غریدہ فاروقی کے شو ’جی فار غریدہ‘ پر پیمرا کا نوٹس: کوئی ذومعنی، اخلاق سے گری، گھٹیا بات نہیں کی، غریدہ فاروقی

منزہ انوار - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد


پاکستان میں میڈیا کے نگران ادارے الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے گذشتہ روز نجی ٹی وی چینل نیوز ون کی میزبان غریدہ فاروقی کے 10 فروری کو نشر ہوئے ’جی فار غریدہ‘ شو میں ہونے والی گفتگو کے ایک حصے کو ’تضحیک آمیز/ توہین آمیز‘ قرار دیتے ہوئے چینل کو شوکاز (اظہارِ وجوہ کا )نوٹس جاری کیا ہے۔

پیمرا کی جانب سے چینل کو بھیجے گئے نوٹس میں کہا گیا ہے کہ غریدہ فاروقی کے پروگرام میں ان توہین آمیز ریمارکس کا بغیر کسی ادارتی کنٹرول کے آن ایئر ہونا پیمرا کے سیکشن 20 کی سراسر خلاف ورزی ہے اور توہین آمیز گفتگو چینل کی ادارتی پالیسی اور گیٹ کیپنگ ٹولز کی کارکردگی کے حوالے سے باعثِ تشویش ہے۔

پیمرا نے نیوز ون کے چیف ایگزیکٹو آفیسر کو چار دن کے اندر تحریری جواب دینے ہدایت کی ہے کہ وہ بتائیں کہ پیمرا کے قوانین کی خلاف ورزی کی صورت میں پیمرا آرڈیننس 2002 کے تحت ان پر جرمانہ، معطلی اور لائسنس کی منسوخی سمیت دیگر انضباطی کارروائی عمل میں کیوں نہ لائی جائے۔

ٹوئٹر پر ٹی وی چینل کے نیوز ڈائریکٹر طارق محمود اور پروگرام کی میزبان غریدہ فاروقی نے پیمرا پر الزام عائد کیا کہ وہ ملک بھر میں نیوز ون ٹی وی کی نشریات بند کروانے کے لیے کیبل آپریٹرز کو فون کر رہے ہیں۔

نیوز ون کی نشریات روکنے سے متعلق الزامات اور غریدہ فاروقی کے پروگرام میں کون سے الفاظ ’تضحیک آمیز/ توہین آمیز‘ ہیں، بی بی سی نے پیمرا سے اس کا مؤقف لینے کی بارہا کوشش کی تاہم ان کا کہنا تھا کہ وہ اس بارے میں ’بعد میں بات کریں گے۔‘

پاکستان میں سوشل میڈیا پر گذشتہ رات سے ’جی فار غریدہ‘ کے پروگرام کا ایک منٹ دو سیکنڈ کا کلپ وائرل ہے اور حکمران جماعت کے آفیشل ٹوئٹر ہینڈل @PTIofficial سے غریدہ فاروقی کے خلاف ہیش ٹیگ چلایا جا رہا ہے۔

تحریکِ انصاف سے وابستہ سیاستدانوں، حکومتی وزرا اور دیگر افراد کا الزام ہے کہ غریدہ فاروقی کے پروگرام میں وفاقی وزیر مراد سعید کے حوالے سے انتہائی لغو اور ذومعنی گفتگو کی گئی۔

یاد رہے رواں ہفتے وزیرِ عمران خان نے دس بہترین وفاقی وزار میں کارکردگی کی بنیاد پر اسناد تقسیم کی تھیں جن میں وفاقی وزیر برائے مواصلات مراد سعید کی وزارت کو بہترین کی سند سے نوازا گیا تھا جس کے بعد سوشل میڈیا پر صارفین کی بڑی تعداد نے مراد سعید کی کارکردگی کو موضوعِ بحث بنایا تھا۔

غریدہ فاروقی کا جمعرات (10 فروری) کو نشر ہونے والا پروگرام بھی وزیراعظم عمران خان کی جانب سے 10 وفاقی وزرا میں ایوراڈز کی تقسیم اور وزیرِ اعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کے حوالے سے تھا۔

اس شو میں تجزیہ کار اور نیوز ون کے ڈائریکٹر طارق محمود کے علاوہ تجزیہ کار محسن بیگ، دفاعی تجزیہ کار جنرل امجد شعیب اور صحافی اور تجزیہ کار افتخار احمد بھی پینلسٹس میں شامل تھے۔

سوشل میڈیا پر ایک طرف کئی افراد پیمرا پر تنقید کرتے یہ پوچھتے نظر آتے ہیں کہ ’کسی وفاقی وزیر کی کارکردگی پر سوال اٹھانا اس کی تضحیک کیسے ہے اور نیوز ون کی نشریات روکنے کی مذمت کرتے ہوئے اسے ’آزادی صحافت پر حملہ‘ قرار دیا جا رہا ہے۔

وہیں کچھ صحافی اور تجزیہ کار غریدہ فاروقی پر تنقید کرتے یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ اس طرح کی گفتگو کو کبھی بھی صحافت کا نام نہیں دیا جا سکتا۔

اس کے علادہ کچھ صارفین غریدہ فاروقی کی ذاتی زندگی کے حوالے سے ان پر تنقید، نازیبا الفاظ کے ساتھ ان کی تصاویر شئیر کرنے کے علاوہ ان پر مخلتف الزامات لگاتے بھی نظر آتے ہیں۔

بی بی سی نے ان الزامات اور جمعرات کے پروگرام کے حوالے سے ’جی فار غریدہ‘ کی میزبان اور صحافی غریدہ فاروقی سے بات کی ہے۔

’کوئی ذومعنی، اخلاق سے گری ہوئی، گھٹیا بات نہیں کی گئی‘

’جی فار غریدہ‘ کے جمعرات کو آن ائیر پروگرام میں پینل کا حصہ افراد جب موضوع سے ہٹ کر گفتگو کرنا شروع ہوئے تو غریدہ فاروقی نے انھیں روک کر موضوع کی جانب لانے کی کوشش کیوں نہیں کی؟

اس کے جواب میں غریدہ کہتی ہیں کہ ’ان چاروں مہمانوں یا میری طرف سے کوئی ایک بھی ’غیر اخلاقی‘ جملہ یا لفظ آن آئیر نہیں ہوا۔ کوئی ذومعنی، اخلاق سے گری ہوئی، گھٹیا بات نہیں کی گئی جسے قانونی طور پر کہیں پر چیلینج کیا جا سکے۔‘

غریدہ مانتی ہیں کہ پروگرام میں مراد سعید کی وزارت کی کارکردگی پر سات سے آٹھ منٹ تک بات ضرور ہوئی مگر وہ اسے توہین آمیز یا غیر اخلاقی ماننے سے انکار کرتی ہیں۔

پیمرا کے نوٹس میں ’تضحیک آمیز/ توہین آمیز‘ کے الفاظ کے متعلق غریدہ فاروقی کہتی ہیں کہ ’جب آپ تجزیہ کاروں کو بلاتے ہیں تو وہ کیا تجزیہ کرتے ہیں، یہ پینل میں شامل افراد کی صوابدید پر منحصر ہوتا ہے اور ہماری پالیسی ہے کہ ہم اسے ایڈیٹ یا کاٹتے نہیں۔ کسی کا مائیک میوٹ نہیں کرتے جب تک کہ کوئی ایسی بات نہ کی جائے جو واقعی توہین آمیز یا اخلاق سے گری ہوئی اور قانون کی پکڑ میں آتی ہو۔‘

وہ کہتی ہیں کہ اسی لیے پروگرام سے پہلے ایک تنبیہ چلائی جاتی ہے کہ اس پروگرام میں شامل مہمانوں کی رائے ادارتی پالیسی کا حصہ نہیں۔

غریدہ فاروقی کا کہنا ہے کہ ’ہم آزادیِ رائے اور آزادیِ اظہار ضرور دیتے ہیں مگر میرے پروگرام میں کسی بھی مہمان نے یا میں نے کوئی غیر اخلاقی یا فحش لفظ استعمال نہیں کیا نہ کوئی گالی دی اور نہ ہی کوئی غیر اخلاقی بات دہرائی اور نہ کسی تضحیک آمیز یا توہین آمیز رائے کا اظہار کیا۔‘

وہ کہتی ہیں کہ پروگرام میں 43 منٹ تک بحث کی گئی مگر ٹوئٹر پر محدود دورانیے کا کلپ ہی شئیر کیا جا سکتا تھا جو وائرل ہے اور دو منٹ کے کلپ کو دیکھ کر یہ فیصلہ نہیں کر لینا چاہیے کہ اس میں غلط بات کی گئی ہے۔

وہ پاکستان تحریکِ انصاف سے سوال کرتی ہیں کہ ’اگر آپ کو اس کلپ سے تکلیف پہنچی ہے تو کوئی ایک لفظ بتا دیں جو قانون کی تشریح کے مطابق غیر اخلاقی یا توہین آمیز الفاظ کے دائرے میں آتا ہو۔‘

’حکومت کو زیادہ تکلیف اس بات سے ہے کہ میں سخت سوالات کیوں کرتی ہوں‘

غریدہ کا کہنا ہے کہ تجزیہ کار کسی بھی کتاب کا بھی حوالہ دے سکتے ہیں جس پر ہم انھیں روک نہیں سکتے اور پینل میں شامل افراد نے جس کتاب کا حوالہ دیا اس پر پاکستان سمیت دنیا بھر میں کہیں پابندی نہیں۔

’کتاب کے مندرجہ جات پر کہیں کوئی قانونی کارروائی نہیں ہوئی اور جن لوگوں کو تکلیف پہنچ رہی ہے انھوں نے آج تک اس کتاب کے حوالے سے کوئی قانونی کارروائی نہیں کی۔ اگر اس پر پابندی نہیں تو اس کا حوالہ دینے سے کسی کو کیسے روکا جا سکتا ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پیمرا اور پاکستان تحریکِ انصاف ہمیں بتا دے کہ فلاں کتاب پر پابندی ہے اور اس پر بحث نہیں کی جا سکتی۔‘

غریدہ فاروقی کا کہنا ہے کہ ’حکومت کو زیادہ تکلیف اس بات سے ہے کہ میں سخت سوالات کیوں کرتی ہوں چونکہ میں حکومت پر تنقید کرنے والے صحافیوں میں شامل ہوں اس لیے مجھے کام کرنے سے روکنے کے لیے میرے اوپر بلواسطہ یا بلاواسطہ دباؤ ڈالا جاتا ہے، بہت عرصے سے وہ کسی بہانے کی تلاش میں تھے اور ابھی انھیں ایک بہانہ مل گیا ہے جس کی آڑ میں وہ ایک بار پھر سے مجھ پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ وہ مجھے چپ کروانا چاہتے ہیں حالانکہ اس کلپ میں ایسی کوئی بات نہیں تھی۔‘

کیا غریدہ نے الزامات اور ٹرولنگ کا بدلہ لینے کی کوشش کی؟

غریدہ ماضی میں بھی حکمران جماعت تحریکِ انصاف کی جانب سے اکثر تنقید کی زد میں آتی رہی ہیں، تو کیا غریدہ نے اپنے پینل میں شامل افراد کی گفتگو میں مداخلت نہ کر کے ایک طرح سے ’سکور سیٹل کرنے کی کوشش‘ کی؟

غریدہ ان الزامات کو سراسر غلط قرار دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ ان کے خلاف پچھلے آٹھ نو سال سے کیمپینز، ٹرینڈز، آن لائن ہراسانی جاری ہے مگر ’میں ایک پروفیشنل صحافی ہوں اور اپنے خلاف الزامات، کیمپینز یا ٹرینڈز کو پروفیشنل کپیسٹی میں نہیں لاؤں گی اور اس کا جواب اسی فورم پر دیتی ہوں جہاں سے اس کا آغاز ہوا ہو۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ سنہ 2014 میں عمران خان کا دھرنا کور کرنے پر مجھ پر پی ٹی آئی کی دلدادہ اینکر ہونے کا ٹیگ لگایا جاتا تھا مگر اس ٹیگ کے باوجود بھی تحریکِ انصاف کے حامیوں اور سپورٹرز کی جانب سے مجھ پر حملے جاری رہتے تھے۔

وہ بتاتی ہیں کہ سوشل میڈیا پر ٹرولنگ کے حوالے سے ایف آئی اے کے پاس ان کی چھ سات درخواستیں زیر التوا ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

’یہ سب عورت سے نفرت والی ذہنیت کا حصہ ہے‘

اس حکومت کو پرفارمنس دکھائی جائے تو جواب میں گالی سننے کو ملتی ہے: عاصمہ شیرازی

’کام سے اختلاف کریں مگر یوں خواتین صحافیوں پر الزام لگانے سے نفرت کا ماحول بنتا ہے‘

’تحریکِ انصاف نہیں کہہ سکتی کہ خواتین صحافیوں کے خلاف نازیبا ٹرینڈز کے پیچھے ان کا ہاتھ نہیں‘

یہ پہلا موقع نہیں کہ جب حکمران جماعت کے آفیشل سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے کسی خاتون صحافی کو ان کے پروگرام یا کالم کی بنیاد پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہو اور ان کی ذات پر حملے کیے گئے ہوں۔

گذشتہ برس اکتوبر میں صحافی عاصمہ شیرازی کے بی بی سی میں شائع ہونے والے ایک کالم کی بنیاد پر پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں شامل وفاقی کابینہ کے چند ارکان اور وزیراعظم عمران خان کے مشیروں اور معاونین کی جانب سے ان کے کالم کا ایک مخصوص حصہ اٹھا کر اس پر سخت تنقید کی گئی تھی اور انھیں ٹرولنگ کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

غریدہ کا کہنا ہے کہ خواتین صحافیوں کی جانب سے تنقید کے جواب میں ان کی ذات پر حملے کرنے کا ٹرینڈ پاکستان تحریکِ انصاف نے ہی متعارف کروایا تھا اور وہ اسے ’انتہائی نیچ حرکت‘ قرار دیتی ہیں۔

غریدہ فاروقی کہتی ہیں کہ ’کم از کم پہلے پاکستان تحریکِ انصاف کو کچھ حد تک ’جھاکا‘ یا ججھک ہوتی تھی اور وہ یہ بات ماننے سے انکار کرتے تھے کہ خواتین صحافیوں پر چلنے والے نازیبا ٹرینڈز کے پیچھے حکومت یا پی ٹی آئی کا ہاتھ ہے۔‘

’ہم اس کے خلاف سینیٹ میں قرارداد بھی لے کر گئے اور حکومت نے ہمیں یہیں جواب دیا کہ ’خواتین صحافیوں کے خلاف ان ٹرینڈز یا کیمپینز کے پیچھے حکومت یا تحریکِ انصاف نہیں، لوگ ہمارا نام استعمال کرتے ہیں تو ہم اس کا کیا کر سکتے ہیں‘ مگر اب وہ ججھک، وہ جھاکا، وہ شرم وہ لحاظ سب ختم ہو چکا ہے اور اب تحریکِ انصاف کے ویریفائڈ اکاؤنٹس، وزرا، معاونینِ خصوصی، وزیرِاعظم ہاؤس میں بیٹھے لوگوں کیجانب سے کھلے عام یہ ٹرینڈز چلائے جاتے ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’یہ انتہائی شرمناک اور افسوس کا مقام ہے اب وہ کھل کر سامنے آ گئے ہیں اور اب یہ نہیں کہہ سکتے کہ خواتین صحافیوں کے خلاف نازیبا ٹرینڈز کے پیچھے ان کا ہاتھ نہیں۔‘

غریدہ کا کہنا ہے کہ ہم کئی برسوں سے برداشت کرتے آئے ہیں، آگے بھی کریں گے مگر اب یہ سلسلہ رکنا چاہیے۔

’اگر آپ کو کسی بھی چیز پر اعتراض ہے تو پیمرا جیسے قانونی فورمز کا سہارا لیں ’مگر آپ نے تو اس سے پہلے ہی میرے خلاف ٹرینڈز چلوانے اور چینل کو بند کروانا شروع کر دیا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ وہ ایسے غیرقانونی ہتکھکنڈوں کو قانونی فورمز پر لے جانے کا پورا حق رکھتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32295 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments