آج سوچا تو آنسو بھر آئے۔ لتا جی سے بعد از وفات تصوراتی انٹرویو


 

لتا دیدی بچھڑ گئیں؟ کروڑوں دلوں کی آواز ان دلوں سے جدا ہو گئی؟ ان کروڑوں دلوں میں ایک معمولی اور خستہ دل میرا بھی ہے، جن کے لئے یہ خبر اب بھی ناقابل یقین ہے۔ یہ معمولی ذہن بھی ان اذہان میں سے ایک ہے، جس کی وادیوں کے کونے کونے سے لتا دیدی کے ہزاروں گیتوں جی بازگشت گونج رہی ہے اور تا دم آخر گونجتی رہے گی۔ اور اس کے بعد والی حیات میں بھی اگر اسی ذہن کا ڈیٹا ’ریسٹور‘ ہو کر ملا، تو تب بھی۔

گو کہ لتا جی ایک عرصے سے نہیں گا رہی تھیں، مگر جس طرح گھروں میں ہمارے بزرگ کوئی بھی کام نہ کرتے ہوں، اور بس ایک کونے میں بیٹھے رہتے ہوں، مگر پھر بھی ان کی موجودگی گھر کے باقی افراد کی روح کو سرشار کرتی ہے، اسی طرح پچھلے کافی عرصے سے ناں گانے کے باوجود لتا منگیشکر جی کا ہونا ہی بڑی بات تھا، جو ’بڑی بات‘ اب نہیں رہی۔

لتا جی کی وفات سے لے کر اب تک شعوری کوشش کے باوجود ان کے حوالے سے جو کچھ محسوس کر رہا ہوں، اس کا ایک حرف بھی لکھ نہیں پایا۔ گزشتہ شب، جدائی کی تیسری رات تھی۔ کانوں میں ہیڈ فونز لگائے ان کے مختلف گیت سن رہا تھا۔ سنتے سنتے کب آنکھ لگ گئی اور کب میں نیند کی وادی میں کھو گیا، پتا ہی نہیں چلا۔ آدھی نیند آدھی بیداری میں نیم محسوسگی کی سی کیفیت میں لگا، کہ سماعت میں پڑنے والی آواز میں۔ نہ جانے دور ذہن کی وادیوں میں۔ اس نغمے کی بازگشت گونجنے لگی: ”آج سوچا تو آنسو بھر آئے۔ مدتیں ہو گئیں مسکرائے۔“

اسی اثناء میں اپنی دونوں بند آنکھوں کے کناروں کو چیرتا ہوا ایک ایک آنسو نکلتا ہوا محسوس ہوا۔

اس نیم خوابیدہ اور نیم خیال کی کیفیت میں، کسی بدلی یا دھویں کے پردے میں لپٹی، لتا دی کی صورت نظر آئی، گویا ان کی روبرو، دوبدو موجودگی کا احساس ہوا۔ جو مسکراتے ہوئے مجھے دیکھ رہی تھیں اور یوں لگا کہ جیسے چپ چپ میں مجھ سے اس افسردگی کی وجہ پوچھ رہی تھیں۔

میں نے اسی خواب و خیال کی کیفیت میں لتا دیدی سے بات کرنا شروع کی اور گستاخی کے ڈر کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے، ان سے سوال در سوال کرتا گیا۔ گویا اپنا غم غلط کرنے کی کوشش میں جٹ گیا۔ وہ کم و بیش ہر سوال کا جواب گا کر اپنے کسی نہ کسی گیت، نغمے یا غزل کی صورت میں دیتی رہیں۔

سوچا، یہ دلچسپ سوال و جواب پر مشتمل گفتگو آپ سب کے ساتھ بھی شیئر کرتا چلوں۔

سوال: پیاری دیدی، آپ کیوں ایسے اچانک چلی گئیں؟
لتا: زندگی پیار کا گیت ہے، جسے ہر دل کو گانا پڑے گا۔
زندگی غم کا ساگر بھی ہے، ہنس کے اس پار جانا پڑے گا۔

سوال: لتا جی، آپ کے کروڑوں مداح آپ کی وفات پر غم سے نڈھال ہیں اور انہیں ابھی تک آپ کے جدا ہونے کا یقین نہیں آ رہا۔

لتا: ان سے کہو:
پردیسیوں سے ناں اکھیاں ملانا
پردیسیوں کو ہے اک دن جانا

سوال: لتا صاحبہ، اس قدر طویل دشت کی سیاحی اور جینے کی مشقت کے بعد ، کیا سمجھ پائی ہیں کہ زندگی کیا ہے؟

لتا: اک پیار کا نغمہ ہے۔
موجوں کی روانی ہے۔
زندگی اور کچھ بھی نہیں۔
تیری میری کہانی ہے۔
سوال: آسان الفاظ میں کہیے، کہ جیون کا خلاصہ کیسے کریں گی؟ لتا: بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
سوال: لتا جی، آپ کا جیون کیسے گزرا؟
لتا: ہر ایک جیون ہے اک کہانی، پر یہ سچائی سب نے نہ جانی
جو پانا ہے وہ کھونا ہے، اس پل ہنسنا، کل رونا ہے۔
سوال: آپ اپنی زندگی سے خوش تو ہیں ناں؟
لتا: جینے کے لئے سوچا ہی نہیں، درد سنبھالنے ہوں گے ۔
مسکرائیں تو، مسکرانے کے قرض اتارنے ہوں گے ۔
مسکراؤں کبھی۔ تو لگتا ہے، جیسے ہونٹوں پہ قرض رکھا ہے۔
تجھ سے ناراض نہیں زندگی! حیران ہوں میں
سوال: دیدی، آخری دنوں میں آپ کی ہسپتال میں دیکھ بھال تو ٹھیک سے ہوئی تھی ناں؟
لتا: رکے رکے سے قدم رک کے بار بار چلے
قرار لے کے ترے در سے بیقرار چلے۔

سوال: دیدی، اس بات کا ایمان ہوتے ہوئے بھی، کہ ہر پیدا ہونے والے کو ایک نہ ایک دن جانا ہے، دل کرتا ہے کہ آپ جیسے لوگ، جو انسانوں کے لئے اللہ پاک کا خاص انعام ہوا کرتے ہیں، وہ کچھ زیادہ جیئیں تو اچھا۔ ان کے جانے کا افسوس تا عمر رہتا ہے۔

لتا: اس جیون کی یہی ہے کہانی
آنی جانی یہ دنیا، جیسے دریا کا پانی۔

سوال: دیدی، دنیا میں ہر کوئی فنا کے اصول کے تحت ہی آتا ہے۔ اور ظاہری طور پر ہر کسی کو ایک نہ ایک دن جانا ہی ہوتا ہے۔ اس عارضی زندگی کے اختتام پر آپ نے زندگی کو کیسا پایا؟ کیسی ہے یہ؟ لتا: عجیب داستاں ہے یہ۔

کہاں شروع، کہاں ختم!
یہ منزلیں ہیں کون سی۔
نہ وہ سمجھ سکے، نہ ہم۔

سوال: زندگی، انسان کو کتنی اہمیت دیتی ہے؟
لتا: ہم ہیں متاع کوچہ و بازار کی طرح
اٹھتی ہے ہر نگاہ خریدار کی طرح

سوال: دیدی، سورگ میں جاتے ہی آپ کا استقبال کس کس نے کیا؟
لتا: میرے سب پیاروں نے۔ میرے پتا جی، دینا ناتھ منگیشکر سے لیکر، ماسٹر غلام حیدر تک۔ استاد بڑے غلام علی خاں سے لیکر، سلامت علی برکت علی تک۔ گوہر جان سے لیکر، زہرہ بائی انبالے والی تک۔ شمشاد بیگم سے لیکر، دادا منی (اشوک کمار) اور ہیمنت کمار تک۔ ماسٹر مدن سے لے کر طلعت محمود تک، کندن لعل سہگل سے لے کر گیتا دت، مدھو بالا اور اوما دیوی (ٹن ٹن) تک۔ میرے قابل احترام محمد رفیع صاحب سے لیکر، میرے پیارے کشور دا تک۔ میری استاد نماں سینیئر ملکۂ ترنم نورجہاں سے لیکر، مہدی حسن تک۔

بڑے برمن (سچن دا) سے لیکر، چھوٹے برمن پنچم تک۔ میرے بڑے بھیا یوسف خان (دلیپ کمار) سے لیکر، میرے مدن بھیا (مدن موہن) تک۔ شنکر اور جے کشن سے لیکر، لکشمی کانت تک۔ نوشاد صاحب سے لیکر، ساحر لدھیانوی، کیفے اعظمی، مجروح سلطانپوری جی اور حسرت جۂ پوری جی تک۔ مکیش سے، مناڈے تک۔ استاد نصرت فتح علی خان سے لیکر، گرو دت، دیو آنند، راج کپور، سنیل دت، نرگس جی، راجیش کھنا، محمود، رشی کپور، ششی کپور، شمی کپور تک، محمد عزیز سے ایس۔ پی۔ بالا سبریمینیم تک۔ جگجیت جی سے لے کے مہندر کپور تک۔ تمام کے تمام میرے اپنے، سورگ میں ہمارے منتظر تھے اور سب نے پھول پاشی کر کے وہاں محبت سے ہمارا سواگت کیا۔ ہمیں بہت اچھا لگا۔

سوال: واہ واہ۔
وہاں پہنچ کر اس قدر حسین استقبال پر آپ کا دل بے اختیار کیا بول اٹھا؟

لتا: اس سے پہلے کہ میں کچھ بولتی یا کہتی، میرے شرارتی کشور دا نے ہمارا گایا ہوا وہ حسین دوگانا گنگنانا شروع کر دیا، جو پنچم نے کمپوز کیا تھا، گویا وہ ہم سب کے دل کی اس وقت ترجمانی کر رہا تھا۔ پھر میں بھی ان کے ساتھ وہی گانا گانا شروع ہو گئی۔ جس میں پھر سب شامل ہو گئے۔

سوال: کون سا تھا وہ گانا؟
لتا: ہم تم سے ملے۔ پھر جدا ہو گئے۔
دیکھو پھر مل گئے۔ اب ہو کے جدا،
پھر ملیں ناں ملیں، کیوں نہ ایسا کریں،
مل جائیں چلو! ہم سدا کے لئے

سوال: اس قدر کامیاب زندگی۔ اس قدر کامیاب کیریئر۔ کیا آپ کو بھی اپنے مقدر سے کوئی شکایت ہے؟ کیا آپ کو بھی اپنی زندگی سے کوئی ’ریگریٹ‘ ہے؟

لتا: ادھورا ہوں میں افسانہ۔
جو یاد آؤں، چلے آنا۔
میرا جو حال ہے تم بن،
وہ آ کر دیکھتے جانا۔
بھیگی بھیگی پلکیں۔
چھم چھم آنسو برسیں۔
کھوئی کھوئی آنکھیں ہیں اداس۔

سوال: آپ کو کیسا لگتا ہے؟ جب آپ کے گائے ہوئے نغمے لاکھوں دل گدگداتے ہیں اور آپ کے المیہ گیت، اشکوں کو بہنے کا راستہ دیتے ہیں؟

لتا: جو ہم نے داستاں اپنی سنائی، آپ کیوں روئے؟
تباہی تو ہمارے دل پہ آئی، آپ کیوں روئے؟

سوال: زندگی میں کئی ایک جگہ پر ’کمپرومائیز‘ بھی کرنا پڑا ہو گا دیدی؟
لتا: تیرے لئے۔ ہم ہیں جیے۔ ہر آنسو پیئے۔
دل میں مگر۔ جلتے رہے۔ چاہت کے دیے۔

سوال: زندگی میں جب جب درد کی شدت بڑھتی تھی، تو آپ کس بات پر عمل کرتی تھیں؟
لتا: سمجھوتا غموں سے کر لو۔
زندگی میں غم بھی ملتے ہیں۔
پت جھڑ آتے ہی رہتے ہیں۔
یہ مدھوبن پھر بھی کھلتے ہیں۔

سوال: اور اگر امید کی آس پہ نا امیدی در نا امیدی ملے تو پھر؟ لتا: ریت کے نیچے جل کی دھارا۔
ہر ساگر کا یہاں کنارا۔
راتوں کے آنچل میں چھپا ہے سورج پیارا۔

سوال: آپ نے زندگی بھر کسی کی کمی محسوس نہیں کی؟ آپ نے سب کچھ پا کر بھی اپنے آپ کو کبھی اکیلا محسوس نہیں کیا؟

لتا: یوں حسرتوں کے داغ محبت میں دھو لیے!
خود دل سے دل کی بات کہی، او رو لیے!

سوال: بچپن کی کوئی ایسی یاد؟ جو آپ کو عمر بھر ستاتی رہی؟
لتا: بات پرانی ہے۔
ایک کہانی ہے۔
اب سوچوں، تمہیں یاد نہیں ہے۔
اب سوچوں نہیں بھولے۔ وہ ساون کے جھولے۔
رت آئے، رت جائے دے کر جھوٹا ایک دلاسا۔

سوال: زندگی بحیثیت مجموعی مسکراہٹوں سے بنی ہے؟ یا آنسوؤں سے؟
لتا: آج سوچا تو آنسو بھر آئے
مدتیں ہو گئیں مسکرائے
ہر قدم پر ادھر مڑ کے دیکھا
ان کی محفل سے ہم اٹھ تو آئے

سوال: زندگی کا کوئی ایسا عکس یا نقش، جو اب آپ کو شدت سے آتا ہو؟
لتا: اب اور نہ کچھ بھی یاد رہا
نا اپنی جفا، نا تیری وفا

سوال: اب آپ کو سدا حیات رہنے والی زندگی ملی ہے۔ اپنے فن کی صورت اس جہاں میں بھی اور اس جہاں میں بھی۔ آپ نے وہاں بھی ہمیشہ جینا ہے۔ تو کیا وہاں بھی سنگیت ہی آپ کا عشق رہے گا؟

لتا: ہم تم یگ یگ سے یہ گیت ملن کے،
گاتے رہے ہیں۔ گاتے رہیں گے۔

سوال: کوئی ایسی شدید ترین خواہش، جو پوری زندگی جینے کے بعد بھی باقی رہ گئی ہو؟
لتا: دل تو ہے دل، دل کا اعتبار کیا کیجئے!

سوال: زندگی کے اختتام پر آپ کیا دعا کریں گی؟
لتا: درد سے میرا دامن بھر دے، یا اللہ!
پھر چاہے دیوانہ کر دے، یا اللہ!

سوال: آپ کا اپنے ان انگنت مداحوں کے لئے کیا پیغام ہے؟ جو آپ کے بچھڑنے پر بہت افسردہ ہیں؟
لتا: نام گم جائے گا
چہرہ یہ بدل جائے گا
میری آواز ہی پہچان ہے۔
گر یاد رہے۔

یاسر: شکریہ پیاری دیدی!
لتا: دھنیواد!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments