شطرنج کے کھلاڑی اور تاریخ کا سیاہ و سفید


کیا یہ ممکن ہے کہ
قوت سماعت ہوتے ہوئے بھی، سنا نہ جا سکے؟
کیا یہ بھی ممکن ہے کہ
بصارت ہوتے ہوئے بھی، دکھائی نہ دے؟
اور کیا یہ بھی ممکن ہے کہ
فہم و فراست ہوتے ہوئے بھی (کچھ) سجھائی نہ دے۔

ان سوالات کے حوالے سے، یہ بخوبی فرض کیا جا سکتا ہے کہ ایک عام ( سادہ ) آدمی کا جواب، عام طور پر نفی میں ہو کہ یہ باتیں سننے، سمجھنے اور جاننے میں اس قدر متضاد دکھائی دیتی ہیں کہ ان کا ایسے وقوع پذیر ہونا، بعید از عقل لگتا ہے، مگر یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ان سوالات کے بارے میں ایک تاریخ دان، ایک دانش ور اور ایک تجزیہ کار کی سوچ اس عام فہم ردعمل سے مختلف ہوگی اور وہ اس کی تائید پر آمادہ نظر آئیں گے۔

اب سوال یہ ابھرتا ہے کہ بہ ظاہر یہ ناممکن نظر آنے والی کیفیت اگر واقعی جگہ بنا سکتی ہے تو پھر سوال یہ بھی ہے کہ آخر ایسا کیوں کر ممکن ہے۔

درحقیقت تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ کسی بھی آزمائشی حالات سے نکلنے کے لئے عموماً ایک سے زیادہ راستے اور امکانات موجود ہوتے ہیں اور اس بات کا انحصار اس ساری صورت حال میں شامل، فیصلہ سازوں پر ہوتا ہے کہ وہ کس راستے یا کس امکان کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہی ان کی دانائی، معاملہ فہمی اور دوراندیشی کا امتحان کہا جاسکتا ہے کہ وہ کب، کہاں، کیسے، کیا اور کیوں کے مراحل طے کرتے ہوئے، کس نتیجے پر پہنچتے ہیں۔

یہ وہ موڑ ہے جو مسائل کے حل کی طرف بھی نشاندہی کرتا ہے اور یہی مقام، کسی بھی فکری مغالطے اور شعوری یا لا شعوری ذہنی الجھاؤ کے سبب منزل سے قریب لے جانے کی بجائے، مزید پیچیدگیوں، بے قاعدگیوں اور بھول بھلئیوں کا شکار ہونے کی وجہ بن سکتا ہے۔ گویا یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ معاشرے کی کسی بھی صورت حال میں بچھی ( یا بچھائی گئی ) بساط پر، چالوں کا انتخاب ہی درحقیقت کسی کھیل کی سمت کا تعین کرتا ہے اور بتدریج اسے منطقی انجام تک پہنچاتا ہے۔

مگر سوال پھر وہی ہے کہ، سماعت، بصارت اور فراست، کیوں وہ سب، سننے، دیکھنے اور سمجھنے سے قاصر ہوجاتی ہے جو تمام تر سچائیوں اور واقعیت کے ساتھ، وہاں حقیقتاً موجود ہوتی ہے۔

یہ سمجھنے کے لئے، یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ ہماری رائے، ہمارے نقطہ نظر اور ہمارے طرز فکر پر، شعوری اور لا شعوری طور پر جو چیز حاوی ہوتی ہے وہ ہمارے ذاتی یا گروہی اور فوری یا دوررس مفاد ہوتے ہیں۔ ( بلکہ اسے یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے مفاد ہی سے ہماری رائے، ہمارے نقطہ نظر اور ہمارے طرز فکر کی تشکیل ہوتی ہے ) ان سے بالا ہو کر سوچنا اور ان کو نظر انداز کرتے ہوئے حالات کو جانچنا اور اس کے مطابق، حقیقت پسندانہ نتیجہ اخذ کرنا، متوازن اور منطقی مزاج کا متقاضی ہے، گویا اس سطح تک پہنچنے کے لئے اپنی رائے، اپنے تجزیے اور اپنے فیصلوں کی مسلسل چھان پھٹک ناگزیر ہے۔

مفادات کی پیروی سے ہی وہ تضاد جنم لیتا ہے جو سماعت، بصارت اور فراست کو متاثر کرتا ہے اور ( صرف ) وہ ہی دیکھنے، سننے اور جاننے کی آرزو جڑ پکڑ لیتی ہے جس کی تہہ میں اپنی تسکین، اپنے من پسند منصوبوں، اور اپنے خود ساختہ خوابوں کی تکمیل کے اشارے ملتے ہوں، خواہ حقائق، دلائل اور موقع محل کی مشاورت اس کے برعکس یا اس سے الگ ہو۔

کھیل کا یہی وہ حصہ ہے جہاں کھلاڑیوں کی بیک وقت ذہانت، دیانت اور متانت کی آزمائش درپیش ہوتی ہے۔ ہر نئی چال اور ہر نئی پیش رفت سے پہلے یہ جاننے کی خواہش، دانش مندی ہے کہ بہ ظاہر، کی جانے والی پیش قدمی، کہیں ( جلد یا بہ دیر ) پسپائی کا پیش خیمہ تو نہیں۔ یہ سوال بھی پیش نظر ہونا چاہیے کہ محض، بازی جیت لینے کی تگ و دو، آخر کار، خانہ خرابی کا آغاز تو نہیں۔ مقابل کو مات دینے یا چاروں شانے چت کرنے کی تڑپ، کہیں ( اندرون خانہ ) انسان کش انا یا آدم خور نرگسیت کا شاخسانہ تو نہیں!

داناؤں کا مشورہ ہے کہ کھیل میں اگر پیادے، رخ، فیل اور اسپ، سبھی آپ کے ساتھ ہوں تب بھی احتیاط ( اور شعور ) لازم ہے کہ کوئی منظر نامہ، ہمیشہ کے لئے نہیں ہوتا مگر اس کے دوران چلی گئیں چالیں، اپنے اثرات اور نتائج کے ساتھ، حالات کو کسی بھی دھارے پر لے جانے کا سبب بن جاتی ہیں اور صرف یہی نہیں، تاریخ کے آگے بھی، ان کھلاڑیوں کے لئے اس معرکہ آرائی کی جواب دہی واجب ہے۔

شاید، یہی وہ مقام ہے جہاں یہ خوش فہمی اختیار کرنا مثبت طرز عمل ہو کہ اس دوران، سماعت، بصارت اور فراست کو پیش نظر رکھا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments