کسی بھی انسان کے لیے سب سے اہم چیز اس کی ذات ہوتی ہے۔ جسم کی حفاظت، اس کی حاجات پوری کرنے اور بنانے سنوارنے کی تگ و دو میں وہ سارا دن مصروف رہتا ہے۔ کارگاہ حیات پر نظر دوڑائی جائے تو قالب خاکی کی یہ ضروریات پوری کرنے کے ساتھ اس کی کچھ خواہشات بھی موجود ہوتی ہیں جن کی تکمیل کے لیے وہ تمام جسمانی و ذہنی قوتیں صرف کرتا ہے۔ خوراک اس کی بنیادی ضرورت ہے لیکن پیٹ بھرنے کے لیے رمق اور نان جویں پر ہی گزارا نہیں کرتا بلکہ لذت کام و دہن کے لیے مزعفر و بریانی کا اہتمام بھی کرتا ہے۔

پانی کے ساتھ اس کی تشنگی تو مٹ جاتی ہے لیکن شربت عناب و انجبار اور مے دو آتشہ کی چاہ بڑھ جاتی ہے۔ رہائش کے لیے اسے غاریں میسر تھیں، جھونپڑی ضرورت پوری کر دیتی ہے لیکن مانند کوہ مستحکم پر شکوہ راج مندر و محلات پوری دنیا میں نظر آتے ہیں۔ موسم کی سختی، گرمی سردی سے بچنے اور ستر ڈھانپنے کو جانوروں کی کھالیں اور پتے موجود تھے، کھدر سے بھی ساری مشکلات کا حل مل جاتا ہے لیکن ریشم و اطلس و کمخواب کے پارچہ جات ضروریات پورا کرنے ساتھ اس کے جسم کی دلکشی کو بڑھاوا دیتے ہیں۔

اچھی خوراک، پینے کے لیے بہترین مشروبات، رہن سہن کے لیے خوبصورت محلات نما گھر اور باقی شعبہ جات میں انسانی ترقی سفر و حضر میں اس کی زندگی اور تن بدن کو آسانیاں مہیا کرنے، خوبصورتی کو بڑھاوا دینے میں مدد گار ہیں۔ ان تمام ضروریات و خواہشات میں لباس کی اہمیت سب سے زیادہ ہے۔ خوشی کے مواقع پر امرا کو خلعت ہفت پارچہ مع زر و جواہر نوازنا بادشاہوں کی ریت رہی ہے۔ لباس سریر کا پہلا اور سب سے مضبوط حفاظتی بند ہے۔ یہ جسمانی حسن کو چار چاند بھی لگا دیتا ہے۔ خامیوں کو چھپا کر خوبی و خوبصورتی کو بڑھاوا دیتا ہے۔ جو لباس یہ دلکشی قائم کر سکے وہی موزوں لباس ہے، وہی صحیح لباس ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ بہترین لباس وہ ہے جو صحت بخش ہو، موسم کے مطابق ہو اور پہننے والے کی حیثیت کے موافق ہو۔ اس کی نقل و حرکت اور کام کاج میں مزاحم نہ ہو۔ انسان کی حسن شائستگی اور توازن دماغی کا ثبوت اس کا لباس دیتا ہے۔

مرد اور عورت کو فطرت نے ایک دوسرے کی نظر میں مرغوب اور دلفریب بنایا ہے۔ حسن کی تمنا اور خوبصورتی کی آرزو مرد و عورت دونوں کی فطرت ہے۔ اس لیے بناؤ سنگھار، جسم کی آرائش و زیبائش کا اہتمام اور استعمال ہمیشہ اور ہر زمانے میں مقبول و مستحسن رہا ہے۔ عورتوں میں یہ خواہش بدرجہ اتم موجود ہوتی ہے۔ تمام اقسام کے بناؤ سنگھار کو بنیاد لباس مہیا کرتا ہے۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ لباس عورت کا سب سے خطرناک ہتھیار ہے۔ رنگ برنگا لباس اس کے حسن کو مہمیز کر دیتا ہے۔ یہ وہ دلکش و دلفریب ہتھیار ہے جس کی کاٹ تلوار کی دھار سے بھی تیز ہوتی ہے۔

کوئی انسان اس حسن کو نظر انداز نہیں کر سکتا جو زریں لباس عورت کو عطا کرتا ہے۔ عورت ہمیشہ اس جان لیوا ہتھیار سے لیس رہنا چاہتی ہے۔ وہ ایسے دلکش و دلفریب ہتھیار سے کبھی بھی ہاتھ دھونا نہیں چاہتی۔ وہ لباس کے جادو سے کبھی بھی بے نیاز نہیں ہونا چاہتی۔ عورت تو حسن و دلکشی کا نام ہے مرد بھی یہ نہیں چاہے گا کہ لباس کی سحر آفرینی اس کی معاون نہ ہو۔ کس کی یہ آرزو ہو سکتی ہے کہ لباس کی ناموزونیت سے اس کے حسن میں کجی یا ضعف پیدا ہو، اس کی دلکشی میں کھوٹ آئے۔

مرد ہو یا عورت دونوں کے لیے خوشنما نازک رنگوں سے سجا لباس اور دلفریب جسم اس قدر فرحت بخش ہوتا ہے کہ دونوں میں ایک نیا جذبہ پیدا کر دیتا ہے جس سے ان کی کارکردگی میں بہتری آتی ہے۔

ہمارے ملک میں اس ہتھیار کو استعمال کرنے کی بجائے، اس پر توازن و تناسب کی دھار چڑھانے کی بجائے، بھورے کالے رنگوں کا زنگ چڑھا دیا جاتا۔ عورتوں اور لڑکیوں کی خواہشات کو کچل کر ان پر زبردستی کا خول پہنا دیا جاتا ہے۔ جامعات کا کام صرف ڈگریاں بانٹنا نہیں۔ پوری دنیا میں کالجز اور یونیورسٹیز میں انسانی صلاحیتوں کو ابھارنے کے لیے طلبا میں آزادی اظہار کے ساتھ ساتھ پہننے اور اوڑھنے کی مکمل آزادی ہے۔ جہاں مرد خوبصورت پینٹ شرٹس پہن سکتے ہیں وہاں اودے اودے، نیلے نیلے، پیلے پیلے پیرہن پہنے پریاں قطار اندر قطار لہراتی بل کھاتی بھی نظر آتی ہیں۔

ہم جن کالجوں میں پڑھے ان میں بھی یہ بسنت بہار کھلی دکھائی دیتی تھی۔ وہ آمرانہ دور تھا۔ عوامی حکومت کی مقبولیت کا مقابلہ کرنے کے لیے ہر چیز پر اسلام کے نام کی ملمع کاری کردی جاتی تھی۔ الناس علی دین ملوکھم، لوگ بھی اسی رنگ میں رنگے گئے۔ اس دور میں ہم نے تو باتھ روم اسیسریز پر بھی مقدس نام لکھے دیکھے ہیں۔ لیکن یہ فتور تو اس ’مرد مومن مرد حق‘ کے دماغ میں بھی نہ آیا کہ کالجوں میں عبایہ لازمی کر دیتا۔ یونیورسٹی لیول پر زنانہ مردانہ کلاسز علیحدہ تو اس نے بھی نہ کیں۔

ہماری اس حکومت کے خلاف جوں جوں عوام میں نفرت بڑھتی ہے یہ ریاست مدینہ کا نعرہ اور بھی زور سے لگانا شروع کر دیتی ہے۔ نام نہاد اسلامی احکامات جاری کرنے لگتی ہے۔ ایسے سارے قوانین نا اہلی و ناکامی کو اسلام کی پناہ میں دینے کے لیے نافذ کیے جاتے ہیں۔ حیرانی کی بات ہے کہ حکمرانوں کی دیکھا دیکھی کئی پرائیویٹ پرائمری سکولوں نے بھی اسلام سے اپنی محبت ظاہر کرنے کے لیے خواتین اساتذہ کو عبایہ پہننا لازمی قرار دیا ہے۔

آج پورا ملک انڈین لڑکی کی حمایت میں کھڑا ہو گیا ہے۔ انڈیا کے ایک کالج کی اندرونی سیاست کو اسلام کا نام دے کر ، انڈین ہائی کمشنر کو دفتر خارجہ میں طلب کر کے، عوام میں نمبر ٹانگنے کی تھرڈ کلاس سیاست کی جا رہی ہے۔ جواباً اگر انہوں نے یہ کہہ دیا کہ پاکستان میں لڑکیوں کو سکولوں کالجوں میں ساڑھی، وہی ساڑھی جو کہ پاکستانی فوج کی لیڈی ڈاکٹرز کا یونیفارم ہے، پہننے کی اجازت دی جائے تو آپ کا کیا جواب ہو گا؟

ہمارے ہاں مرد اساتذہ اور طالب علموں کو کھلی چھٹی ہے کہ وہ جو چاہے پہنیں۔ پینٹ کوٹ پہنیں چاہے رنگ برنگی نک ٹائیاں لگائیں لیکن جن کا شوق ہے، جن کا حق ہے ان پر خوبصورت رنگ برنگا لباس پہننے پر پابندیاں۔ جو صدیوں سے بناؤ سنگھار اور دلفریب لباس کی دلدادہ ہیں ان کے لیے ممانعت۔ جن کو یہ کام سیکھنا چاہیے تا کہ وہ اپنے گھروں میں موجود افراد کے لباس کو موجودہ اور آنے والے دور کی ضروریات کے مطابق ڈھال سکیں ان پر لازم ہے کہ گندے مندے بھدے ناگوار عبائے پہنیں۔

اگر آپ ہندوستان میں عبایہ پہننے کی آزادی کے حامی ہیں تو اپنے ملک کی طالبات کو بھی پسندیدہ لباس زیب تن کرنے دیں۔ ان کو بھی کھیل کود اور نقل و حرکت کی آزادی دیں اور ان ضروریات اور خواہشات کے عین مطابق مختلف اقسام کے لباس پہننے میں رکاوٹ نہ بنیں۔