مُردوں سے خوفزدہ ریاست


”پاکستان میں اقلیتوں کو مکمل حقوق حاصل ہیں اور اقلیتوں کے جان و مال کو مکمل تحفظ حاصل ہے۔“ کے اعلانات آئے روز ملکی اخبارات کی زینت بنتے ہیں۔ ہر دوسرے دن وزیر مشیر اور جبہ دار ترجمان حکومت یہ بیان داغنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے کہ پاکستان میں اقلیتوں کے جان و مال کی حفاظت کی ذمہ داری مکمل طور پر ریاست کی اولین ترجیحات میں سے ہے۔ لیکن حقائق کے اعشاریے کچھ اور ہی داستان سناتے ہیں۔ ریاست مدینہ کے خواب دکھا کر عوام کے جذبات سے کھیلنے کا کھیل سر عام جاری ہے۔

مملکت خدا داد میں قبروں کی پوجا، حکمرانوں سے لے کر عوام الناس تک قبروں کو تعظیمی سجدے ایک عام بات ہے۔ عقیدتوں کی نئی ریت بناتے مجاوروں، میل ہا میل سے تعظیمی سجدے بجا لاتے دربار عالیہ پر حاضری کے لئے آنے والے عقیدت مندوں سے کوئی عالم سوال کرنے کی جرات نہیں رکھتا کہ صاحب! ایسے عمل کی کوئی شرعی حیثیت بھی فراہم کر دیجئے۔ نہ ایسے اعمال سے دین اور ”ریاست مدینہ“ میں شریعت کو کوئی فرق پڑتا ہے۔

ارض پاک پر قبر کشائی کے بیسیوں دل خراش واقعات بار ہا ہو چکے۔ کفن چوری تو معمولی واردات لگتی ہے اب۔ جوان بچیوں کی لاشوں کو قبروں سے نکال کر ان کے مردہ جسموں سے لذت کشید کرنے کی قابل نفرت اور گھٹیا ترین کوشش کرنے والوں سے کوئی خطرہ نہیں۔ ایسے قبیح فعل کے مرتکب کو ریاست نے کبھی مقام عبرت بنایا ہو یا ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے کوئی قابل عمل اقدام اٹھایا ہو تو بتا دیجیئے۔

ان نشئیوں، منشیات کے بیوپاریوں، قبریں کھودنے والے بچیوں سے کوئی خطرہ ہمارے مردوں کو ہے نہ ہماری اقدار کو۔ ہاں مگر ایک گروہ ایسا ہے جس کی قبروں سے بھی خطرہ ہے ان کے مردوں سے بھی ریاست خوف زدہ ہے۔ انہیں مر کر بھی چین سے رہنے نہیں دیں گے کی قسم مگر ہم نے کھا رکھی ہے۔ آئے روز کسی نہ کسی مقام پر کسی نہ کسی شہر قصبے اور گاؤں کے مسلمان مردے سراپا احتجاج ہو جاتے ہیں کہ ہمیں ان کافروں کی ہمسائیگی سے بچاؤ۔ ان کی قبروں کی تختیاں زمین دوز کرو تو ہمیں چین آئے۔

ایسی خبر ملتے ہیں جبہ دار اماموں کی اقتدا میں ریاستی مشنری حرکت میں آتی ہے۔ NO FEAR کی شرٹس زیب تن کیے نوجوان تحفظ دیتے ہیں۔ اور یہ قافلہ کسی قبرستان میں جا گھستا ہے۔ چن چن کر احمدیوں کی قبروں کی بے حرمتی کی جاتی ہے۔ قبروں کے کتبے زمین دوز کیے جاتے ہیں۔ ان پر لکھی عبارات کلمہ طیبہ ہو، بسم اللہ ہو یا کوئی اور آیت کریمہ اسے ہتھوڑے اور چھینیوں کی مدد سے توڑ کر زمین پر گرا دیا جاتا ہے۔ یہ بھی خیال نہیں آتا کہ یہ کلمات تو پاک ہیں ناں۔ کیا کسی ”کافر“ کی قبر پر لکھے جانے سے ان آیات کی حرمت ختم اور احترام کم ہو جاتا ہے ۔ کیا ان کلمات کو توڑ کر زمین پر پھینکے، ان کو اپنے پیروں تلے روندنے والے، No FEAR کے لیبل کے ساتھ خدا کے خوف سے بھی عاری ہوچکے ہیں۔

ابھی 4 اور 5 فروری کو پریم کوٹ حافظ آباد میں 1974 سے قائم احمدیہ قبرستان میں مردوں کی توہین کرتے اور قبروں کو پامال کرتے ہوئے 45 قبروں کو ریاست نے اپنے قدموں تلے روند ڈالا ہے۔ اور ایسا عمل کرنے والوں کا ایمان تازہ ہوا۔ شریعت نافذ ہوئی۔ قانون کی اجارہ داری قائم ہو گئی۔

کبھی فرصت ہو تو رحمت عالم ﷺ کی سنت کی ایک جھلک بھی دیکھ لینا، جنازہ آتے دیکھ کر احتراماً کھڑے ہو گئے۔ عرض کیا گیا جنازہ تو ایک یہودی کا ہے۔ جواب ایسا ارشاد ہوا کہ تا قیامت مذہب کے نام نہاد ٹھیکیداروں، اور اپنے آپ کو باقیوں سے اعلیٰ سمجھنے والوں کی عقل ٹھکانے آ جائے۔ فرمایا ”کیا وہ انسان نہیں تھا“ ۔ آج ہم احمدیوں کو کافر تو مانتے ہی ہیں لیکن انسانیت کے دائرے سے بھی انہیں خارج کر کے ان کے مردوں کی بے حرمتی پر بھی حکومتی سرپرستی میں سرگرداں ہیں۔ اور ایسا ہم رحمت عالم ﷺ کے نام پر کر رہے ہیں۔

اس رحمت عالم ابر کرم کے یہ کیسے یہ متوالے ہیں / وہ آگ بجھانے آیا تھا یہ آگ لگانے والے ہیں /
ہاں مگر ”پاکستان میں اقلیتوں کو مکمل حقوق حاصل ہیں اور اقلیتوں کے جان و مال کو مکمل تحفظ حاصل ہے۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments