اور کیا جرم ختم ہو گیا؟


میں نے اپنے ایک کالم میں ایک ٹی وی ٹاک شو میں گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا تھا جس میں اینکر ثمر عباس مہمان علی نواز سے سوال کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اگر مجرم کو بروقت سزا دی جائے تو ایسے واقعات نہ رونما ہوں، جس پر علی نواز صاحب فرماتے ہیں کہ سلمان تاثیر کے قاتل کو پھانسی دے دی گئی، تو بعد ازاں ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا؟ زینب کے قاتل کو پھانسی دے دی گئی، تو بعد ازاں کیا ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا؟ وغیرہ وغیرہ۔

یقیناً یہ سوال لاجیکل ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ ازل سے سزا کے تصور کا آغاز ہو گیا تھا مگر انسان کی مجرمانہ فطرت اسے گناہ سے باز نہ رکھ سکی۔ سب سے پہلے انسان حضرت آدم نے خدا کی نافرمانی کی جو گناہ کہلایا اور سزا کے طور پر باغ عدن سے بے دخلی ہوئی۔ تو کیا اس سزا کا اثر لیتے ہوئے گناہ رک گیا؟ ہرگز نہیں! بلکہ یہ سلسلہ ایسا طول پکڑ گیا کہ حضرت نوح کے دور میں بدی اتنی بڑھی کہ خدا تعالیٰ نے سوائے حضرت نوح اولاد سمیت زمین پر سے سب انسانوں کو پانی کے سیلاب سے ہلاک کر دیا۔ اب اس دفعہ پہلے سے بھی سخت سزا دی گئی، اور جنہوں نے اپنی آنکھوں یہ حال دیکھا کہ دنیا گناہ کے سبب کیسے فنا ہوئی اور صفحہ ہستی سے مٹ گئی، کیا وہ گناہ سے باز آ گئے؟ کیا ان کی نسلیں گناہ سے باز آ گئیں؟ قطعاً نہیں! بلکہ گناہ بدستور قائم رہا۔

اگرچہ یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ جب کسی قانون کا وجود ہی نہ ہو تو سزا کس بات کی؟ اس کی مثال یوں دی جا سکتی ہے کہ بعض حساس جگہوں کی دیوار پر انتباہ کے طور پر لکھا ہوتا ہے کہ ممنوعہ علاقہ، اگر کوئی اس ایریا میں داخل ہوا تو اسے گولی مار دی جائے گی یا پولیس کے حوالے کیا جائے گا وغیرہ، تو لوگ محتاط رہتے ہیں، لیکن اگر آپ کو اس علاقے کی حساسیت کا علم ہی نہیں اور آپ اس علاقے میں داخل ہو گئے تو آپ کا کیا قصور؟

اسی طرح حضرت آدم کو حکم دیا کہ تو یہ پھل نہ کھانا مگر حضرت آدم نے کھا لیا اور حکم عدولی جیسے گناہ کے مرتکب پائے گئے۔ لیکن دیگر افعال، اعمال کی اگر نشاندہی ہی نہیں کی گئی، ممانعت ہی نہ قرار دی گئی تو گناہ کیسا؟ کیونکہ اگر انسان کو خود سے ہی نیکی و بدی کا علم ہوتا تو کسی بھی شریعت نامی قوانین کے نزول کی ضرورت پیش نہ آتی۔ کیونکہ مذہبی روایات کے مطابق بنی نوع انسان کے لئے کسی بھی شریعت (نیکی و بدی کی پہچان کے قوانین) کا وجود پہلی دفعہ حضرت موسیٰ کی شریعت کی صورت میں نظر آتا ہے۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ انسانی تاریخ کی سب سے پہلی شریعت حضرت موسیٰ کی معرفت نازل ہوئی اور باقاعدہ طور پر انسان کو نیکی اور بدی کا علم ہوا کہ ہمارا یہ عمل نیکی کہلاتا ہے اور یہ بدی۔ بہرحال یہ موضوع بحث طلب ہے، ہم اپنے مدعا پہ آتے ہیں۔

موسوی شریعت میں انتہائی سخت سزاؤں کا تصور تھا، جیسا کہ سنگساری سے لے کر صلیب تک۔ کوڑوں سے لے کر درخت پر لٹکانا وغیرہ۔ تو کیا لوگ اتنی ہیبت ناک سزاؤں کے خوف سے گناہ سے باز آ گئے؟ کیا قتل و غارت، چوری، زنا، خدا کی حکم عدولی جیسے گناہوں سے باز آ گئے؟ کیا تھانے، حوالات، جیلیں خالی ہو گئے؟ کیا عدالتوں کی ضرورت نہ رہی؟ ہرگز نہیں! گناہ اپنی حالت میں بدستور جوں کا توں جاری رہا۔

اسکے بعد دوسری بڑی مذہبی شریعت مسیحی شریعت کا تصور سامنے آتا ہے جس میں فوری سزاؤں کا تصور نظر نہیں آتا۔ حتیٰ کہ حضرت مسیح کا واقعہ جس میں ایک زنا کی ملزم عورت لائی جاتی ہے فیصلے کے لئے تو حضرت مسیح فرماتے ہیں کہ اسے پہلا پتھر وہ مارے جس نے گناہ نہیں کیا۔ یوں ایک ایک کر کے سب تتر بتر ہو جاتے ہیں۔ بعد میں حضرت مسیح اس عورت کو سمجھاتے ہیں کہ آئندہ گناہ نہ کرنا۔ یعنی تصور تربیت کا ملتا ہے، سزا کا نہیں۔ اور تاریخ بتاتی ہے کہ وہ عورت بعد میں پارسا بن گئی تھی۔ مگر پھر بھی عام طور پر گناہ بدستور جاری رہا۔

اسکے تقریباً چھ سو سال بعد تیسری بڑی مذہبی شریعت اسلامی شریعت نظر آتی ہے۔ اسلامی شریعت میں بھی ایک بار پھر موسوی شریعت کی طرح سخت سزاؤں کا تصور غالب نظر آتا ہے۔ اگرچہ ہر جرم کی سزا کا تصور قرآن میں تو موجود نہیں مگر احادیث سے اخذ شدہ اور خلفاء و علماء کے فتاوی کی روشنی میں سزائیں دی جاتی رہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ شریعت کا حصہ بنتی گئیں اور آج بھی پیروی کے طور پر علماء کے فتاوی کی روشنی میں فیصلے ہوتے ہیں۔ بعض اسلامی ممالک میں آج بھی سزائیں اسلامی شریعت کے مطابق دی جاتی ہے۔ تو ان سزاؤں کے ڈر سے کیا ان ممالک میں گناہ ختم ہو گیا؟ ہرگز نہیں!

ما حاصل؛ اگر ان شرعی قوانین کے برعکس غیر مذاہب ممالک کے قوانین کی طرف بھی نظر دوڑا لیں جو کسی بھی شریعت کے زیر اثر یا تابع ہونے کی بجائے عقل و فہم کی روشنی میں نافذ ہیں تو کچھ خاص فرق نظر نہیں آتا اور نیکی یا بدی کی عمل پذیری کی شرح بھی شاید الہامی شریعتوں کے داعیوں سے کچھ بہتر ہی ہو۔ تو مندرجہ بالا گفتگو سے ہم جو نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ شروع دن سے نہ تو انسان جرم سے باز آیا نہ آئے گا اور ہزارہا سال کے تجربات سے پتہ چلا کہ سزا سے جرم ختم نہیں ہو سکتا بلکہ تربیت کی ضرورت ہے۔ حضرت سلیمان فرماتے ہیں کہ بچے کی اس راہ پر تربیت کر جس پر اسے جانا ہے۔ پس جب تک ہم بچپن سے ہی بچوں کو نیکی کی طرف راغب نہیں کرتے اور گناہ سے نفرت نہیں دلاتے ہم جرائم ختم کرنا تو درکنار کمی بھی نہیں لا سکتے۔ پس ہم پر بطور والدین واجب ہے کہ اپنے بچوں کی اچھی تربیت پر توجہ دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments