بے چاری اقلیتیں


میں انتہائی شکر گزار ہو مسکان خان کا جس نے اقلیتوں کے مذہبی نظریات کی پاسداری پر اپنے فلک شگاف نعروں سے کی۔ پاکستان کے غیرت مند عوام کو جگایا ہے اور انہیں بتا دیا ہے کہ تعداد میں کم ہونے کا مطلب قطعاً کم تر نہیں ہوتا۔ مجھے اس وڈیو میں ایسے دکھائی دے رہا تھا جیسے یہ واقعہ پاکستان کی کسی یونیورسٹی یا کالج میں ہو رہا ہو جہاں ایک ہندو یا مسیحی کو اپنے عقیدے کے مطابق زندگی گزرنے اور دن رات دین کی تبدیلی کی دعوتوں سے بیزار آواز حق بلند کرنے کا تاثر مل رہا ہو۔

مسکان بیٹا شاباش! اکثریت یا اقلیت محض نمبرز ہوتے ہیں۔ آئین اور ریاست ماں باپ جیسے ہی تو ہوتے ہیں اگر والدین آپ کی فیور میں ہیں تو بڑے بہن بھائی آپ کے حصے کی سہولتیں ہڑپ نہیں کر سکتے کم از کم آپ کو ان کی شفقت اور انصاف کا بھروسا تو ہوتا ہے۔ آپ کا بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو میں، اپنے آئین اور عدلیہ پر اعتماد بتاتا کے ابھی سارے دروازے بند نہیں ہوئے۔ بہت اعلٰی شاباش۔

چند مہینے پہلے ایک دوست سے ملاقات ہو گئی اور ہم بچوں کے حوالہ سے ایک دوسرے سے پوچھنے تعلیمی معاملات کے بارے میں پوچھنے لگے۔ دوست نے کہا بس یار! ویسے تو سب کچھ ٹھیک ہے لیکن بیٹی آج کل یونیورسٹی نہیں جا رہی، یہ سب بتاتے ہوئے اس کے چہرے پر افسردگی اور دکھ تھا۔ کہنے لگا! یار یونیورسٹی میں آئے مذہبی ہراسمنٹ کرنے کے وجہ سے بیٹی ذہنی دباؤ کا شکار ہونے لگ گئی تھی۔ پہلے تو بیٹی نے کچھ بتایا ہی نہیں، بس اچانک پڑھائی چھوڑ دی۔

میرے مزید اصرار کرنے پر پتہ چلا کہ ساتھی طالبات سے لے کر استاد تک ہر کوئی جماعت میں اصل مضمون پڑھانے کے بجائے اور ہی پڑھایا جاتا ہے۔ یعنی کلاس میں داخل ہوتے ہی موصوفان مغرب اور امریکہ کو برا بھلا کہنے سے شروع ہوتے اور ہمارے مذہب کی برائیوں پر جاکر ختم ہوتے۔ یہ سلسلہ کئی مہینوں سے جاری ہے۔ اس نے مزید کہا! میں نے بہت سمجھایا بیٹا ہم پاکستانی ہیں ہمیں امریکہ سے کیا لینا دینا اور جہاں تک ہمارے مذہب کا تعلق ہے بیٹا کوئی بات نہیں کسی کچھ کہنے سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جب وہ اپنی بیٹی کے متعلق بتا رہا تھا تو مجھے اپنی بیٹی کے ساتھ بھی ایسا سلوک یاد آ رہا ہے تھا اور اس طرح کی شکایات کا کم و بیش پاکستان میں ہر غیر مسلم بچے کو سکول، کالج یونیورسٹی سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اب دوبارہ مسکان خان پر آتا ہوں۔ بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے اس نے کہا! ”مجھے اپنی عدالتوں پر پورا بھروسا ہے وہ ہمیں انصاف دیں گی کیونکہ وہ وہ سیکولر ہیں۔“ ۔ بھارت میں اقلیتوں پر آج واقعی کڑا وقت ہے جو اس سے پہلے نہیں کیونکہ جب سے وہاں مذہبی انتہاپسند آر ایس ایس کو موجودہ سرکار کی پشت پناہی حاصل ہوئی ہے بھارت میں اقلیتوں کا جینا دوبھر ہو گیا ہے۔ جب تک بھارت سیکولر تھا اور تب تک ملک میں سب مذاہب ایک دوسرے کے ساتھ بھائیوں کی طرح رہتے تھے اور آج وہاں کی سب سے بڑی اقلیت بھی ملک میں سیکولر نظام کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہی۔

حیرت اس بات پر ہے کہ ملک کی اسی فیصد آبادی ہندو ہے پھر بھی ہندوازم کو خطرہ ہے۔ لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوتی ہمارے ہاں بھی ہمارے اپنے وزیراعظم بھی دنیا کو یہ باور کرا چکے ہیں کہ دنیا کو اسلامو فوبیا ہے ہو سکتا ہو لیکن پاکستان میں کس کو اسلاموفوبیا ہے یہاں تو انڈیا کی طرح مسلم اکثریت میں ہے بلکہ آبادی ستانوے فیصد ہیں پھر آئے روز اقلیتوں کا بالخصوص بچیوں کا جبری مذہب تبدیل کروا جاتا ہے۔ اگر بھارت میں ہندتوا کا فروغ ہو رہا ہے اور پاکستان میں مذہبی انتہاپسندی سرکاری سرپرستی میں فروغ پا رہی ہے۔

ہمارے تو اپنے محترم اپنی ہر تقریر مودی کی طرح مذہب سے شروع کرتے مذہب پر ختم کرتے ہیں بلکہ وہ تو یو این او میں بھی فرما آئے کے مغرب میں اسلامو فوبیا ہے ہو سکتا ہے ایسا ہی ہو لیکن جیسے ہمیں اپنی دینی اور سماجی روایات پیاری ایسے ہی مغرب بھی اپنی روایات پر کمپرومائز کرنے کے لیے تیار نہ ہوتا ہو۔ بہرحال ہمیں تو اپنے ملک کو دیکھنا چاہیے بھاڑ میں جائے بھارت اور مغرب۔

بھارت میں اگر ایک مسکان جیسے مسلم بچی اور طلبہ پر اس کے دین پر عمل کرنے پر زمین تنگ ہوئی ہے اور ہمارے پیارے وطن میں بھی یہ ثواب دن رات کمایا جا رہا ہے۔ مسکان کو تو اس کا سمیدان (آئین ) تحفظ دے رہا مسئلہ تو ہمارا ہے ہمیں کون تحفظ دے۔ نہ سکول، نہ کالج نہ یونیورسٹیوں میں اساتذہ بچوں کے سر پر بغیر کیس مذہبی تفریق کے ہاتھ رکھنے کے لیے تیار ہیں بلکہ ہمارے بچوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر دعوت دی جاتی ہے۔ حالانکہ ہمارے دور سے لے کر آج تک بالخصوص سرکاری تعلیمی اداروں میں غیر مسلم بچوں کی تعداد بمشکل ایک، دو یا تین سے زیادہ ہوتی ہے اور وہ بھی یونیورسٹی تک پہنچتے پہنچتے تو کبھی کبھی مائنس میں چلی جاتی ہے۔

مسکان خاں میں اس لیے ہمت ہے کیونکہ وہاں کا آئین سیکولر اور نظام غیر جانبدار ہے۔ ہمارے ہاں پہلے تو یہ تسلیم کرنے کے لیے کو کئی تیار نہیں کہ اقلیتوں کو کئی مسائل درپیش بھی ہیں یا نہیں اور حیرت اس بات پر بھی کہ فلسطین میں ہو یا بھارت میں یا پھر میانمار میں وہاں پر ہونے والے ظلم کے بارے میں ہماری سرکار اور میڈیا کو سب کچھ نظر آتا ہے لیکن اپنے گھر میں کیا ہو رہا یہ نظر کیوں نہیں آتا۔ ظلم ظلم ہی ہوتا ہے وہ دیس میں ہو یا پردیس اس کی مذمت ہونی چاہیے۔ خدا رہا ملک کو بچانا ہے تو عدل کا نظام درست کریں۔ تاکہ ملک کا ہر شہری اپنے آپ کو برابر کا پاکستانی سمجھ سکے۔ پاکستان پائندہ باد۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments