اظہار کا دن ساتواں دن


29 – 02 – 2022 آج کالم میں آپ کو ایک پرانی کہانی سناتی ہوں۔ کہیں ایک چھوٹی سی لڑکی تھی۔ سکول کے ایک ڈرامے کے لیے اس کا آڈیشن لیا گیا مگر اسے کاسٹ نہیں کیا گیا۔ بجائے اس کے کہ وہ پریشان ہوتی اس نے اپنی امی سے کہا ”میں اپنی سکول کے ساتھیوں کی ستائش کو تالیاں بجانے کے لیے منتخب ہوئی ہوں“ ۔ اس ننھی بچی کے یہ الفاظ قابل تعریف ہیں۔ ہم کچھ بھی ہوں۔ ہم اپنے ارد گرد کے لوگوں کے ہمیشہ اہم ہوتے ہیں۔ مجھے بھی خوشی ہے کہ میں ایک پر اسرار، لطیف باطن اور صوفی منش شاعر کی کتاب پہ اپنے خیالات بیان کر رہی ہوں۔

عماد اظہر وہ نوسٹیلجک شاعر ہے جو فرقت وطن یعنی ماضی کی حسرت ناک یادوں میں مبتلا رہتا ہے۔ انسان چونکہ جنت سے آیا ہے لہذا وہ دیوانے پریمیوں کی طرح مرض کی حد تک ماضی کی یاد میں کھویا رہتا ہے۔ عماد اظہر کی شاعری میں صحیفوں، فقیروں، درویشوں اور بے سمت اڑانوں کی تتلیاں آب رواں پر تیرتی نظر آتی ہیں۔ عماد اظہر فطرتاً خواب و خیال کی دنیا کا فرد ہیں۔ نمائش، شدت، بغاوت شاید ان کی شخصیت کا حصہ ہی نہیں ہے۔ عماد کی شاعری میں مٹی کے خواب زمان و مکان سے آگے کی چیزیں ہیں۔

زمانوں میں زمانوں کی گرہ لگانے والے اس مست شاعر کو معلوم ہے کہ آواز کس کو لگانی ہے اور کہاں تک پہنچے گی۔ عماد اظہر کی شاعری میں ایک عجیب سی پر اسرار ریت ہے۔ عشق کی تپش آگ بن کر جب انسان کی رگوں میں دوڑنے لگتی ہے تو اس کا دل پگھل کر آب سرخ کی طرح بہنے لگتا ہے۔ غار کی اہمیت اور علامت عماد کی ذات کے جلتے چراغوں سے ہو کر کشف خواب کو اصل میں ڈھالتی ہے۔ عماد اظہر کی شاعری حادثاتی طور پر وقوع پذیر نہیں ہوئی ہوگی۔

وہ اسم اور جسم کی مکمل تعلیم کی سعی میں ہے جبھی تو ساتویں دن پر خود کو ہی آوازیں لگاتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ گونج تو کانوں والوں کو ہر حال میں سنائی دیتی ہے۔ لیکن اسے تاسف ہے کہ اس نے یہ گونج سر مستی کے عالم میں بہروں کے سامنے لگائی۔ عماد اظہر نے اپنی شاعری میں تصوف، عشق اور درویشی کے ٹکڑوں سے مزین رنگین چولا اوڑھ رکھا ہے۔ بہت سے لوگ جو راہ تصوف میں چلنا چاہتے ہے عماد ان پر راز کھولتا ہے کہ مسند درویش اڑنے سے یا سمندروں پر چلنے سے نہیں ملتی۔

عشق کی راہ تو جذب کی راہ ہے۔ جہاں سے واپسی کا کوئی امکان نہیں۔ درویشی تو خود سپردگی کا نام ہے۔ جب سے یہ کائنات تخلیق ہوئی ہے کھوجی اور سائنس دان یہ تلاش کرنے میں لگے رہے کہ زمین و آسمان کی تخلیق سے پہلے کیا تھا۔ سترہویں صدی کے ایک کلاسک شاعر جان ملٹن کی نظم پیراڈائز لوسٹ جس میں وہ بیان کرتا ہے کہ کائنات بننے سے پہلے ہر طرف ایک افراتفری تھی۔ آسمان اور زمین کی تخلیق چھے دنوں میں ہوئی ہے۔ کسی بھی چیز کی تخلیق کے لیے اللہ کا حکم کن سے فیکون تک کا ہے۔

سورۂ یٰسین میں ہے کہ ”اس کی شان تو یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرے تو کہتا ہے کن یعنی ہو جا تو وہ ہو جاتی ہے۔“ اب اگر دنوں کی طوالت کو ماپا جائے تو شاید ہم نہیں جان سکتے کہ وہ ہفتوں، مہینوں، سالوں پر محیط ہیں یا ارب ہا سالوں پر۔ ساتویں دن کا تصور ہے کہ خدا نے ساتویں دن آرام فرمایا اور کائنات کی تخلیق کا اظہار کیا۔ اس سے مراد ہفتے میں ایک چھٹی اور پھر اپنے چھے دنوں کے کام کا لطف اٹھانا بھی ہے۔

عماد اظہر خدا کے عشق کو نعمت سے کم نہیں گردانتا۔ محبت کو اسم اعظم کہتا ہے۔ محبت کے نصاب میں گلاب کی کلیاں پیش کرتے ہوئے درویشوں سے سوال کرتا ہے تو جواب میں خدمت خلق خدا کا حکم ملتا ہے۔ فقیر کہتے ہیں کہ اگر کہیں آپ اکیلے بیٹھتے ہیں تو دوسرا وہاں خدا ہوتا ہے۔ عارفانہ رنگ میں اپنی دھن میں چلتا یہ درویش فکر و فن کے بھید کھولتے ہوئے کہتا ہے :

خدا بتاتے نہیں ہیں خدا ملاتے ہیں
یہ عارفین اگر راستہ دکھاتے ہیں

جسے محبت کے تعارف میں اسم محمد ﷺ بتایا گیا ہو تو تمام خفی اذکار سے نفی اثبات تک عرفان کا وہ عطر ہے جو زندگی بھر روح کو مہکاتا رہتا ہے۔ میں جو ہمیشہ راستہ تلاش کرتی رہی، بھٹکتی رہی کہ کوئی تو ہو جو میری لاٹھی بنے تو اس کتاب کو پڑھنے کے بعد پردہ ہٹا اور سمجھ میں آیا کہ:

”یعنی ایک نام ہے معنوی، نفسیاتی، طلسماتی ہر لحاظ سے جامع اور میٹھا پیارا نام۔ کیا نغمگی ہے
اس مختصر سے نام میں جو ملحگوں سے روشنیوں میں لے جاتا ہے۔ اور وہ نام ہے : محمدﷺ ”

عماد اظہر کی شاعری پڑھ کر پتہ چلتا ہے کہ وہ سراپا عجز و محبت ہے۔ دشمن کو بھی پیار سے مسند پر بٹھاتا ہو گا۔ اس کی شخصیت میں ایک عجیب انوکھا پن ہے۔ رت جگے کرنے والا یہ شاعر جاگتے ہوئے منظروں کی داستانیں اپنی غزلوں اور نظموں میں یوں سناتا ہے جیسے آتشدان میں صندل کی لکڑیاں چڑ چڑا رہی ہوں۔ صندل کی میٹھی مدھر خوشبو شخصیت کے گرد ہالہ بنا رہی ہو۔ جذب میں ڈوبے ہوئے اس صوفی شاعر کو پڑھتے ہوئے دھیان رکھیے کہ جس خاک سے اسے خواب ملے ہیں وہ خاک خانقاہوں کے پہلو اور درویشوں کے ہیولوں سے اٹھائی گئی ہے۔ خدا کے نام کی تسبیح کرتے ہوئے عجب نور کے دیے جلتے ہیں تو خاک سے خواب جنم لیتے ہیں۔ تصوف کی راہ پر چلنے کی تمنا کرنے والوں کو چاہیے کہ اس فقیر منش شاعر کی طرف دیکھیں اور اپنے اندر کی آنکھ کو خود پر وا کریں :

تمہاری آنکھ کا دریا ہی ایسا دریا ہے
درود پڑھ کے جہاں عرضیاں بہاتے ہیں
مریم ارشد


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments