شریفوں کی کرپشن، سٹیل، چینی اور لندن اپارٹمنٹ


تین بار کے وزیر اعظم نواز شریف بُری طرح رگیدے جا رہے ہیں۔ اپنی سیاسی جانشین بیٹی، مریم نواز کے ہمراہ 165 عدالتی پیشیوں کے بعد کرپشن کے مقدمات میں سزا یافتہ اور سیاست سے تاحیات نااہل۔ کرپشن کے یہ اِلزامات اُس منظم مہم کا حصہ ہیں جس کا مقصد پاکستانی سیاست دانوں کو بدنام کرنا ہے، سیاست دانوں کو بدنام کرنے کی اس منظم مہم کی منطق اس کے منصوبہ سازوں کو ہی معلوم ہے۔

نوبت بہ ایں جا رسید کہ آج کل اُن کے بھائی شہباز شریف بھی طوفان کی زد میں ہیں، جن کی ساکھ اب تک یہی تھی کہ وہ بحیثیت مجموعی صاف ہاتھوں سے جنونی انداز میں کام کرنے والے شخص ہیں۔ حتیٰ کہ نیب نے حدیبیہ پیپر مل مقدمے جیسے مردہ گھوڑے کو دوبارہ کھولنے کے لیے بھی درخواست کر رکھی ہے تاکہ کسی طرح سے شہباز شریف کو بھی کرپشن کے الزامات میں گھیر کر پھنسایا جا سکے۔

موجودہ حکومت نے شریف خاندان کے پاکستان میں موجود تمام افراد کے علاوہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ساری اعلیٰ قیادت کو بھی، کسی ایک مقدمے میں سزا کے بغیر،ہراساں کیا اور جیلوں میں ڈالا۔

اب یہ بات تو کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ ملک کی تمام اعلیٰ سیاسی قیادت کے خلاف، خواہ اس کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو، کرپشن کرپشن کا ڈھنڈورا پیٹنے کی مہم کوئی من موجی اور اِضطرابی لہر نہیں ہے بلکہ اس کا قلیل مدتی مقصد تو موجودہ حکومت کے لیے جواز تراشنا اور طویل مدت میں پاکستان کی سیاسی قیادت کو منظم انداز میں نقصان پہنچانا ہے۔

چیف پراسیکیوٹر شہزاد اکبر کے زوال اور انہیں بس سے باہر پھینکے جانے کے بعد، پی ٹی آئی یقینا پریشانی کے عالم میں اِدھر اُدھر دیکھ رہی ہے کہ اب یہ ذمہ داری کسے سونپی جائے۔ 2009 تک شہزاد اکبر اُن تین درجن وکلا میں شامل تھے جن کی خدمات نیب پینل کے لیے حاصل کی گئی تھیں۔ اُنہیں سکاٹ لینڈ یارڈ کے وائٹ کالر کرائم کے انسداد کے شعبے کے سربراہ جیسا کردار کون تفویض کرنے کی طاقت رکھتا تھا، اِس کا اندازہ لگانا شاید کسی کے لیے بھی مشکل نہ ہو۔ اس کے نتائج آپ کے سامنے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہو سکتے ہیں جنہوں نے ایف آئی اے کے واجد ضیاء کو (شریف خاندان کے خلاف چلائے جانے والے پانامہ مقدمے میں، بطور جے آئی ٹی سربراہ ، چیف پراسیکیوٹر) شریف خاندان کی سزا کے بعد حج کے لیے جانے والے سرکاری وفد کی سربراہی سونپی تھی۔

اگرچہ میڈیا پر جعلی بینک اکاؤنٹوں اور بے نامی داروں کی خبروں کا ایک طوفان برپا ہے، اِن خبروں کا آغاز زرداری سے ہوا اور شہباز شریف پر اس کی انتہا ہوئی، اب تک حکومتی ترجمان ایک بھی بینکر یا جعلی اکاؤنٹ ہولڈر کو میڈیا کے سامنے پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اگر شہزاد اکبر کو اپنی تفتیش پر اِتنا ہی یقین تھا تو اُنہیں اپنی کہانی کے تانے بانے میں موجود حقیقی کرداروں کو سامنے لانے سے اِتنا گریز کیوں تھا؟ کیا انہوں نے میڈیا کو کسی بھی بینک کی تصدیق شُدہ کوئی دستاویز دکھائی ہے جس سے ثابت ہو کہ جعلی اکاؤنٹ ہولڈر نے اُن کروڑ ہا روپےکی کوئی ٹرانزیکشن کی ہو، جن کے الزامات وہ اکثر دہراتے تھے۔

آئیے اب شریف خاندان کی مبینہ کرپشن کا کچھ حساب کتاب جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ہر کوئی اس بات سے آگاہ ہے کہ میاں محمد شریف نے 1939 میں سٹیل کے کاروبار کا آغاز صرف اور صرف اپنے بل بوتے پر کیا تھا۔ اُنہوں نے اپنے سات بھائیوں کی اَن تھک محنت کے طفیل اتفاق فاؤنڈری کو پاکستان کے بائیس امیر ترین خاندانوں کی صف میں پہنچا دیا، اِس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے نیشنلائزیشن کی وسیع پالیسی کے تحت پاکستان بھر میں پرائمری اور سکینڈری نوعیت کی صنعتوں کو قومیا لیا۔

لیکن 1939-1969 کے (چالیس برس) کے عرصے میں شریف خاندان پاکستان میں فوجی استعمال میں آنے والی جیپ نشان کے ڈیزل انجن کی کیسنگ بنانے کے علاوہ ہر طرح کی الیکٹرومکینکیل اوزار، گندم اور چاول کی فصلوں کے لیے تھریشر اور حتیٰ کہ بلڈوزر بھی تیار کر رہا تھا، اِن سب مصنوعات سے ہونے والی آمدنی اُس زمانے میں بھی کروڑوں کو پہنچتی تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ بُری طرح نوچے کھسوٹے جانے کے بعد جب جنرل ضیاء الحق نے 1978ء میں اتفاق فاؤنڈی شریف خاندان کو واپس لوٹائی تو صرف تین برس بعد یعنی 1981ء میں اس کا ٹرن اوور 33 کروڑ پاکستانی روپے (اُس زمانے کے سولہ ملین امریکی ڈالر) تک پہنچ گیا تھا۔ 1968ء میں فاؤنڈری کے تین مختلف پیداواری یونٹ آزادانہ کام کر رہے تھے اور یہاں کام کرنے والے ملازمین کی تعداد دو ہزار سے زائد اور اس کی کیپٹلائزیشن ایک ارب روپےسے زیادہ کی تھی۔ اتفاق فاؤنڈری نے 1979-86 کے عرصے میں 894 ملین روپوں کی ادائیگی کی۔ 3.5 بلین کی بینکوں کی ادائیگی کے لیے جس وقت فاؤنڈری بینکوں کے حوالے کی گئی اُس وقت اس کی مالیت چھ ارب روپے لگائی گئی تھی۔

سیٹھ لطیف کی بیکو (بعد ازاں پیکو) اور میاں شریف کی اتفاق فاؤنڈری (بعد ازاں اسے لیکو کا نام دیا گیا) لاہور میں ہیوی سٹیل انڈسٹری کے دو ایسے صنعتی یونٹ تھے جو اکثر سرکاری مہمانوں کو ساٹھ کے عشرے میں پاکستان میں قائم ہوئی فیکٹریوں کے نمونے کے طور پر دِکھائے جاتے تھے۔

یہ سب کُچھ 1981ء میں نواز شریف کے بطور وزیر خزانہ، پنجاب حکومت میں شمولیت سے پہلے کی باتیں ہیں۔ 1985ء میں ہونے والے غیر جماعتی انتخابات کے بعد نواز شریف کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ مبینہ طور پر اس کے بعد اُن کے بہت بار مدد کی گئی کہ وہ پنجاب میں یعنی ملک کے سب سے بڑے صوبے میں اپنی حکومت برقرار رکھ سکیں اور اس کے بعد 1988 میں آئی جے آئی نامی اتحاد بنوانے میں بھی ’’مہربانوں‘‘ کا نام لیا جاتا رہا۔

اُس وقت تک تمام شریف بھائی ماڈل ٹاؤن لاہور میں قطار در قطار بنے اپنے ’’وائٹ ہاؤسوں‘‘میں رہائش پذیر ہو چکے تھے، اِس وقت اگر ان گھروں کی مالیت کا اندازہ لگایا جائے تو ماڈل ٹاؤن، لاہور میں واقع ہر گھر تقریباً دو ملین امریکی ڈالروں کے مساوی ہو گا۔

سٹیل انڈسٹری میں مارکیٹ لیڈر کا درجہ حاصل کر لینے کے بعد میاں شریف نے اپنی توجہ چینی اور ٹیکسٹائل کی روایتی صنعتوں کی جانب مرکوز کی۔ بینکوں کے ساتھ اپنے کامیاب کاروباری تجربے اور اپنی ساکھ کی وجہ سے میاں شریف نے 1980-1985 کے عرصے میں چینی اور ٹیکسٹائل کے یونٹ لگا لیے۔ اس کام کی شروعات 1981ء میں نواز شریف کے بطور وزیر خزانہ تعیناتی سے پہلے ہی ہو چکی تھی۔

شریف خاندان کے کاروبار میں بڑھوتری کا تیسرا دور حالیہ برسوں میں دیکھنے میں آیا جب نواز شریف اور شہباز شریف کے خاندانوں میں اثاثوں کی تقسیم کے بعد دونوں گھرانوں نے الگ الگ کاروبار شروع کیے، حمزہ شہباز شریف نے پولٹری فیڈ ملز اور دودھ کی مصنوعات کے کاروبار کو’’انہار‘‘ کے نام سے فروغ دیا۔

ایون فیلڈ کے جن چار اپارٹمنٹس کو کرپشن کا استعارہ بنا دیا گیا وہ 1993-96 کے دوران میاں شریف نے بتدریج آٹھ لاکھ امریکی ڈالر(سولہ کروڑ روپے) میں اپنے تین بیٹوں کے لیے خریدے۔ بعد ازاں اِن تینوں اپارٹمنٹوں کو مِلا کر ایک ہی بڑا اپارٹمنٹ بنا دیا گیا۔ حقیقتاً 2008ء سے یہ اپارٹمنٹ سات ملین برطانوی پاؤنڈ کے عوض برطانوی بینکوں اور اب ڈوئچے بینک یو کے کے پاس گروی ہیں۔ برطانوی اخبار ڈیلی میل کے مطابق 2018ء میں ان اپارٹمنٹس کی مالیت تقریباً اس حاصل کردہ قرض کے مساوی ہی تھی۔

پی ٹی آئی حکومت کے ترجمان آج کل شہباز شریف کو شریف خاندان کی مبینہ کرپشن کے پیچھے موجود شہ دماغ قرار دیتے ہیں، ابھی تھوڑا عرصہ پہلے ہی انہیں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) نے ایف آئی اے، نیب اور شہزاد اکبر کی جانب سے عائد کردہ الزامات سے دو برس کی طویل تفتیش کے بعد بَری کیا ہے۔ مقصود چپڑاسی کے ذریعے 4 سے 8 ارب روپے کا پروپیگنڈہ کر کر کے آسمان سر پر اُٹھا لینے کے باوجود حال ہی میں برطانوی عدالت میں این سی اے کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹ شریف خاندان کی ’’کرپشن‘‘ پر کافی روشنی ڈالتی ہے۔

1۔ شہباز شریف نے انیل مسرت (عمران خان کے دوست) سے ساٹھ ہزار پاؤنڈ قرض لے کر 315,000 پاؤنڈ (2005ء میں یہ رقم تین کروڑ روپے بنتی تھی) کے ایک فلیٹ کے لیے ڈاؤن پیمنٹ ادا کی، بعد ازاں یہ قرض معاہدے کے مطابق واپس لوٹا دیا گیا۔ یہ اپارٹمنٹ اُن کے بیٹے سلمان شہباز کے لیے خریدا گیا تھا اور اس کے لیے بارکلیز بینک نے قرض دیا تھا۔ آمدنی سے زائد اثاثوں کا کیس ختم۔

2۔ حمزہ شہباز نے 75000 پاؤنڈ (پندرہ ملین روپے) اپنی اکلوتی بیٹی کے علاج کے لیے برطانیہ میں ذوالفقار نامی شخص سے بطور قرض لیے۔

3۔ ایون فیلڈ اپارٹمنٹس 2008 سے سات ملین پاؤنڈ قرض کے عوض ڈوئچے بینک کے پاس گروی رکھے ہیں۔

5۔ شہزاد اکبر نے این سی اے، یوکے کو جو دستاویزات مہیا کیں اُن کے مطابق پچیس ملین روپے شہباز شریف کی بینک سٹیٹ منٹ اور آمدن سے لگّا نہیں کھاتے اور انہیں گروپ کے مختلف ملازمین اور کمپنیوں کے اکاؤنٹس میں تلاش کیا جائے۔ کیا ریاست سنجیدگی سے ایسا سوچتی ہے کہ شہباز شریف کے قد و قامت اور اثاثے رکھنے والا بندہ کسی دوسرے ملک میں، برطانیہ میں، جا کر فراڈ کرے گا؟

5۔ انیل مسرت (جن کے بارے میں عمران خان کا خیال ہے کہ وہ ان کے ہاؤسنگ منصوبوں میں کئی بلین پاؤنڈ کی سرمایہ کاری کریں گے) پاکستانی نژاد شخص ہیں اور وہ پاکستان میں اہمیت رکھنے والے ہر شخص کے ساتھ تعلقات استوار رکھتے ہیں۔

سفارش: 2016ء میں جنرل (ر) راحیل شریف کی مادرِ وطن کی ایماندارانہ اور ثابت قدم خِدمات کے عوض جو شاہی ریٹائرمنٹ ہوئی اس کے بارے میں مقامی اور عالمی میڈیا نے بڑے پیمانے پر خبریں دیں کہ اس کا تصفیہ تقریباً تیس ملین امریکی ڈالر کے عوض ہوا تھا، تو ایسے میں یہ تجویز پیش کی جا سکتی ہے کہ پاکستان کے وزرائے اعظم کو کم از کم اس سے دُگنی رقم، ساٹھ ملین امریکی ڈالر، کی مراعات تو دیں تاکہ وہ ایف بی آر کے سامنے بروقت اور مکمل طور پر اپنے اثاثے ظاہر کر سکیں اور انہیں اپنے وہ سمر ہاؤس چھپانے کی ضرورت درپیش نہ ہو جو اسی خطۂ زمین پر ہی واقع ہیں جس سے ہم سب تعلق رکھتے ہیں۔

عمران باجوہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عمران باجوہ

مصنف کو تحقیقی صحافت کے لیے اے پی این ایس کی جانب سے ایوارڈ مل چکا ہے۔

imran-bajwa-awon-ali has 17 posts and counting.See all posts by imran-bajwa-awon-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments