وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے!


  

ہر طرف بڑھتے ہوئے عدم تحمل، عدم رواداری، عدم برداشت، فرقہ پرستی، دہشت گردی کے نئے واقعات کی کثرت نے ہمیں مصائب کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ ہم ایک جسم کی مانند ہونے کے باوجود دنیا کے سامنے بے بس ہیں، جس کی بنیادی وجہ غیروں کا بویا ہوا بیج جس کا بنیادی مقصد یہ تھا اور ہے کہ کہیں یہ ایک امت نہ بن جائیں، صوبوں، علاقوں، اضلاع، رنگ، نسل، زبان سے بالا تر ہو کر وجہ تخلیق یعنی اسلام کے زریں اصولوں کی طرف نہ آجائیں، تاریخ اس چیز کی گواہ ہے کہ جب تک امت مسلمہ ایک رہی، فاتح رہی، لیکن انہیں ایک دوسرے سے جدا کرنے کے لئے وہ بیج بویا گیا جس کی وجہ سے قتل و غارت کے زہریلے کانٹوں، نفرت کے کڑوے کسیلے پھل کے سوا محبت، بھائی چارے کی کوئی فصل کبھی پیدا نہ ہو سکی۔ آج بھائی، بھائی کے خون کا پیاسا ہے، زمین، پیسہ، یہاں تک کے نمبرات کی دوڑ میں ایک دوسرے کا قتل، لڑائیاں، فسادات نے سر اٹھا لیا، یہ سب کیوں اور کیسے ہیں؟

اس کی بنیادی وجہ تعصب، تنگ نظری ہے، تعصب کیا ہے؟ اگر ان الفاظ کو عربی زبان کے لحاظ سے دیکھا جائے تو ، ان سے بننے والے الفاظ کے معنیٰ ”پٹی“ کے ہیں جو زخم پر یا آنکھوں پر باندھی جائے اس کے علاوہ ان کو ”بدن کے پٹھے جو جوڑوں کو تھامے ہوئے ہیں“ یا ”وہ جماعت جس کے افراد ایک دوسرے کے ہامی و مددگار ہوں“ کے معنوں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ انگریزی زبان میں لفظ تعصب کو Narrow Mindedness تنگ نظری سے تعبیر کیا جاتا ہے جبکہ لفظ عصبیت کو Prejudice، Bigotry، partisanship اور tribalism سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ آج کل دونوں الفاظ کو مترادف کے طور پر بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔

بمطابق تحقیق عصبیت ہمیشہ مذموم و مردود نہیں ہوتی اور تعصب کو کبھی بھی محمود و مقبول کے درجے پر نہیں رکھا گیا۔ ابن خلدون نے جب عصبیت کی ضرورت بتائی تو اس کے محمود و مقبول ہونے کی وجہ سے بتائی ہے۔ قرابت داروں سے محبت، دوستوں سے تعلق، مظلوم کی حمایت، حق دار کی مدد، طاقتور کے مقابلے میں کمزور کے ساتھ کھڑا ہونا، عدل کے اصولوں کی نگہداری کرنا عصبیت کے دائرے کے عمل ہیں اور اس وقت تک یہ محمود ہیں جب تک عصبیت تعصب میں نہ بدل جائے۔

عصبیت مثبت انداز میں بروئے عمل آئے تو ملی، قومی، قبائلی، خاندانی، ذاتی روایات و اقدار کے ’خزانے‘ کو سینے سے لگائے رکھنے کا داعی پیدا کرتی ہے۔ اس کے برعکس تعصب حسد و حقد، نفرت و حقارت اور انتقام پر ابھارتا ہے اور سماجی رشتوں کو کاٹتا اور کمزور کرتا ہے۔ عصبیت ایک اندرونی کیفیت ہے۔ کسی فرد یا گروہ یہاں تک کہ معتقدات، اصول و مبادی، نظریات و افکار کے دفاع کا داخلی نظم ہے لیکن تعصب کا رخ ہمیشہ اندر سے باہر یعنی دوسروں کی طرف ہوتا ہے۔ اس سے ہٹ کر بعض کے نزدیک عصبیت پہلے پہل مثبت جذبہ کے طور پر مستعمل تھی بعد میں اس کا اطلاق منفی جذبہ پر بھی ہونے لگا لیکن تعصب یقینی طور پر صرف منفی جذبہ ہی کے لئے مستعمل رہی ہے۔

علامہ اقبالؒ کے مطابق، شجر ہے فرقہ آرائی، تعصب ہے ثمر اس کا، یہ وہ پھل ہے کہ جنت سے نکلواتا ہے آدم کو ۔ یہ انسان سے شیطان کا حسد و تعصب ہی تھا جس کی بنا پر شیطان نے حضرت آدمؑ کو ممنوعہ پھل کھانے کی غلط راہنمائی کی اور یہی تعصب تھا سکی وجہ سے زمین پر ہابیل و قابیل کے درمیان لڑائی و قتل کا موجب بنا۔ اسلام کی نظر میں عصبیت اور تعصب کا کیا مقام ہے اس کو واضح کرنے میں سنن ابن ماجہ کی حدیث سے مدد ملتی ہے

حدیث میں ہے کہ ایک صحابی نے اللہ کے رسولﷺ سے پوچھا: اے اللہ کے رسولﷺ! کیا اپنی قوم سے محبت رکھنا عصبیت ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: نہیں بلکہ ظلم پر قوم کی مدد کرنا عصبیت ہے۔ عصبیت اپنی فطری حیثیت میں مطلوب ہے جبکہ تعصب غیر مطلوب۔ ابن خلدون نے مقدمہ تاریخ میں عصبیت پر یہ تبصرہ کیا ہے۔ رحمت عالمﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ نے تم سے عہد حاضرہ پر غرور کو اور نسبت پر فخر کو مٹا دیا ہے تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم کو مٹی سے پیدا کیا ہے۔ اور اللہ کا ارشاد ہے تم سب میں زیادہ عزت والا اللہ کے نزدیک وہی ہے جو سب سے زیادہ تقویٰ والا ہے ”۔

کیسے پہچانیں کہ کوئی متعصب ہے؟

سائیکو تھیراپسٹس کو نزدیک 7عادتیں ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ آیا کوئی متعصب ہے یا نہیں؟ 1۔ ایسا شخص جو شدت پسند ہے ایسا شخص کسی بھی معاملہ کی گہرائی و گیرائی تک نہیں پہنچتا اور معاملہ کو ایک سے زیادہ زاویہ ہائے نگاہ سے دیکھنے سے قاصر رہتا ہے اور اپنی محدود و تنگ نظر کی اساس پر فیصلہ کرتا ہے اور اپنی ہی رائے کو مقدم سمجھتا ہے اور اس سے مختلف آرا رکھنے والے کو غلط اور دشمن سمجھتا ہے۔ 2۔ ایسا شخص جو نفسیاتی طور پر غیر لچک دار ہے معاملہ کو دوسرے نقاط نظر سے دیکھنا اس کو سخت متفکر اور خوفزدہ کر دیتا ہی اور سامنے والے سے کو ہم خیال و متفق بنانے کے لئے کسی بھی حد تک جانے تیار ہوتا ہے۔

3۔ ایسا شخص خود کو ’I know it all‘ سمجھتا ہے اور اپنی تنگ نظری کی بنا پر سخت جارحانہ موقف اختیار کرتا ہے۔ 4۔ ایسے افراد دوسروں کو سماعت کرنے کا مادہ اپنے اندر نہیں رکھتے۔ 5۔ ایسے افراد کے تعلقات نہایت خراب ہوتے ہیں۔ ان کے تعلقات صرف انہی لوگوں سے اچھے ہوتے ہیں جو ان کے بات مانیں، ان کے تابع رہیں اور ان کی اطاعت و ماتحتی کریں۔ 6۔ ایسے افراد کے نزدیک دنیا صرف Binary ہوتی ہے یعنیٰ یا تو صرف سفید ہوتی ہے یا کالی۔ وہ دنوں کے مجموعہ پر یا درمیانی یا خاکی رنگ پر یقین نہیں کرتے۔ 7۔ ایسے افراد حاسد ہوتے ہیں اور کبھی امن و چین کی حالت میں نہیں رہتے۔

تعصب کا حل کیا ہے؟

تعصب نفرت ہی کی ایک شکل ہے اور نفرتوں کا مقابلہ ہمیشہ محبتوں ہی سے کیا جاتا ہے محبت کو پروانے چڑھانے کے لئے ضروری ہے کہ ہم ایک دوسرے کو جاننے، ایک دوسرے کی عادات و اطوار، عقائد و رسومات سے واقف ہونے کے مواقع فراہم کیے جائیں، غلط فہمیوں سے بچا جائے اور معاملات کو سلجھانے کے لئے حق و انصاف کو معیار بنانے کی طرف توجہ دلانا چاہیے۔ ان کی وسعت نظر کے لئے ان میں حقائق کو سامنے لانا اور جھوٹی و غلط معلومات کو دور کرنا چاہیے معتدل و تعمیری سوچ و فکر کو فروغ دینا چاہیے جو افراد و تنظیمیں امن کو اور حقوق انسانی کے لئے کام کر رہے ہیں ان کی ہمت افزائی اور ان کا تعاون کرنا چاہیے۔ امید کہ تعصب کی فضا دور ہوگی اور محبتوں کا راج ہو گا۔ جیسا کہ اقبالؒ نے کہا۔ محبت کے شرر سے دل سراپا نور ہوتا ہے، ذرا سے بیج سے پیدا ریاض طور ہوتا ہے، محبت سے پائی ہے شفا بیمار قوموں نے۔

یقیناً آج جو بھی مقبوضہ کشمیر، فلسطین، برما یا کہیں بھی مظلوم مسلمانوں پر ہو رہا تاریخ کا بدترین سلوک ہے، اس کی جتنی مذمت کی جائے وہ کم ہے، اس مظلومی، دلدل سے باہر آنے کا واحد حل امت ہونے میں ہے، ہمیں ایک امت بننا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments