سوات موٹر وے، سیبوں کے باغ اور کشمیری


سوات میں مختلف ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے زمینوں کے حصول کے لئے حصول اراضی قانون کا سیکشن فور لگایا گیا ہے۔ خاص طور پر 80 کلومیٹر طویل سوات ایکسپریس وے کی تعمیر کے لئے آراضی حاصل کرنے کی کارروائی جاری ہے جس میں پھلوں کے باغات اور مکانات بھی شامل ہیں۔ مقامی سطح پر اس معاملے میں غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے اور اس منصوبے کے خلاف احتجاج بھی کیے گئے ہیں۔ متاثرین کو سالانہ انتقالات کے حساب سے معاوضے دیے جا رہے ہیں اور یہ رقم مارکیٹ ریٹ سے کم ہوتی ہے۔

سوات 1858 سے لے کر 1947 تک برطانوی حکومت کے اشتراک سے ایک ریاست رہی۔ سوات جسے مقامی طور پر ’ڈیرہ یوسف زئی‘ کہا جاتا ہے، 1849 میں قائم ہوئی اور 1969 تک قائم رہی۔ سوات عرصہ دراز سے ایک پرکشش سیاحتی مقام ہے جہاں سیاحوں کے لئے اچھے معیار کی سہولیات میسر ہیں۔ سوات ضلع کی 9 تحصیلیں ہیں۔ سوات، مینگورہ، سیدو شریف، مٹہ، بحرین، کالام اہم مقامات، 56 یونین کونسلیں جن میں سے 56 دیہی اور 9 شہری ہیں۔ سوات کے حکمران میاں گل عبدالودود ( بادشاہ صاحب) کا 1940 میں بنایا گیا ’وائٹ پیلس‘ سیدو شریف سے 13 کلومیٹر فاصلے پہ مرغزار کے مقام پہ قائم ہے۔ سفید ماربل سے بنی اس عمارت کا نام ’سواتی پیلس‘ ، پھر ’موتی پیلس‘ اور پھر ’وائٹ پیلس‘ رکھا گیا۔

تقریباً 33 سال پہلے کشمیر کے صحافیوں کے ایک وفد کے ساتھ سوات جانے کا موقع ملا۔ ہم دو ویگنوں میں سوار تھے۔ واپسی پہ ہم ایک جگہ رک کر پیچھے رہ جانے والی دوسری ویگن کا انتظار کر رہے تھے۔ وہاں دائیں ہاتھ پہ ایک کھلی وادی میں دریائے سوات بہہ رہا تھا اور سڑک کے بائیں جانب پھلوں کے وسیع باغات تھے۔ ایک باغ کے اندر گئے تو وہاں چند افراد پیٹیوں میں سیب بھر رہے ہیں۔ ان سے بات چیت ہوئی تو ہم حیران ہوئے کہ وہ کشمیری زبان بول رہے تھے، زیادہ حیرانی اس بات پہ ہوئی کہ ان کے نو عمر بچے بھی کشمیری بول رہے تھے۔

ان سے بات چیت ہوئی تو معلوم ہوا کہ 1947 سے پہلے سوات کے حکمران نے ملحقہ ریاست جموں و کشمیر کے ڈوگرہ حکمران کے ذریعے سیبوں کے باغوں میں کام کرنے والے پچاس، ساٹھ خاندانوں کو سوات لایا تھا۔ وہ کشمیری خاندان سوات میں سیبوں کے باغوں میں کام کرتے اور باغوں کے اندر ہی بنے گھروں میں ان کی رہائش تھی۔ باغوں میں مقامی آبادی سے الگ رہنے کی وجہ سے ان کی زبان اور کلچر محفوظ رہے اور مقامی زبان اور رواجات کے بجائے ان کے اپنے کشمیری رواجات محفوظ رہے۔ آج سوات میں رہنے والے ان کشمیریوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔

تقریباً بارہ، تیرہ سال پہلے معروف بزرگ کشمیری رہنما مولانا عبدالباری ( مرحوم) کے فرزند، نور الباری ( نائب امیر آزاد کشمیر جماعت اسلامی) نے فون پہ بتایا کہ وہ سوات کے رہنے والے ایک سکول ٹیچر کو میرے پاس بھیج رہے ہیں جو ایک کشمیری ہے اور اس کا آزاد کشمیر حکومت میں کوئی کام ہے۔ سوات کا وہ کشمیری سکول ٹیچر آیا، دیکھنے میں ہی وہ سواتی معلوم ہوتا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ اس کا مقبوضہ کشمیر میں کوئی رابطہ ہے؟

اس نے جواب دیا نہیں۔ میں نے پوچھا کہ آپ کا تعلق مقبوضہ کشمیر کے کس علاقے سے ہے، وہ بھی اسے معلوم نہ تھا۔ میرے سوالات کا مقصد یہ تھا کہ اس بارے میں تسلی کی جائے کہ وہ واقعی کشمیری ہے یا نہیں۔ کشمیری زبان کے الفاظ کے بارے میں پوچھا لیکن وہ اس سے بھی لاعلم تھا۔ میں دل میں سوچ رہا تھا کہ یہ کشمیری نہیں ہے بلکہ سوات میں اپنا کوئی مقامی نوعیت کا کام کرانے کے لئے خود کو کشمیری ظاہر کر رہا ہے۔ اس ملاقات کا زیادہ وقت اس سے میرے اسی طرح کے سوالات میں گزرا۔

وہ رخصت ہونے لگا تو اچانک اسے کچھ یاد آیا اور وہ دروازے سے پلٹ کر کہنے لگا ”ہاں مجھے یاد آیا کہ میری دادی رات کو سونے سے پہلے ایک دعا مانگا کرتی تھی، اور ساتھ ہی بے اختیار کشمیری زبان میں ایک دعائیہ جملہ سنا دیا۔ میں اس کی یہ بات سن کر اپنی نشست سے اٹھا اور اس کے قریب جا کر اسے گلے لگاتے ہوئے کہا کہ اب میں تسلیم کرتا ہوں کہ آپ واقعی کشمیری ہیں کیونکہ کشمیر زبان کا یہ دعائیہ جملہ کوئی غیر کشمیری ادا نہیں کر سکتا۔

پھر میں نے اسے یہ بھی بتایا کہ کشمیر سے متعلق کسی قسم کی بھی معلومات نہ ہونے کی وجہ سے میں دل میں یہی سوچ رہا تھا کہ آپ کشمیری نہیں ہیں، تاہم خود کو کشمیری ظاہر کر رہے ہیں۔ سوات ایکسپریس وے کی تعمیر کے حوالے سے سیبوں کے باغات ختم ہونے کی خبریں دیکھیں تو سوات کے باغوں میں کام کرنے والے کشمیری خاندان اور سوات میں رہنے والا وہ کشمیری سکول ٹیچر یاد آ گئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments