سرحد کے اس پار اک کوئل : لتا منگیشکر


تم مجھے یوں بھلا نہ پاؤ گے

مندروں میں بجتی گھنٹیوں سا سحر لیے لتا جی ان چند فنکاروں میں سے ہیں جنہوں نے کئی دہائیوں بلکہ کئی نسلوں کو اپنی آواز کے سحر میں مبتلا رکھا۔

میں نے کچھ ہی عرصہ قبل لتا جی کا ایک پروگرام ہمارے مشہور صحافی کامران خان کے ساتھ دیکھا اور پھر اس کو کئی بار دیکھا اور یہ بات نوٹ کی کہ لتا منگیشکر سر کی دیوی نہیں تھیں بلکہ وہ دھرم، اخلاق اور شرم و حیاء کی دیوی بھی تھیں۔ جب کامران خان نے ان کو اپنی پسندیدگی اور ان پہ اپنی کم عمری کے دنوں کے اپنے کرش کا ذکر کیا تو انہوں نے کسی دوشیزہ کی مانند بے ساختہ نظریں جھکا لیں اور یہی ردعمل وہ مختلف گانوں اور فلموں کے واقعات سناتے ہوئے دے رہی تھیں۔

میں دیکھ رہی تھی کہ اتنی عمر رسیدہ ہونے کے باوجود ایک معصومیت اور حیا ان کی شخصیت کا خاصہ تھی یہی وجہ ہے کہ وہ زندگی کی آخری سانس تک کسی کلی کی طرح مہکتی رہیں اور ان کی آواز پر ماہ و سال اپنا اثر چھوڑنے میں ناکام رہے اور 1929 ء میں پیدا ہونے والی لتا جی کی آواز سے ان کی عمر کا ذرا بھی اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ اس سے ہمیں سبق ملتا ہے کہ خالص چیزوں پر وقت کے منفی اثرات کبھی نہیں پڑتے اور زمانے کی تلخی ان میں نہیں گھلتی اور وہ دنیا سے جاتے وقت بھی شاید ویسے ہی پوتر ہوتے ہیں جیسے دنیا میں آتے وقت تھے۔ پھر چاہے وہ ”سولہ برس کی بالی عمر“ گائیں یا پھر ”یہ گنبد مینائی یہ عالم تنہائی“ ان کے گلے میں بھگوان ہی بولتا ہے۔

مجھے ایسے لگتا ہے کہ جب تقسیم ہوتی ہے تو کسی بھی خطے کا سب سے بڑا نقصان فن اور ادب کے بٹ جانے سے ہوتا ہے۔ لتا وہاں رہ گئیں مگر ان کی مدھر آواز اور محبت ہوا کے دوش پر ہم تک پہنچتی رہی۔ ان کے گیت یہاں تک کہ ان کی پڑھی گئی نعتیں ہماری سماعت سے ہوتی ہوئی ہمارے دلوں اور روح میں اترتی رہیں۔

لتا جی کے دنیا سے چلے جانے کی خبر نے مجھے جذباتی کر دیا ہے، میں آج موسیقی کے بارے میں بہت کچھ لکھنا چاہتی ہوں مگر میں فتوؤں سے ڈرتی ہوں کیونکہ جو موسیقی کو برا سمجھتے ہیں وہ مجھ پر طرح طرح کی باتیں کرنے سے نہیں رکیں گے۔ لیکن میں نے ایک جگہ پڑھا؛

کسی نے پوچھا کون سی موسیقی حرام ہے؟
مولانا رومی نے فرمایا : امیروں کے برتنوں میں گونجتی چمچوں کی آواز جو بھوکے غریب کے کانوں میں پڑیں۔
اللہ اکبر!
اللہ اکبر!
کتنا گہرا پیغام ہے اس جواب میں اور چند ہی الفاظ میں زندگی کا کتنا بڑا فلسفہ بیان کیا گیا ہے۔

ہمارے ادیب اور فنکار وہ طبقہ ہیں جو برصغیر کی تقسیم کے بعد بھی اس کو جوڑے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے کے لئے ہماری محبت سرحد کی پرواہ کیے بغیر ایک دوسرے تک پہنچ جاتی ہے۔ لتا جی ہوں یا پھر محمد رفیع، نور جہاں ہوں یا پھر نصرت فتح علی خان، گھر کا وہ حصہ ہیں جو بٹوارے کے باوجود نہیں بانٹا جاسکتا۔ یہ تو ستارے ہیں کہ زمین پر کھڑے ہو کر کہیں سے بھی دیکھیں محبت کے آسمان پر چمکتے دکھائی دیں گے۔ ہمارا مشترکہ سرمایہ ہیں اور ان کی جدائی کا غم دونوں طرف برابر ہے۔

لتا جی نے دنیا کی مختلف زبانوں میں تیس ہزار سے زیادہ گیت گائے۔ ان کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں بھی شامل کیا گیا۔ بھارتی حکومت کی جانب سے لتا منگیشکر کو 1969 میں بدما بھشن (تیسرا بڑا سول ایوارڈ) ، 1999 میں پدما ویبھشن (دوسرا بڑا سول ایوارڈ) اور 2001 میں سب سے بڑے سول ایوارڈ بھارت رتنا سے نوازا گیا۔

میں نے سوشل میڈیا پر پڑھا کہ لوگ کہہ رہے تھے کہ آواز کا یہ خلا شاید ہی کبھی پر ہو سکے مگر میرا خیال ہے کہ آواز کا خلا تو کبھی پیدا ہی نہیں ہوتا کیونکہ جو آواز ایک بار ہماری سماعت کا حصہ بن جائے پھر اسے سماعت سے ٹھیک ویسے جدا کرنا ناممکن ہے جیسے ہوا میں پھیلی خوشبو کو ہوا سے۔

لکھنے والے اپنی تحریروں میں،
گانے والے اپنے گیتوں میں
اور

چاہنے والے اپنی محبت میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں اور لتا جی کی طرح اپنے چاہنے والوں کو مسکرا کر کہہ رہے ہوتے ہیں۔

جیون کا مطلب تو آنا اور جانا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments