عورت عشق کی استاد ہے، مرد عشق کی انتہا ہے


شاہ عبداللطیف بھٹائی نے کہا تھا کہ ”عورت عشق کی استاد ہے“ ، میں اس میں یہ اضافہ کر دیتا ہوں کہ ”مرد عشق کی انتہا ہے“

کل میڈیسن وارڈ میں ڈیوٹی تھی، ایک مریضہ تھی، اس کا جگر بالکل کام کرنا چھوڑ چکا تھا۔ عمر بھی لگ بھگ 65 سال تھی۔ اس کے ساتھ اس کا شوہر تھا۔ مجھ سے پہلے والے ڈاکٹرز نے اسے مریضہ کی تشویشناک حالت کے بارے بتا دیا تھا۔ میں راؤنڈ پر گیا، اس کا بلڈ پریشر نہایت کم تھا۔ آکسیجن لگنے کے باوجود اسے سانس لینے میں دشواری تھی۔ اس کا شوہر دم سادھے میرے سوالوں کا جواب دے رہا تھا۔ اس کی آواز میں بلا کی مجبوری و کپکپاہٹ تھی۔

بولتے بولتے وہ چپ ہو جاتا تھا۔ میں نے دلجوئی کے لیے اس سے مختلف باتیں کیں۔ پھر میں نے اس کی بیوی کا علاج شروع کیا۔ ڈرپس لگوائیں، سانس میں بہتری کے لیے انجکشن لگوائے۔ حالت قدرے سنبھلی۔ رات ایک بجے پھر سٹاف آئی۔ میں پھر اسی مریض کے پاس گیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ اس کا شوہر اس کی کبھی ٹانگیں دبا رہا تھا تو کبھی سر۔ وہ دعا پڑھ کر، اس پر پھونکیں بھی مار رہا تھا۔ آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی رواں تھی، آواز میں بلا کا درد، مجھ سے اس کی آنکھیں یہی سوال کر رہی تھیں کہ کوئی امید ہے۔ بھلا ہم عام لوگوں کی قسمت میں معجزے کب ہوتے ہیں۔

میں نے اسے دلاسا دیا کہ اللہ بہتر کرے گا۔ ساتھ میں دعا بھی کر رہا تھا کہ کاش معجزہ ہو جائے، ہاں یہ ممکن نہیں تو، کم از کم میری ڈیوٹی میں نا ہو۔ لیکن بھلا قسمت کو کون ٹال سکتا ہے، رات 3 بجے سانسوں کی ڈوری ساتھ چھوڑ گئی۔ وہ تب بھی اس کے سرہانے کھڑا تھا، اس کا ہاتھ تھامے۔ بھلا آنکھیں کب جھوٹ بولا کرتی ہیں؟ جب محبوب سامنے ہو تو آنکھیں کیسے پلک جھپک سکتی ہیں۔ میں نے جب کہا کہ بس اللہ کی رضا۔ اس نے اپنی بیوی کے ہاتھ چوم کر آنکھوں کو لگائے۔ ماتھے پر ہاتھ پھیرا۔ کیا اس سے بڑھ کر کوئی دردناک منظر ہو سکتا تھا؟ دور کسی مسجد سے تہجد کی اذان کی آواز آ رہی تھی، کیا وصال یار کے لیے اس سے بہتر کوئی وقت ہو سکتا تھا؟ میں بوجھل قدموں کے ساتھ اپنے روم میں واپس آ گیا۔

شاہ عبدالطیف بھٹائی نے کہا تھا کہ ”عورت عشق کی استاد ہے“ ، میں اس میں اضافہ کر دیتا ہوں کہ ”مرد عشق کی انتہا ہے“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments