ریاست مدینہ کے ٹاپ ٹین


51 رکنی کابینہ میں سے چن چن کر ”ٹاپ“ 10 وزیروں کی فہرست جاری ہونے کے بعد نہ جانے کیوں ان تمام نیک نام اور بدنام زمانہ معززین کی ایسی ایسی صورتیں نظروں میں پھرنے لگیں کہ آنکھوں کی پتلیاں ہی باہر آ گئیں اور یکایک ایک مزاحیہ سا کٹھ پتلی تماشا اپنی پوری رعنائیوں کے ساتھ دکھائی دینے لگا۔ سیٹھ عابد سے لے کر عابد حسین قریشی عرف عابد باکسر المشہور (نرگس کی ٹنڈ کرنے والا بہادر جوان) گوالمنڈی کی فوڈ سٹریٹ کا سرخیل خواجہ عقیل المعروف گوگی بٹ، شیروں کا شوقین عارف امیر بٹ المعروف ٹیپو ٹرکاں والا، لیاری کا شہزادہ عزیر بلوچ، پولیس مقابلوں کا سپیشلسٹ وطن کا سپوت راؤ انوار اور خدا جانے کون کون سے نورانی چہرے خوابوں تک میں پیچھا کرتے رہے۔

پھر ڈراموں کا سلسلہ شروع ہو گیا جیسے امانت، صنف آہن، تمہارے حسن کے نام، موڑ مہاراں، بے رخی، بدذات، میرے اپنے اور پری زاد کے حسین و جمیل کردار اور ان کے ڈائیلاگ۔ اس کے بعد مولانا طارق جمیل کی حوریں اور ثاقب رضا مصطفائی کے غلمان جنت الفردوس سے براہ راست نشر ہونے لگے۔ لیکن ان سب ڈراموں، کرداروں اور سحر طاری کرنے والے مکالموں کا فسوں اس ایک بیان کے آگے ماند پڑ گیا کہ جس میں ریاست مدینہ جدیدہ کے خلیفہ اول و آخر عالی مرتبت اور عالی جاہ عمران خان صاحب حفظ اللہ تعالیٰ کا فرمانا تھا ”سزا اور جزا کے بغیر کوئی نظام کامیاب نہیں ہو سکتا تعریفی اسناد کی تقسیم سے وزارتوں کی کارکردگی مزید بہتر ہو جائے گی، گورننس کا مقصد عوام کی زندگی میں بہتری لانا ہونا چاہیے“ ۔ یقین مانیے ایمان تازہ ہو گیا۔

کس کی مجال کہ اس قول زریں سے رتی برابر بھی اختلاف کی جرآت کرسکے مگر حضور عالی مقام جاری کی گئی اس رینکنگ پر جو سوال اٹھ رہے ہیں ان کا جواب کون دے گا؟ بنیادی طور پر ہوتا ہے کہ ہر درجہ بندی کا ایک پیمانہ مقرر کیا جاتا ہے، پھر اسے رپورٹ یا سروے کی شکل میں پیش کیا جاتا ہے جس سے یہ سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ درجہ بندی کے لیے کیا معیار مقرر کیا گیا؛ تاہم جن 23 وزارتوں کی کارکردگی 80 فیصد بتائی گئی ہے اس کے لیے پیمانہ اور معیار کیا رکھا گیا؟ کیا اس سلسلے میں کسی غیر جانبدار ادارے سے سروے کروا نے کا تکلف کیا گیا یا حکومت کے داخلی نظام میں کچھ ایسا بندوبست موجود ہے جس سے کارکردگی کا اندازہ خود کار طریقے سے از خود ہی ہو گیا؟

حکومتی کارکردگی اتنی ہی بہترین ہے تو عوام میں جانے اور جلسے جلوسوں کا اعلان کس لئے؟ اب یہ بوکھلاہٹ نہیں تو اور کیا کہ اپنے ہی منظور نظر وزیروں مشیروں میں توصیفی اسناد بانٹی جا رہی ہیں گویا اندھا راجہ چوپٹ نگری۔ کارکردگی جانچنے کے لیے مقرر کیے گئے پیرامیٹرز کو پبلک کیا جاتا تو عوام بھی جان سکتے کہ وزارتوں کی کارکردگی کا تخمینہ کن بنیادوں پر لگایا جا رہا ہے بلکہ بہتر ہوتا عوام سے رائے طلب کی جاتی کہ کون سی وزارت کی کارکردگی کتنی ہے اور وہ کس وزارت کی کارکردگی سے مطمئن ہیں۔

جو کچھ کیا گیا ایسے ہی ہے کہ آپ خود اپنے آپ کو نمبر دے دیں، اسے کون مانے گا سوائے نمبر بازوں کے؟ حیران کن طور پر دس بہترین وزارتوں میں وزارت صنعت و پیداوار بھی شامل ہے اور یہ اس وقت ہو رہا ہے جب ملک میں کھادوں کی قیمت سو فیصد سے بھی بڑھ چکی ہے اور کھادوں کا بحران بدترین صورت اختیار کر چکا ہے۔ بعض علاقوں میں تو کھادیں دستیاب ہی نہیں جہاں ہیں بلیک میں فروخت ہو رہی ہیں۔ وزارت صنعت و پیداوار ملک میں وافر کھاد کی پیداوار کے دعوے کرتی رہی لیکن بحران شدید تر ہوتا گیا۔

اس بحران میں وزارت کی کارکردگی منفی رہی وزیر اعظم کی جانب سے مسلسل یقین دہانیوں کے باوجود یہ وزارت کھاد کے بحران کو کم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ اس وزارت سے منسلک یہ پہلا بحران نہیں تھا، یاد کریں اس سے پہلے چینی بنانے والے کارخانوں نے کیا کچھ نہیں کیا۔ کس طرح مارکیٹ میں چینی کی بدترین قلت رہی اور لوگ لمبی قطاروں میں لگ کر چینی مانگتے رہے۔ وزارت صنعت و پیداوار اس صورتحال سے لاتعلق اور خاموش تماشائی بنی رہی اور حکومت کو بالآخر چینی درآمد کر کے اس بحران کو ٹالنا پڑا جس طرح اب کھاد کے بحران میں کیا جا رہا ہے۔

وزارت صنعت و پیداوار کی کارکردگی میں ان بحرانوں کے سوا نمایاں طور پر کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ وزارت تخفیف غربت کو حسن کارکردگی کی توصیفی سند بھی حیران کن ہے کیونکہ ملک میں فی الواقع غربت میں اضافہ ہو رہا ہے اور ورلڈ بینک کے تخمینے کے مطابق روزانہ 3.2 ڈالر کمانے والے کم اور درمیانی آمدنی والے طبقے کی غربت جو 2020۔ 21 میں 39.3 فیصد تھی 2022۔ 23 میں 39.2 فیصد تک پہنچ جائے گی۔ حکومت کے تخفیف غربت کے محکمے نے بڑھتی ہوئی غربت کو مفت کی روٹی جیسے منصوبوں کی اوٹ میں چھپانا چاہا اور ایسے بیانیے دیے کہ غریبوں کو روٹی کھلانے سے ملک میں برکت آتی ہے مگر حقیقی بنیادوں پر دیکھا جائے کہ ان منصوبوں اور ان پر خرچ ہونے والے وسائل کے کیا اثرات ہیں؟

ان مفت کی روٹیوں نے کتنے کنبوں کے مالی مسائل حل کیے؟ حکومت غربت کی دلدل میں دھنستے ہوئے لوگوں کے لیے آمدنی بڑھانے کے مفید اور پائیدار منصوبے شروع کر سکتی تھی۔ ایسے روزگار اور ہنر جو کم آمدنی والے طبقے کو پائیدار معاشی استحکام عطا کرتے اور لوگ مفت کی روٹی سے بے نیاز ہو کر ہاتھ کی کمائی سے عزت کی روٹی کھانے کے قابل ہو جاتے لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ اگر تخفیف غربت کی وزارت نے کوئی ایسا کام کیا ہوتا تو اسے ضرور حسن کارکردگی کی سند پیش کی جانی چاہیے تھی۔

وزارت فوڈ سکیورٹی کا حال بھی یہی ہے کہ اس دوران جب ملک میں خوراک کی مہنگائی سب سے زیادہ ہے اور آنے والے وقت میں اس میں کمی کے کوئی آثار بھی نہیں وزارت فوڈ سکیورٹی اینڈ ریسرچ کس بہترین کارکردگی کا دعویٰ رکھتی ہے۔ کیا لوگ بھول گئے ہوں گے کہ جب ملک میں گندم اور آٹے کی قلت کا بحران پیدا ہوا تو اس وزارت کے سربراہ نے کہا تھا: مجھے نہیں پتا گندم کہاں گئی۔ پھر وزیر اعظم اور دوسرے وزرا ہر دوسرے دن یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ قومی معیشت مستحکم ہو چکی۔ اگر یہ دعوے مبنی بر حقیقت ہیں تو وزیر خزانہ شوکت ترین کو کیوں بہترین کارکردگی کے اعزاز سے محروم رکھا گیا؟ البتہ مراد سعید کا اول پوزیشن حاصل کرنا سب کی سمجھ میں بخوبی آتا ہے جسے سمجھ نہیں آتا وہ بنی گالہ کی سابق مالکن کی کتاب سے رجوع کر سکتا ہے۔ شکر ہے فیصل واوڈا نا اہل ہو گیا ورنہ۔ ؟

تقریب تقسیم اسناد کے بعد یوں معلوم ہوتا ہے جیسے ہم کسی آسیب زدہ یا کسی ایسی طلسماتی دنیا کے مکین ہیں جس پر پری زادوں کی حکومت قائم ہو۔ تالی بجائی جاتی ہے، جن حاضر ہو کر پوچھتا ہے کیا حکم ہے میرے آقا، کوئی کام بتاؤ، میں کیا کروں، میں کس کو کھاؤں اور پھر سب کچھ ہڑپ۔ ہائے زکوٹا جن یاد آ گیا، بے چارہ پیسہ اخبار کا معمولی سا منا لاہوری جسے اس کے محض ایک کردار نے بام عروج تک تو پہنچا دیا لیکن مرتے وقت وہ دو وقت کی روٹی تک کا محتاج تھا اور اس کے گھر والے امداد کی دہائی دیتے دیتے ہلکان ہوتے رہے۔

لیکن امید ہے اب چین سے ہوں گے کہ لنگر خانے بھی چل رہے ہیں، پناہ گاہیں بھی قائم ہیں اور احساس پروگرام سے لے کر انصاف صحت کارڈ تک سب کچھ دستیاب ہے۔ اگر کچھ مل نہیں رہا تو آٹا، چینی اور دال جیسی حقیر چیزیں جن پر صرف اور صرف غریب غرباء کی گزر اوقات ہے ورنہ تو پاپی پیٹ بھرنے کے لئے پاپا جونز کا پیزا ہی کافی ہے۔ محنت کر پیارے حسد نہ کر۔ نصیب اپنے اپنے۔ جلنے والے کا منہ کالا۔

مجھے کام بتاؤ، کیا کروں، میں کس کو کھاؤں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments