چیف جسٹس سچ کی تلاش میں



جسٹس گلزار احمد اپنی اننگز مکمل کرنے کے بعد سپریم کورٹ سے رخصت ہوچکے ہیں۔ وہ پانامہ کیس سننے والے اس پانچ رکنی بنچ کا بھی حصہ رہے جس نے نواز شریف کو تاحیات نا اہل کرنے کا تاریخی فیصلہ دیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ پاکستان کے چند چوٹی کے قانون دانوں نے اس فیصلے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ سپریم کورٹ کو ایسا فیصلہ دینے کا آئینی اختیار حاصل نہیں تھا۔

بطور چیف جسٹس گلزار احمد نے بڑے دھیمے انداز میں شروعات کیں۔ سوائے آخری چند مہینوں کے، جب وہ کراچی میں تجاوزات کے خاتمے کے لئے خم ٹھونک کر میدان میں اتر آئے۔

روشنیوں کے شہر کراچی میں ملک کے چاروں کونوں سے لوگ روزگار کی تلاش میں آتے رہے اور بسیرا کرتے چلے گئے۔ یہ سلسلہ ستر کی دہائی کے بعد شروع ہوا اور آج تک جاری ہے۔ بڑے دل کا یہ شہر بے مثال آنے والوں کو ایک شفیق ماں کی طرح اپنی آغوش میں سموتا رہا۔ کیوں کہ یہاں کارخانوں، ملوں اور فیکٹریوں کی بہتات تھی۔ دوسرے شہروں اور قصبوں سے لوگوں کا انخلا ایک دم نہیں ہوا۔ بلکہ یہ عمل دھیرے دھیرے جاری رہا۔

آج کراچی میں کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جہاں ہر رنگ، نسل اور قومیتوں کے لوگ آباد نہ ہوں۔ آبادی میں اضافے کے ساتھ ساتھ ٹاورز اور دیگر رہائشی یونٹس کی تعمیر فطری عمل تھا۔

اسی کی دہائی میں روشنیوں کے اس شہر میں لسانیت کے سیاہ بادل چھانا شروع ہوئے۔ جس نے تباہی اور بربادی کی ایک الم ناک داستان رقم کر دی۔ اس سیاہ ترین دور میں ندی نالے، پارک، کھیل کے میدان سمٹتے چلے گئے اور تجاوزات کا طوفان شہر کو اپنی لپیٹ میں لیتا چلا گیا۔ وہ دور کراچی کے لیے بڑا کٹھن اور مشکل تھا۔ حکومت وقت اور ریاست کی رٹ ختم ہو چکی تھی۔ ایک طاقتور شخص کے اشارے پر کراچی بند ہو جاتا تھا۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کئی دہائیوں پر محیط تجاوزات کی اس مشروم گروتھ کا پہلے نوٹس کیوں نہیں لیا گیا۔ اگر آج سے پندرہ بیس سال پہلے عدالت اس معاملے میں دلچسپی لیتی تو معاملات اس نہج تک کبھی نہ پہنچتے۔ جسٹس گلزار احمد جو اب ماضی کا قصہ بن چکے ہیں۔ انہوں نے سرکلر ریلوے کی بحالی اور تجاوزات کے خاتمے کے لیے اپنے تئیں کافی کوشش کی مگر بدقسمتی سے وہ مثبت تاثر چھوڑنے میں ناکام رہے۔ نسلہ ٹاور کے متاثرین جو مڈل کلاس سے تعلق رکھتے تھے۔ جنہوں نے بڑی مشکل کے ساتھ پائی پائی جوڑ کر فلیٹ خریدے تھے۔ وہ جسٹس گلزار احمد کے غیر لچک دار فیصلے کی وجہ سے بے گھر ہوئے۔ سابق چیف جسٹس اپنی مدت ملازمت کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج شوکت صدیقی کو بھی انصاف فراہم نہ کرسکے۔

نئے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے حلف اٹھانے کے بعد جہاں اپنی ترجیحات کا ذکر کیا وہیں انہوں نے میڈیا بالخصوص سوشل میڈیا پر ججز کی کردارکشی پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ انہوں نے سپریم کورٹ بار کے صدر احسن بھون سے اس معاملے پر اپنا کردار ادا کرنے کی اپیل کی۔

چیف جسٹس پاکستان سے بہتر کون یہ بات جانتا ہو گا۔ کہ سوشل میڈیا کا پلیٹ فارم بغیر کسی چیک اینڈ بیلنس کے قائم وہ واحد ذریعہ اظہار ہے۔ جہاں ادب، اخلاق، تہذیب اور شائستگی سے ہٹ کر اپنی رائے ٹھونسے کی روایت قائم ہے۔

برسراقتدار جماعت نے ماضی میں سوشل میڈیا کو جماعت اور بالخصوص لیڈرشپ کی پروجیکشن کے لیے بے دریغ استعمال کیا۔ اس سلسلے میں کسی حدود و قیود کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے مخالفین کی پگڑیاں اچھالنے کا عمل جاری رہا۔ بدقسمتی سے مگر خواتین کا بھی لحاظ نہیں کیا گیا۔ پارٹی قیادت اس طرح کی گھناؤنی مہم پر خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتی رہی۔

اس اہم معاملے پر وزیراعظم اور دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ ورنہ کردار کشی کی یہ غلیظ مہم کبھی نہیں رک پائے گی۔

دوسری طرف جسٹس عیسیٰ نظر ثانی کیس کا تفصیلی فیصلہ جو حال ہی میں جاری ہوا ہے۔ اس میں معاملہ ایف بی آر کو بھیجنے کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا ہے۔ مگر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اپنا اختلافی نوٹ جاری کرتے ہوئے چند اہم نکات اٹھا دیے ہیں۔ جناب چیف جسٹس لکھتے ہیں کیا سچ تلاش کیے بغیر انصاف کیا جاسکتا ہے۔ ان کا اشارہ ایف بی آر کی اس رپورٹ کی طرف تھا جو مسز سرینا کی لندن جائیداد کے حوالے سے تیار کی گئی تھی۔ وہ شاید اس رپورٹ کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دینے کے اکثریتی فیصلے کو قبول کرنے سے قاصر دکھائی دے رہے تھے۔

بادی النظر میں چار جج حضرات سچ تلاش کرنے میں ان اداروں یا محکموں کے محتاج دکھائی دیتے ہیں جو حکومت کے مکمل کنٹرول میں ہیں۔ یعنی وہ ادارے جن کے سربراہ سمیت تمام اہلکار سرکاری ملازم ہیں، آزادی کے ساتھ ایسا سچ سامنے لانے کی جرآت کیسے کر سکتے ہیں جس میں حکومت وقت، وفاقی وزیر قانون اور ایسٹ ریکوری یونٹ کے سربراہ کے لیے سبکی کا سامان ہو۔ اگر وہ سچ سامنے لاتے ہیں تو ان کی نوکریاں داؤ پر لگ سکتی ہیں۔

جناب چیف جسٹس کے ساتھ ساتھ۔ وطن عزیز کے لوگ بھی سچ کی تلاش میں ہیں۔ وہ جاننا چاہتے ہیں کہ اس اہم اور نہ ختم ہونے والے کیس کی اصل حقیقت کیا ہے۔ سپریم کورٹ کے اٹھارہ ججز میں سے صرف ایک جج کے اثاثوں کی چھان بین اتنے شد مد سے کیوں کی جاری ہے۔ کیا ایسٹ ریکوری یونٹ نے باقی ججز کے اثاثوں کی چھان بین بھی کی تھی یا نہیں۔ اس ادارے کے قیام کے اغراض و مقاصد کیا ہیں۔

پاکستانی یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ احتساب کا ادارہ لوٹی ہوئی دولت واگزار کرانے میں کامیابی حاصل کیوں نہیں کر سکا۔ موجودہ حکومت کے تین سالوں میں صرف گنتی کے چند لوگ ہی نیب کے ٹارگٹ بنے۔ اس ادارے کا تفتیشی نظام نقائص اور غیر تجربہ کاری کی جیتی جاگتی مثال ہے۔ کیوں کہ قومی خزانے سے بھاری رقوم خرچ کرنے کے باوجود کسی بڑی مچھلی کو پکڑا نہ جا سکا۔

یہ بات بھی زیادہ پرانی نہیں ہے کہ پانامہ سکینڈل میں سینکڑوں لوگوں کے اثاثے سامنے آئے مگر احتساب کی چکی میں صرف نواز شریف کو ڈالا گیا۔ باقی لوگوں کے خلاف کارروائی کا نہ ہونا حیران کن اور انصاف کے اصولوں کے منافی تھا۔ حالانکہ وزیراعظم عمران خان نے ان سب کا پیچھا کرنے کا اعلان کیا تھا۔ جو پانامہ سکینڈل میں ملوث پائے گئے تھے۔

سپریم کورٹ کے چھ ججز نے سرکاری محکمے کی طرف سے تیار کی گئی اس رپورٹ جو مسز سرینا عیسیٰ کے اثاثوں کا احاطہ کرتی تھی، کو ردی کی ٹوکری میں ڈالنے کا حکم جاری کیا تھا۔ لیکن دس رکنی بنچ کے چار ججز کا اختلافی نوٹ ایف بی آر کی اسی رپورٹ کا تذکرہ کرتا دکھائی دیتا ہے۔ تنقید نگار اختلافی نوٹ کے مندرجات کو بڑی حیرانی سے دیکھ رہے ہیں۔ سپریم کورٹ کی کارروائی کور کرنے والے ایک ممتاز صحافی اپنے تبصرے میں فرماتے ہیں۔ ایسا کر کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو ٹینشن میں مبتلا کیا جا رہا ہے۔ وہ مزید فرماتے ہیں۔ سپریم جوڈیشل کونسل شاید اپنے سوموٹو کے استعمال کو بروئے کار لا کر ان کے خلاف مزید کارروائی بھی کرے۔ ان کا خیال ہے کہ جسٹس فائز عیسیٰ کے برے دن ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے۔

سپریم کورٹ اگر سچ کی تلاش میں ہے تو وہ مالیاتی امور کے غیر جانبدار ماہرین کے ذریعے اس معاملے کی تہہ تک پہنچ سکتی ہے۔ پاکستان کے 22 کروڑ عوام مستقبل کے چیف جسٹس کے بارے میں کھرا سچ جاننے کے خواہش مند ہیں۔ اس کے علاوہ سپریم کورٹ کو اس طویل ترین کیس کا مزید پیچھا کرنے کے بجائے ان چھپن ہزار کیسز کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ جو کئی سالوں سے زیر التوا ہیں۔

دوسری طرف الیکشن کمشن کے فیصلے کے تحت نا اہل ہونے والے فیصل واوڈا کا کیس بھی معزز چیف جسٹس کی عدالت میں بطور اپیل سنا جائے گا۔ بادی النظر میں یہ ایک سادہ سا معاملہ تھا۔ جس کو غیر ضروری طور پر 22 ماہ تک لٹکایا گیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کیا سپریم کورٹ اس کیس میں سچ کی چھان بین کرتے ہوئے فیصلہ سنائے گی۔ یا فیصل واوڈا قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کی طرح سٹے آرڈر کے نام پر ریلیف حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).