نواز شریف کا عمران خان کو گھر بھجوانے کا اعلان: اپوزیشن، حکومت میں سیاسی محاذ آرائی کا نیا دور کس حد تک فیصلہ کُن ہو گا؟

اعظم خان - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد


بظاہر حکومت اور اپوزیشن میں سیاسی محاذ آرائی کا ایک نیا دور شروع ہونے کو ہے جس کا آغاز ایک طرف اپوزیشن کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان کو گھر بھجوانے کے تازہ دعویٰ سے کیا گیا تو دوسری جانب خود تحریک انصاف کی جانب سے بڑے پیمانے پر عوامی رابطہ مہم اور جلسے جلوسوں کا اعلان کیا گیا ہے۔

جس کے بعد سوال اٹھ رہا ہے کہ یہ دور کس کے نام رہے گا اور کیا اس سیاسی کشکمش میں اپوزیشن ’اندرونی اختلافات‘ کے ہاتھوں ایک بار پھر شکست تو نہیں کھا بیٹھے گی؟

واضح رہے کہ چند دن قبل لاہور میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے رہنماوں کے اجلاس کے بعد گذشتہ روز دو بڑی اہم پیش رفت ہوئیں۔ ن لیگ کے سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی اجلاس کے بعد سابق وزیر اعظم اور ن لیگ کے قائد نواز شریف نے اعلان کیا کہ پارٹی عمران خان کو گھر بھجوانے کے لیے قدم بڑھائے گی تو دوسری جانب سابق صدر اور شریک چیئرمین پیپلز پارٹی آصف زرداری نے حکومتی اتحادی ق لیگ کی قیادت سے ملاقات کی ہے۔

ادھر حکومت ہٹانے کے اعلانات پر حکومتی وزرا کی جانب سے کہا گیا کہ ایسی کوششیں پہلے بھی کی جا چکی ہیں۔ لیکن اس بار حکومت کی جانب سے یہ اعلان بھی کیا گیا کہ سیاسی حکمت عملی کے تحت عوامی رابطہ مہم کا آغاز کیا جا رہا ہے جس کے دوران بڑے اجتماعات منعقد کیے جائیں گے جن سے وزیر اعظم خود خطاب کریں گے۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کی جانب سے حکومت ختم کرنے کے اعلانات کے باوجود ابھی تک اُن کی حکمت عملی کچھ خاص واضح نہیں ہے۔

’سب متفق ہیں کہ حکومت کو جانا ہو گا‘

گذشتہ روز ن لیگ کی سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کے اجلاس کے بعد لندن میں نواز شریف نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ’فیصلہ کیا جا چکا ہے کہ وزیر اعظم کو گھر بھیجا جائے۔‘

اُن کا کہنا تھا کہ ’بات بہت سادہ ہے۔ پاکستان کا اس وقت عمران خان نے جو حال کر دیا ہے، غریبوں کے بچوں کو بھوکوں مار دیا ہے، لوگوں کو روٹی سے ترسا دیا ہے اور پاکستان کو تماشہ بنا دیا ہے پوری دنیا میں، اس وقت پاکستان کو کرپٹ ترین ملک قرار دیا گیا ہے۔ آپ مجھے بتائیں کہ ایسے حالات میں کون پاکستانی ہے جو عمران خان سے نجات حاصل نہیں کرنا چاہتا۔‘

نواز شریف کا مزید کہنا تھا کہ ’آج ہونے والے مسلم لیگ ن کی سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ مسلم لیگ ن اس ظالم حکمران سے نجات دلانے کے لیے قدم بڑھائے گی اور یہ عین وقت کی ضرورت ہے اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس سے بڑھ کر اس وقت پاکستان میں کسی کام کی اہمیت نہیں ہے۔ سب سے ضروری کام اگر ہے تو وہ یہی ہے کہ ایسے حمکران سے عوام کو نجات دلائی جائے۔‘

’قوم عمران خان کے ساتھ ہے‘

چوہدری

وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے ن لیگ کی سینڑل کمیٹی کے اجلاس کے اعلامیے پر رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ ’آپ ایک تحریک چھوڑ، دس لائیں لیکن لوٹے ہوئے پیسے کا بتانا ہوا گا کہ یہ کب، کہاں اور کیسے آئے۔ زرداری بھی دوڑ لگا لیں اور میاں جی بھی کسی طور بھی پیسے معاف نہیں ہونے، قوم کا پیسہ ہے قومی خزانے میں جائے گا۔۔ پوری قوم عمران خان کے ساتھ کھڑی ہے اور ساتھ رہے گی۔‘

حکومتی وزرا کی جانب اپوزیشن پر جوابی وار اپنی جگہ لیکن حکومت اس بار کس حد تک مطمئن ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وزیر اعظم نے بھی بڑے عوامی اجتماعات کا اعلان کر دیا ہے اگرچہ حکومتی ترجمان کا یہ کہنا ہے کہ یہ اجتماعات خیبرپختونخوا اور پنجاب میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے تناظر میں ہوں گے۔

وفاقی وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات فرخ حبیب نے گذشتہ روز ایک پریس کانفرس میں بتایا کہ ’ایک پلان بن رہا ہے جس کے تحت وزیر اعظم پورے ملک میں بڑے بڑے عوامی اجتماعات سے خطاب کریں گے۔ حکومت کی کارکردگی اور ترجیحات براہ راست عوام کے ساتھ شیئر کی جائیں گی۔ یہ ہماری سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہے جس کے دوران وزیر اعظم خود عوام کے درمیان موجود ہوں گے۔‘

یہ بھی پڑھیے

بے خودی بے سبب نہیں غالب: عاصمہ شیرازی کا کالم

وزیر اعظم عمران خان ’مائنس ون‘ کا ذکر خود ہی کیوں کر رہے ہیں؟

دنیا سے موازنہ صرف تیل کی قیمت کا ہی کیوں، قوتِ خرید اور مہنگائی کا کیوں نہیں؟

حکومت کے خلاف اپوزیشن کی فیصلہ کن تحریک؟

ماضی میں حزب اختلاف کی جماعتوں نے متعدد بار حکومت مخالف تحریک شروع کرنے کے لیے سر جوڑے ہیں مگر اس کے خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں ہو سکے اور یوں ہر بار حکومت مخالف تحریک پر اتفاق، اختلاف میں بدلتا رہا۔ اور یہ اختلافات اس نہج پر پہنچے کہ اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ بھی متحد نہیں رہ سکا، جسے پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی نے خیر آباد کہہ دیا۔

بی بی سی نے حالیہ حکومت مخالف تحریک پر حزب اختلاف کے اتفاق سے متعلق پاکستان مسلم لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماؤں سے تفصیل سے بات کی ہے۔

پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی قیادت کے درمیان ہونے اجلاس میں شریک پنجاب اسمبلی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے پارلیمانی رہنما حسن مرتضیٰ نے بی بی سی کو بتایا کہ پیپلز پارٹی کی قیادت لاہور میں مسلم لیگ کی قیادت کے سامنے یہ تجویز لے کر گئی تھی کہ حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی جائے، جس سے نہ صرف لیگی قیادت نے اتفاق کیا ہے بلکہ شہباز شریف نے یہ وضاحت بھی دی ہے کہ پیپلز پارٹی کا مؤقف تو شروع دن سے ہی واضح تھا مگر مسلم لیگ ن میں حکومت کو گھر بھیجنے سے متعلق دو آرا پائی جاتی تھیں۔

تحریک عدم اعتماد سے متعلق بات کرتے ہوئے حسن مرتضیٰ نے کہا کہ اب ہم بہت پُرامید ہیں۔ اُن کے مطابق حکومت عددی، قانونی، سیاسی اور اخلاقی جواز کھو بیٹھی ہے۔

پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن، تعلقات میں بہتری؟

سابق وزیر اعظم نواز شریف اور مسلم لیگ کی صدر مریم نواز کے ترجمان محمد زبیر نے بی بی سی کو اس بات کی تصدیق کی کہ شہباز شریف نے یہ واضح الفاظ میں بیان کیا ہے کہ مسلم لیگ میں پہلے دو رائے پائی جاتی تھیں مگر اب ایسا نہیں ہے۔ ان کے مطابق اب ’پکا ارادہ ہے کہ حکومت وقت سے پہلے جائے۔‘

خیال رہے کہ قائد حزب اختلاف شہباز شریف سے جب پیر کو صحافیوں نے سوال کیا کہ کیا حکومت اب گھر چلی جائے گی تو ان کا جواب تھا ’یہ تو اب اللہ کو معلوم ہے لیکن ہماری اپنی پوری کوشش ہو گی۔‘

لاہور میں ہونے والے اجلاس پر تبصرہ کرتے ہوئے محمد زبیر کا کہنا تھا کہ وہ اجلاس تو دنیا کو دکھانے کے لیے تھا تاہم دونوں جماعتوں کی قیادت کے درمیان برف اجلاس سے پہلے ہی پگھل چکی تھی۔

حزب اختلاف کی دونوں جماعتوں میں ماضی میں پیدا ہونے والے اختلافات پر بات کرتے ہوئے محمد زبیر کا کہنا تھا کہ ہم تجربات سے سیکھتے ہیں، صرف سیاست ہی نہیں مگر ہر شعبے میں تجربات سکھاتے ہیں۔ محمد زبیر کے مطابق ’پی پی پی اور پی ایم ایل این دو مختلف سیاسی جماعتیں ہیں اور دونوں کے ایک دوسرے سے (سیاست میں) مختلف تجربات ہیں۔‘

’ہو سکتا ہے عمران خان خود ہی اسمبلیاں تحلیل کر دیں‘

نواز شریف کے ترجمان کے مطابق اب دونوں جماعتیں یہ سمجھتی ہیں کہ اگر حکومت کو گھر نہ بھیجا گیا تو پھر عوام بھی ملک میں مہنگائی اور انتہائی خراب معاشی صورتحال کا انھیں ذمہ دار ٹھہرائے گی۔ ان کے مطابق اب حکومت کو زیادہ وقت نہیں دیا سکتا۔ ان کے مطابق حکومت کو گھر بھیجنے والے امور پر دونوں جماعتوں میں مکمل اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔

انھوں نے واضح کیا کہ شہباز شریف نے اجلاس میں یہ کہا ہے کہ حکومت کو گھر بھیجنے کے لیے ہر سیاسی اور قانونی راستہ اختیار کیا جائے گا۔

نواز شریف کے ترجمان محمد زبیر کا کہنا ہے کہ یہ ممکن ہے کہ وزیر اعظم عمران خان خراب معاشی صورتحال کے پیش نظر خود ہی اسمبلیاں تحلیل کر دیں اور پھر عوام سے کہیں کہ وہ مافیا کے خلاف اپنی جنگ لڑنا چاہتے ہیں اور اس مقصد کے لیے انھیں بھاری مینڈیٹ درکار ہے۔

یہ بھی پڑھیے

حکومت بمقابلہ اپوزیشن: ’انشا اللہ بہتر ہو گا‘

اپوزیشن سینیٹ چیئرمین کو کیوں ہٹانا چاہتی ہے؟

’مہنگائی پر اپوزیشن جماعتوں کا حکومت کے خلاف بیانیہ بکے گا‘

کیا حکومتی اتحادی اپوزیشن کا ساتھ دے سکتے ہیں؟

اپوزیشن

اس پیشرفت پر تبصرہ کرتے ہوئے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ حزب اختلاف کی جماعتوں میں تحریک عدم اعتماد پر تو اتفاق ضرور ہو گیا ہے مگر ابھی اس کے طریقہ کار کی وضاحت آنا باقی ہے۔

ان کے مطابق لاہور میں پانچ فروری کو ہونے والی ملاقات میں مسلم لیگ نے تحریک عدم اعتماد پر پی ڈی ایم کی دیگر جماعتوں کو جبکہ پیپلز پارٹی نے عوامی نیشنل پارٹی اور ق لیگ کو اعتماد میں لینے کا فیصلہ کیا ہے۔

پیپلز پارٹی کے حسن مرتضیٰ نے اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ ن نے ہماری تجویز پر پی ڈی ایم کی قیادت کو بھی اعتماد میں لینے سے متعلق ایک ہفتے کا وقت مانگا ہے۔

محمد زبیر نے یہ واضح کیا ہے کہ وہ بلوچستان عوامی پارٹی کی حمایت میں دلچسپی نہیں رکھتے کیونکہ وہ کسی اور کے اشاروں پر چلتے ہیں اور اس سے آگے چل کر مسائل ہی پیدا ہوں گے۔

دوسری جانب بلوچستان عوامی پارٹی کے ترجمان عبدالرحمان کھیتران نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ اُن کے وفاقی حکومت سے اختلافات ضرور ہیں مگر ابھی وہ انتہائی اقدام پر غور نہیں کر رہے ہیں اور نہ اپوزیشن سے ہاتھ ملانے جا رہے ہیں۔

ان کے مطابق اس وقت ان کی پارٹی کے پانچ ایم این اے، 12 سینیٹرز اور 24 ایم پی اے ہیں مگر زبیدہ جلال کے علاوہ ان کی وفاقی کابینہ میں کوئی نمائندگی نہیں ہے۔ خیال رہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی کے جس اجلاس میں وفاقی حکومت پر تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے اس میں خود وزیر اعلیٰ بلوچستان میر حاصل بزنجو اور چیئرمین سینٹ بھی شریک تھے۔

محمد زبیر کے خیال میں اس وقت بلوچستان میں جس طرح حکومت چلائی جا رہی ہے وہ پاکستان کے اپنے جمہوری معیار پر بھی پورا نہیں اترتی۔

تاہم ایم کیو ایم کے رہنما اسامہ قادری نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی جماعت کے پانچ بڑے مطالبات تھے، جن میں سے ایک ان کے سیل شدہ سیاسی دفاتر کو کھول کر انھیں بھی کسی بھی سیاسی جماعت کی طرح سیاست کرنے کی اجازت دی جائے مگر ابھی تک ایسا نہیں ہو سکا۔

ان کے مطابق ان کی جماعت نہ صرف اپوزیشن جماعتوں سے رابطے رکھے ہوئے ہے اور رابطہ کمیٹی جمہوری عمل کو جاری رکھنے کے لیے اپوزیشن سے ہاتھ ملانے سے متعلق بھی فیصلہ کر سکتی ہے۔

حسن مرتضیٰ کے مطابق حکومت کے اندر بھی ایسے اراکین کی بڑی تعداد موجود ہے جو اپوزیشن سے ہاتھ ملانا چاہتی ہے مگر جب وہ اپوزیشن میں تقسیم دیکھتی ہے تو پھر وہ پرانی تنخواہ پر کام پر راضی ہو جاتی ہے۔

سہیل وڑائچ کے مطابق اگر یہ تحریک عدم اعتماد کامیاب نہ بھی ہو سکی تو حکومت کو اس تحریک سے سخت نقصان پہنچے گا۔ ان کے مطابق جب سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئی تو وہ تحریک ناکام ضرور ہوئی تھی مگر اس کے بعد پیپلز پارٹی انتخابات میں شکست کھا گئی تھی۔

سینیئر صحافی مظہر عباس نے اپنے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ مسلم لیگ ن مں سب اچھا نہیں ہے۔ اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے پیپلزپارٹی کی قیادت سے ملاقات پر اپنی ناراضگی کا اظہار پیپلز پارٹی پر تنقید کرتے ہوئے کیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32287 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments