاہتے ہے اور اس حوالے سے ان کو عراقی کردستان کے صدر نے یقین دہانی بھی کروائی ہے۔ ذرا اس سب کو روس یوکرائن تنازعے کے تناظر میں دیکھیں سب سمجھ میں آ جائے گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کہاں پر کھڑی ہے کیونکہ نہ تو خلیج فارس ہم سے دور ہے نہ ہی ہم عرب اور خلیجی ممالک میں ہونے والے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments