مودی کا سیکولر بھارت اور مسکان کی للکار


‏یہ سحر جو کبھی فردا ہے کبھی ہے امروز
نہیں معلوم کے ہوتی ہے کہاں سے پیدا
وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستان وجود
ہوتی ہے بندہ مؤمن کی اذان سے پیدا۔

بھارت جہاں مسلمانوں کے لئے خطرناک ملک ہے وہی پر ہندوں خواتین کے رہنے کے لئے بھی محفوظ ریاست نہی ہے۔ بھارت میں اس وقت مسلمان بچیوں کو حجاب کا مسئلہ درپیش ہے۔ بھارت میں حجاب کے بغیر کوئی خاتون یا طالبان اپنے آپ کو محفوظ نہی سمجھتی۔ دنیا میں جہاں خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی تشدد اور قتل کے واقعات رونما ہوتے ہیں وہیں پر بھارت بھی دنیا میں کسی سے پیچھے نہیں ہے۔ دنیا میں سیکولر اور نام نہاد جمہوری بھارت کا مکروہ چہرہ کسی سے بھی ڈھکا چھپا نہی ہے۔

سال 2018 میں 8 برس کی مسلمان بچی آصفہ کی عصمت دری کر کے اس کے سر کو پتھروں سے کچل کر ہلاک کر دیا گیا۔ سال 2012 ع میں بھارت کی دارالحکومت نئی دہلی میں ہندو انتہا پسندوں نے ایک طالبہ نربھیا کو چلتی ہوئی بس میں اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا اور اسے بدترین تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کر دیا۔ دہلی میں ایک 86 سالہ عورت کے ساتھ ریپ کا واقعہ پیش آیا۔ دنیا میں جگ ہنسی۔ مودی بھارت میں ایک ایمبولینس ڈرائیور نے 19 برس کورونا وائرس مبتلا مریضہ کو راستے میں ہی جنسی ہوس کا نشانہ بنایا۔ سال 2018 ع میں 6 سال کی بچی کے ساتھ جنسی زیادتی کر کے اس کی آنکھیں نکالی گئی۔ سیکولر بھارت میں 13 برس کی بچی کو جنسی تشدد کر کے قتل کر دیا گیا۔

”حجاب پہننا میرا حق ہے“ اللہ اکبر، اللہ اکبر، مکہ لہراتی ہوئی بچی مسکان تھی۔ جسے حجاب پہننے پر انتہاپسند ہندو نوجوانوں کا ایک گروہ گھیرا کر کے حجاب اتارنے یا کالج سے نکلنے کے لئے پریشرائز کر رہا تھا۔ یہ ویڈیو جیسے ہی وائرل ہوتی ہے۔ بھارت کیا پاکستان سمیت دنیا بھر میں اس کا سخت رد عمل دیکھنا کو ملا ہے۔ بھارتی ریاست کرناٹک میں حجاب کا تنازع کئی ہفتوں سے چل رہا ہے اور اب کالج کی طالبہ مسکان خان کی یہ وائرل ویڈیو زیر بحث ہے۔

”کرناٹک“ کا پرانا نام ”میسور“ ہے جہاں میسور کی ایک مسلم بیٹی نے اپنے عمل سے شیر میسور ٹیپو سلطان کا مشہور زمانہ مقولہ دہرایا کہ ”شیر کی ایک دن کی زندگی، گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔ مسکان کے نعرہ تکبیر کی کیا بات جس پر پوری دنیا کے مسلمانوں نے نہ صرف سراہا ہے بلکہ جواب بھی دیا ہے۔ علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے کیا خوب کہا ہے کہ

اک ولولہ تازہ دیا تو نے دلوں کو
لاہور سے تا خاک بخارا و سمرقند،

مسکان کا کہنا ہے کہ جیسے ہی وہ کالج پہنچی تو مجھے کہا گیا کہ برقعہ اتارو یا گھر واپس جاؤ، جس پر وہ گھبراہٹ کا شکار ہوئی جب انتہاپسند ہندو جئے شری رام کا نعرہ لگا کر آگے بڑھ رہے تھے تو انہوں نے اللہ اکبر کی صدا بلند کی۔ حقیقت کو دیکھا جائے تو جب سے نریندر مودی بھارت کے وزیر اعظم بنے ہیں تب سے بھارت میں انتہاپسندی عروج پر ہے۔ بھارت میں پہلے شیو سینا سمیت ایک دو انتہاپسند تنظیم ہوا کرتی تھی۔ جو اس قسم کی کارروائیاں کرتی تھی۔

انتہا پسند ہندو تنظیمیں مسلمانوں و دیگر اقلیتوں کو قتل کرنا تشدد کرنا جلاؤ گھیراؤ کر کے دباؤ میں لایا کرتی تھی۔ مگر نریندر مودی کے دوسری مرتبہ وزیراعظم بننے سے بھارت میں نہ صرف سیاسی جماعتوں میں انتہاپسندی نے عروج پایا ہے وہیں پر پڑھا لکھا طبقہ اساتذہ، طلبہ، پولیس بھی اسی کام پر لگی ہوئی ہے۔ دیکھا جائے تو بھارت میں ایسٹ انڈیا کمپنی برطانیہ کے قبضے سے قبل ساڑھے 9 سؤ سال تک مسلمانوں نے حکومت کی ہے۔

ہندوستان میں ہندو کی اکثریت ہونے کے باوجود مسلمان حکمرانوں نے حکومت کر کے برابری کے بنیاد پر لوگوں کو رلیف فراہم کیا۔ ایک صدی تک برطانیہ اور اس کی ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنے دور حکومت میں ہندو مسلم، سکھ عیسائی، میں نفرتیں پیدا کی گئی۔ جاتے جاتے ہوئے مسلمانوں میں فرقہ واریت کو تقویت دی گئی۔ آج دونوں اطراف بھارت اور پاکستان میں فرقہ واریت اور لسانیت کے پیچھے برطانوی سازش شامل ہے۔ بات ہو رہی تھی ٹیپو سلطان کی روحانی بیٹی مسکان کی، جس کے آج کل ساری دنیا میں چرچے ہو رہے ہیں۔

مسکان کو مسلمان فاتح ہند بہادری کے لقب سے پکار رہے ہیں جبکہ خواتین انہیں اپنی آزادی کی ہیروئن کے طور پر حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ جبکہ کچھ حلقوں نے تو مسکان کی بہادری جرات مندی پر بھارت کے مسخ شدہ سیکولر چہرے کو عیاں کیا ہے۔ مسکان کی بہادری پر بھارت میں جمعیت علماء ہند کی جانب سے مسکان کو پانچ لاکھ روپے نقد انعام کے طور پر دیا گیا ہے۔ بھارت میں جہاں حجاب اتارنے کے لئے پابندی عائد کر کے خواتین کو تعلیمی اداروں سے باہر کرنے کی سازش ہو رہی تھی، مسکان کی اللہ اکبر اللہ اکبر کے نعروں نے انتہاپسندی کے لئے بند باندھ دیا ہے۔ شاعر نے خوب کہا ہے کہ،

”مفاہمت نہ سکھا جبر ناروا سے مجھے
میں سربکف ہوں لڑا دے کسی بلا سے مجھے ”۔

بھارت میں حجاب پر پابندی عائد کرنے والے امکانی عمل اور مسکان کو ہراساں کرنے والے گھٹیا واقعہ کے خلاف بھارت کے مختلف شہروں کلکتہ، دہلی، کرناٹک میں مسلم اسٹوڈنٹس اور خواتین کی جانب سے احتجاجی مظاہرے کیے جا رہے ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر ریلیاں نکالی جا رہی ہیں۔ جس میں بڑی تعداد میں نوجوان اور خواتین شرکت کر رہی ہیں۔ بھارت میں تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی عائد کرنے والے عمل کے خلاف عدالت میں کیس زیر سماعت ہے۔

عدالت نے جو ریمارکس دیے تھے اس کے مطابق خواتین کو حجاب کرنے سے نہی روکا جاتا۔ بھارت میں اعداد و شمار کے مطابق سال 2021 ع میں 23722 جنسی زیادتی تشدد قتل کے واقعات رکارڈ ہوئے تھے۔ 2014 ع میں 33906 جنسی زیادتی تشدد قتل کے واقعات رکارڈ ہوئے۔ 2019 ع میں خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی، تشدد، قتل اور ہراساں کرنے کے 4,05,861 واقعات رکارڈ ہوئے۔ جس میں 59,853 واقعات اتر پردیش میں ریکارڈ ہوئے۔ بھارت میں روزانہ جنسی زیادتی کے 100 سے زائد وارداتیں ہو رہی ہیں اور اوسطاً 88 ریپ کے واقعات رکارڈ ہو رہے ہیں۔ قومی خواتین کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس خواتین کے خلاف جرائم کی سب سے زیادہ 11872 شکایتیں اترپردیش سے موصول ہوئیں۔ دہلی سے 2635 شکایتیں ملی۔ ہریانہ اور مہاراشٹر میں بالترتیب 1266 اور 1188 شکایتیں رکارڈ ہوئی۔ بھارت میں 2019 میں جنسی زیادتی کے 32033 کیسز درج کیے گئے۔ اوسطاً 88 کیسز۔ راجستھان میں سب سے زیادہ 5997 کیسز۔ اترپردیش میں 3065 اور مدھیا پردیش میں 2485 کیسز درج ہوئے۔ بھارت میں ہندو مسلم دونوں طرف سے خواتین عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ مسکان کی للکار اور اللہ اکبر کی صدا بھارت کی تقسیم کی جانب پہلا قدم ہے۔ ہمیں بھارت کے اصل چہرہ دنیا کو دکھانا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments