وعدوں کی کیل اور خواہشوں کا سر!


ساری قوم اس بات پہ حیران و ششدر ہے کہ کیا کوئی انسان۔ ایک جیتا جاگتا بالغ انسان۔ اپنی کسی خواہش کی تکمیل کے لیے جہالت کی اس حد کو بھی چھو سکتا ہے کہ اپنے سر میں کیل ٹھونکنے یا ٹھکوانے پہ راضی ہو جائے؟

یعنی اعتبار و اعتماد کی اس حد تک جائے کہ بقول آتش،
سر تسلیم خم ہے جو مزاج یار میں آئے!
چاہے مزاج پیر سر میں کیل ہی کیوں نہ ٹھونک دے۔ ہے نا حیرانی کی بات!

لیکن ٹھہریے اتنا حیران ہونے کی ضرورت بھی نہیں۔ کیا ہم سب اپنی اپنی خواہشات کے نازک سروں میں تکمیل کے وعدوں کی کیلیں ٹھکوانے کو ہمہ وقت تیار نہیں رہتے؟ ان پیران سوداگراں کے ہاتھوں جو ہمارے بہتر خوابوں کے وعدوں کی کیلیں اور تعبیر کی ہتھوڑیاں اٹھائے گلی گلی آواز دیتے پھرتے ہیں کہ

کیل ٹھکوا لو، کیل! اور ہم اپنے اپنے سروں میں لگی خواہشات کی اینٹیں اٹھائے بازار میں نکل آتے ہیں کہ حاضر جناب! موجود حضور! حکم سائیں!

یہ خوش نما کیل، کہیں معاشی ترقی کے رنگا رنگ خوابوں کے نام پر تو کہیں روحانی سکون کے دلکش پیکٹ دکھا کر ہمیں ورغلاتے ہیں بلکہ شاید ہم خود ورغلائے جانے کو بے تاب پھر رہے ہوتے ہیں کہ

چور نالوں پنڈ کاہلی! (چور سے زیادہ گٹھڑی کو جلدی ہے)۔

خوابوں اور خواہشوں کے تمام سر تو ہمارے ہی ہیں لیکن رنگا رنگ وعدوں کے دلکش کیل ٹھونکنے کی ہتھوڑیاں جن ہاتھوں میں ہیں ہم انہیں بخوشی یہ بار مشقت اٹھانے کی اجازت کیا سوچ کر دیتے ہیں؟

لیکن یہاں یہ سوال ہی غلط، فضول اور بے معنی ہے کہ اجازت کیا سوچ کر دیتے ہیں۔ لو دسو۔ بھلا سوچ کا یہاں کیا کام؟ جس گروہ کو۔ چلیے آپ اسے قوم کہہ لیجیے۔ مدتوں سے یہ سکھایا جا رہا ہو بلکہ سدھایا جا چکا ہو کہ اندھی تقلید ہی ایسی منزل پہ لے جا سکتی ہے جو منزل آخر ہے تو پھر عقل کی آنکھیں بند کر کے جہالت کا طوق پہننے پہ حیرانی کیسی؟

کیا کوئی ایک بھیڑ آگے والے ریوڑ کے فعل سے رو گردانی کر سکتی ہے؟
انفرادی فعل جب اس حد تک پھیل جائے کہ اکثریت اسے بخوشی اپنا لے تو وہ قومی مزاج بن جاتا ہے۔

رہ گئے اکثریت سے خارج اقلیتی دانش ور، تو وہ یا تو اپنے اپنے خوف کے دائروں سے باہر آنے کو تیار نہیں یا پھر چاہتے ہی نہیں کہ عقل کی خاص بات عام لوگوں تک پہنچانے کی سعی لا حاصل میں وقت اور توانائی ضائع کریں، میاں محمد بخش انہیں بس یہیں یاد آتے ہیں۔

اب صورت حال یہ ہے کہ اجتماعی مزاج کی ماری سر نیاز خم کیے جھکی ہوئی قوم کے سر میں بھی بظاہر بہتری کی دلفریب کیلیں تواتر سے ٹھوکی جا رہی ہیں بلکہ ٹھوکی جا چکی ہیں۔

کبھی بڑی بڑی کمپنیاں اپنے اپنے خوش نما پیکنگ والے پراڈکٹ کی کیلیں لاتی ہیں اور اس ہتھوڑے سے ہمارے سروں میں ٹھونکتی ہیں کہ جو کچھ آپ مقامی طور پہ اوڑھ پہن اور کھا رہے ہیں سب غلط، غیر صحت مند اور ناقص ہے جبکہ ہماری کیلیں حفظان صحت کے عین اصولوں کے تحت تیار کی گئی ہیں۔

اب چاہے ان پراسیسڈ کیلوں میں کینسر پھیلانے کی صلاحیت ہو بھلے کاربونیٹڈ مشروبات کی بوتلوں میں زہر بھرا ہو، ہمیں سوچنے کی فرصت کہاں؟ سو کھاؤ پؤ اور وقتی عیش کرو کہ بقول بابر بادشاہ،

عالم دوبارہ نیست!

کہیں مختلف درآمد شدہ عقائد کی کیلیں ہیں جو ہم سب سے زیادہ عقیدت بھرے شوق سے سروں میں ٹھکواتے ہیں اور تفاخر سے لیے پھرتے ہیں۔

اکثر تو ٹھکی ٹھکائی لیے پیدا ہوتے ہیں، اور معاشرے کے باغوں میں ایسے ہی مطمئن اور خوش خوش پھرتے ہیں۔
باغ میں پھرتے ہیں کیا خوش خوش چکور!
صدیوں پہلے کی کہانیوں پہ تحقیق کرنے اور سر کھپانے کی فرصت کسے؟

اور ضرورت بھی کیا ہے؟ اس سے بہت آسان اور کار سہل یہ نہیں کہ اندھا دھند تقلید کی کیلیں لیے پھرتے رہیں؟

اولاد نرینہ یعنی بیٹے کی خواہش مند ایک عورت کے سر میں پیر صاحب کی مبارک ہتھوڑی سے ٹھونکی گئی مقدس کیل تو اس ایکسرے مشین نے ظاہر کر دی جس کے ایکس ریز کو جرمن سائنس دان Wilhelm Conrad Röntgen

نے 1895 میں اپنی لیبارٹری میں دریافت کیا تھا اور جس کے استعمال کے لیے ایکس رے مشین ایجاد ہوئی تھی۔ اور اب 2022 میں ایک ماہر پاکستانی سرجن کے ہنر مند ہاتھوں نے وہ کیل نکال باہر پھینکی اور بیٹے کی خواہش مند بے قرار ماں کے سر کو قرار بخشا۔ لیکن۔ وہ ماہر سرجن کب آئے گا جو سمجھ داری کے آپریشن سے قوم کے سر سے وہ کیلیں نکال دے جو کچھ ایسی ان دیکھی بھی نہیں اور جن کو دریافت کرنے کے لیے کسی ایکسرے مشین کی بھی ضرورت نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments