عبوری صوبہ گرانٹ سے نہیں قومی آمدنی سے چلنے والا ہو


عبوری صوبہ بارے گلگت بلتستان حکومت کی تیاریاں اور عزائم کیا ہیں یہ آپ جان چکے ہوں گے۔ ابھی تک نہیں جان پائے ہیں تو ممبران اسمبلی سے پوچھ لیجیے یا مقامی اخبارات کے گزشتہ روز کے شمارے پڑھ لیجیے۔ ہفتے کو وزیر اعلی خالد خورشید نے اسلام آباد میں ارکان اسمبلی کی بیٹھک بلائی، انہیں بریفنگ دی۔ لگتا ایسا ہے وزیر اعلی سمیت ارکان اسمبلی نان ایشوز پہ وقت ضائع کر رہے ہیں۔ اس وقت خالد حکومت کا درد سر یہ بنا ہوا ہے کہ سینیٹ میں سیٹیں کتنی ملنی چاہئیں؟

اس کے علاوہ شریعت کورٹ کا ایک نیا قضیہ بھی لے آئے ہیں۔ وزیر اعلی نے ممبران اسمبلی کو بریفنگ میں آئین پاکستان کی جن شقوں میں ترمیم کا بتایا ہے یہ ترامیم تو ویسے بھی ہو جانا ہیں اگر عارضی صوبہ بنتا ہے تو۔ جو کلیدی نکات ہیں ان کی طرف حکومت گلگت بلتستان کا دھیان نہیں جا رہا یا جان بوجھ کر ان کو صرف نظر کیا جا رہا ہے۔ سینیٹ میں نشستیں دو ملتی ہیں کہ چار یا آٹھ یہ زیادہ اہم بات نہیں ہے۔ اس وقت 3 باتوں کو فوکس کرنا چاہیے۔ ایک آئینی مسئلہ ہے، دوسرا ادارہ جاتی اور تیسرا مالیاتی۔

آئینی مسئلہ

آئین پاکستان کی شق ایک میں ترمیم کرتے ہوئے گلگت بلتستان کو پاکستان کی آئینی حدود میں (عبوری طور پر) شامل کرایا جائے۔ یہ بات یاد رہے کہ گلگت بلتستان آج تک پاکستان کی کسی دستوری دستاویز کے مطابق متنازع نہیں ہے۔ گلگت بلتستان سیاسی طور پر مسئلہ کشمیر کا حصہ ضرور بنا دیا گیا ہے۔ ریاست پاکستان کا اقوام متحدہ میں بھی یہی موقف رہا ہے لیکن اہم بات یہ کہ آئین پاکستان نے آج تک گلگت بلتستان کو متنازع نہیں لکھا۔

آئینی اداروں میں نمائندگی

عبوری صوبہ اس وقت بامعنی ہو گا جب اسے وفاقی سطح کے آئینی اداروں میں نمائندگی ملے گی۔ فی الوقت وفاقی حکومت کی جانب سے صرف سپریم کورٹ تک گلگت بلتستان والوں کی رسائی کی بات کی جا رہی ہے۔ تاہم آئینی ادارے اور بھی ہیں۔ مشترکہ مفادات کونسل بہت اہم اور اثر دار ادارہ ہے۔ وزیر اعظم پاکستان اور تمام صوبوں کے وزرائے اعلی اسی آئینی ادارے کے ذریعے وفاق کی مالیاتی تقسیم وغیرہ طے کرتے ہیں۔ وفاقی حکومت اور کسی صوبے میں کوئی تنازع کھڑا ہو جاتا ہے تو متعلقہ صوبے کا وزیر اعلی اسی پلیٹ فارم پر اپنا مدعا رکھتا ہے اور افہام و تفہیم کے ذریعے مسئلہ حل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ سو گلگت بلتستان کے وزیر اعلی کو بھی مشترکہ مفادات کونسل کا رکن ہونا چاہیے۔ اسی طرح قومی اقتصادی کمیشن، الیکشن کمیشن و دیگر آئینی اداروں میں بھی گلگت بلتستان کی نمائندگی مانگنی چاہیے۔

مالیاتی مسئلہ/ حصہ

گلگت بلتستان اپنے اسٹرکچر اور انتظامی تیکنیک میں 2009 کے بعد ایک صوبہ ہی ہے۔ پیپلز پارٹی حکومت نے ایک آرڈر کے تحت جی بی کو اپنی حرکیات میں صوبہ ہی بنا دیا تھا۔ اب اس صوبے کی ہیئت رکھنے والی یونٹ کو آئینی تحفظ دینا اگلا مرحلہ ہے۔ اور سب سے اہم بات یہ کہ آئین کے ذریعے ہی گلگت بلتستان کو پاکستان کے مالیاتی سسٹم میں لایا جائے۔ لہذا بطور کیس کے کلیدی فریق حکومت گلگت بلتستان کا سب سے بڑا مطالبہ یہ ہونا چاہیے کہ ہمیں این ایف سی یعنی قومی مالیاتی کمیشن کا حصہ دار بنایا جائے۔

2010 میں اٹھارہویں ترمیم نے این ایف سی ایوارڈ کے ذریعے صوبوں کو مالا مال کر دیا ہے۔ پہلے قومی مالیاتی کمیشن میں صوبوں کو حصہ آبادی کی بنیاد پر ملتا ہے۔ تاہم اٹھارہویں ترمیم نے ریونیو کی تقسیم کے کلیے کو متوازن بنا دیا ہے۔ اب آئین کے تحت آبادی کے علاوہ شرح غربت، پسماندگی، ڈیویلپمنٹ سیکٹر کی صورت حال اور ریونیو پیدا کرنے والے ذرائع کو بھی این ایف سی کی تقسیم میں مدنظر رکھا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر 2017 کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی 20 کروڑ اور بلوچستان کی آبادی ایک کروڑ ہے۔

یعنی بلوچستان کی آبادی پاکستان کی مجموعی آبادی کا 5 فیصد ہے لیکن اس وقت بلوچستان این ایف سی کا 10 فیصد حصہ اٹھا رہا ہے یعنی آبادی کے اعتبار سے ملنے والے حصے سے دوگنا۔ اسی طرح اگر گلگت بلتستان کو بھی این ایف سی میں لایا جائے تو یہ اور زیادہ فائدے میں رہے گا۔ لہذا حکومت گلگت بلتستان کو ایک ایسا عبوری صوبہ مانگنا چاہیے جو مالیاتی اعتبار سے صوبہ جیسا ہو، جو وفاق کے گرانٹ کا محتاج نہ ہو بلکہ آئین اپنے اندر سے اسے ریاست کی آمدنی سے حصہ فراہم کرتا ہو۔ بالفاظ دیگر یہ کہ حکومت گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ کی بابت معاشی حکمت کو مد نظر رکھنا چاہیے۔ پارلیمنٹ میں سیٹوں کی تعداد زیادہ اہم نہیں۔ میرے نزدیک تو یہ نان ایشو ہے۔

قدرتی وسائل، دریا، پہاڑ، گلیشیرز، سیاحت سے حاصل ہونے والے محاصل، معدنیات وغیرہ گلگت بلتستان کے ریونیو کے ذرائع ہیں۔ اس مضمون میں ہم نے وفاق سے قومی آمدنی کا حصہ حاصل کرنے کے باب میں بات کی۔ گلگت بلتستان قومی خزانے کو کیا دیتا ہے اس پر الگ سے آرٹیکل لکھنے کی ضرورت ہے مگر پہلے حکومت گلگت بلتستان قومی محصولات میں سے حصہ دینے کا مطالبہ تو کرے، خطے کو پاکستان کے مالیاتی نظام سے مربوط تو کرائے، حق چھین نہیں سکتی تو مانگ تو لے۔

ڈاکٹر سکندر علی زرین

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر سکندر علی زرین

سکندر علی زرین کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے۔ ماس کمیونیکیشن کے پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ گزشتہ دس برس سے جیو نیوز سے بطور ایسوسی ایٹ اسائنمنٹ ایڈیٹر منسلک ہیں۔ گلگت بلتستان کے اخبارات کے لیے رپورٹنگ کرتے ہیں اور کالم بھی لکھتے ہیں۔ سیاست، تاریخ، اردو ادب، ابلاغیات ان کے پسندیدہ میدان ہیں

sikander-ali-zareen has 45 posts and counting.See all posts by sikander-ali-zareen

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments