اب برف باری دیکھنے کہاں جائیں؟ (مکمل کالم)


اگر آپ سیر و سیاحت کے دلدادہ ہیں، پہاڑوں کی برف آپ کو رومان انگیز لگتی ہے، کم وقت میں زیادہ لطف اٹھانا چاہتے ہیں اور میری طرح ایڈونچر کے شائق بھی نہیں یعنی برف باری دیکھنے کے بعد اپنے اہل خانہ کے ساتھ زندہ سلامت گھر واپس آنا چاہتے ہیں تو پھر ان سردیوں میں مالم جبہ سے ہو آئیں۔ جب سے مری کا سانحہ ہوا ہے، ہر بندہ ہی برف باری سے خوفزدہ ہو گیا ہے۔ اور یہ خوف بلا وجہ نہیں۔ پاکستان کے شمالی علاقے بلاشبہ بہت خوبصورت ہیں مگر بہرحال یہ پاکستان میں ہیں۔ ان علاقوں کی انتظامیہ اور سرکاری اہلکار بھی اتنے ہی سست اور نا اہل ہیں جتنے باقی پاکستان کے۔ مگر جب ہم سیاحت کا موڈ بنا کر گھر سے نکلتے ہیں تو ہمارے دماغ میں ان حسین مناظر کا تصور ہوتا ہے جو تصاویر میں بالکل ناروے اور سویٹزرلینڈ کی طرح لگتے ہیں۔

شاید اسی لیے یہ بات ہمارے لا شعور میں بیٹھ چکی ہے کہ پاکستان پوری دنیا سے زیادہ خوبصورت ہے اور یہاں جس قسم کے پہاڑ، دریا، سمندر اور صحرا ہیں وہ کرہ ارض پر کسی اور ملک کے پاس نہیں۔ یہ غلط فہمی بالکل ویسی ہے جیسے بچپن میں ہم سمجھتے تھے کہ گورنمنٹ کالج لاہور ایشیا کا بہترین کالج ہے اور یہ بھول جاتے تھے کہ ایشیا میں جاپان، چین، سنگا پور، جنوبی کوریا اور بھارت بھی شامل ہیں۔ سو پاکستانی سیاحت کو فروغ دینے کے چکر میں جب ہم ناروے اور سویٹزرلینڈ سے موازنہ کرنا شروع کر دیتے ہیں تو یہ فراموش کر بیٹھتے ہیں کہ وہاں کی سہولیات کا ہم سے کوئی مقابلہ نہیں۔ اور پھر جب برف پوش پہاڑوں کی چوٹیوں پر ہمیں وہ سہولتیں نہیں ملتیں تو ہم مایوس ہو جاتے ہیں۔ رہی سہی کسر مری جیسا کوئی سانحہ پوری کر دیتا ہے۔ جن علاقوں میں ہم بلا خوف و خطر چلے جاتے تھے اب وہاں جانے سے پہلے دس مرتبہ سوچتے ہیں۔ مالم جبہ کا پروگرام بھی ہم نے اسی شش و پنج میں ترتیب دیا۔

لاہور سے نکلتے وقت دھند بہت تھی اور موٹر وے انتظامیہ نے اس دھند سے ’نمٹنے‘ کا آسان طریقہ یہ نکالا ہے کہ وہ موٹر وے ہی بند کر دیتی ہے تاکہ دھنیا پی کر سو یا جا سکے اور کسی قسم کے حادثے کی ذمہ داری ان کے سربراہ پر عائد نہ کی جا سکے۔ چند سال پہلے تک ایسا نہیں ہوتا تھا۔ پہلے جو گاڑیاں موٹر وے پر آ جاتی تھیں انہیں دھند کی وجہ سے اندھا دھند کسی ویرانے میں اترنے پر مجبور نہیں کیا جاتا تھا بلکہ انہیں گاڑیوں کے قافلے کی شکل میں دھند سے باہر نکال کر آگے پہنچایا جاتا تھا۔ اب نیشنل ہائی وے اور موٹر وے انتظامیہ کی سہل پسندی کا یہ عالم ہے کہ دھند کا نعرہ لگا کر موٹر وے بند کر دیتے ہیں یا پھر جو گاڑیاں موٹر وے پر موجود ہوتی ہیں انہیں موٹر وے سے باہر نکال دیتے ہیں۔ اب چاہے رات کا کوئی پہر ہو، کوئی ویرانہ ہو یا خطرناک علاقہ ہو، چاہے وہاں کوئی پٹرول پمپ یا آرام گاہ ہو یا نہ ہو، آپ فیملی کے ہمراہ سفر کر رہے ہوں یا تنہا ہوں، موٹر وے والوں نے پروا نہیں کرنی، بلکہ لکیر کے فقیر بن کر موٹر وے سے آپ کو باہر دھکیلنا ہے، اب آپ جانیں اور آپ کا کام۔ کیسے کہاں پہنچنا ہے، یہ آپ کا درد سر ہے۔ اور یہ بات تو ایک دودھ پیتا بچہ بھی جانتا ہے کہ موٹر وے کے exit (خروج) ایسے ہیں کہ جہاں سے نکلنے کے بعد منزل مقصود تک پہنچنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ اور پھر میں یہ بات بھی سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اگر حادثات کی روک تھام کے لیے ایسا کیا جاتا ہے تو کیا موٹر وے سے متصل شاہراہوں پر رات گئے دھند نہیں ہوتی یا دھند نے صرف موٹر وے پر آنے کا ’پرمٹ‘ لیا ہوا ہے!
اس جھنجھٹ سے بچنے کی خاطر ہم نے سفر کے لیے اس مرتبہ جی ٹی روڈ کا انتخاب کیا، لاہور سے اسلام آباد پہنچنے اور پھر اسلام آباد سے موٹر وے پر ہو لیے اور منہ اپنا سوات کی طرف کر لیا۔ اسلام آباد پشاور موٹر وے سے سوات جانے کے لیے چکدرہ کا راستہ لینا پڑتا ہے، اسے آپ سوات موٹر وے بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ تقریباً سوا گھنٹے کا سفر ہے اور ناقابل فراموش ہے۔ اونچے نیچے پہاڑوں، سر سبز میدانوں اور بین الاقوامی معیار کی بل کھاتی سرنگوں میں سے گزرتے ہوئے آپ کو واقعی یوں لگتا ہے جیسے یورپ میں گاڑی چلا رہے ہوں۔ رہی سہی کسر کاٹلنگ کے مقام پر نئے تعمیر شدہ سروس ایریا نے پوری کر دی ہے۔ کاٹلنگ ایک چھوٹا سا خوبصورت گاؤں ہے جو سوات موٹر وے کے راستے میں آتا ہے، اس سروس ایریا میں خوبصورت ریستوران، کیفے، بیکری، پٹرول پمپ، صاف ستھرے واش روم اور چھوٹی سی ورکشاپ ہے۔ حسین وادی کے بیچوں بیچ بنا ہوا یہ سروس ایریا ایسا ہے کہ اگر آپ کو کافی کی طلب نہیں بھی ہو رہی تو یہاں بیٹھ کر ایک کپ کافی ضرور پئیں۔ اس سے بھی زیادہ خوبصورت ایک سروس ایریا ہزارہ موٹر وے کے درمیان آتا ہے، اس کا بیان پھر کبھی۔ ہم نے کاٹلنگ کو الوداع کیا اور سوات موٹر وے سے نکل کر جی ٹی روڈ پکڑ لی اور بالآخر سوات میں اپنے ہوٹل پہنچ کر ہی بریک لگائی۔

اگلے روز مالم جبہ کا پروگرام تھا۔ مینگورہ شہر سے نکل کر اگر آپ بائی پاس روڈ پر آ جائیں اور رخ مالم جبہ کی طرف کر لیں تو دریا آپ کے بائیں طرف چلتا ہے، اس علاقے میں قطار اندر قطار ہوٹل اور کھانے پینے کی دکانیں ہیں، یہاں بیٹھ کر ٹراؤٹ مچھلی نہ کھائیں تو سوات کا دورہ مکمل نہیں ہوتا۔ اس موسم میں تو دریا میں پانی نہیں تھا لیکن جب پہاڑوں پر برف پگھلے گی تو دریا کا نظارہ روح پرور ہو جائے گا۔ مینگورہ سے مالم جبہ کا راستہ تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کا ہے اور سڑک بہت شاندار ہے۔ تین چوتھائی راستے تک کوئی برف نہیں تھی، جونہی برف شروع ہوتی ہے تو راستے میں جا بجا آپ کو مقامی لوگ ملتے ہیں جو گاڑی کے ٹائروں پر زنجیر لگانے کی خدمات پیش کرتے ہیں۔ ان میں سے ہر کوئی اصرار کرتا ہے کہ اس کے بغیر آپ آگے نہیں جا سکتے۔ اگر برف باری نہ ہو رہی ہو تو زنجیر لگانے کی چنداں ضرورت نہیں پڑتی، آپ احتیاط سے گاڑی چلا کر اوپر اس جگہ تک جا سکتے ہیں جہاں کچھ عرصہ پہلے ایک فائیو سٹار ہوٹل تعمیر ہوا ہے جس کا افتتاح مولانا طارق جمیل نے اپنے مبارک ہاتھوں سے کیا تھا۔
ہمارا ارادہ یہاں سکینگ کرنے کا بھی تھا مگر پتا چلا کہ سکینگ اور چئیر لفٹ مقامی لوگوں کی ہڑتال کی وجہ سے بند ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کمپنی نے داخلہ فیس ہزار روپے مقرر کر رکھی ہے جس کی وجہ سے عام آدمی یہاں کم آتے ہیں، اس فیس کو کم کیا جائے۔ مقامی لوگوں کا مطالبہ درست ہے۔ فائیو سٹار ہوٹل نے بھی داخلے سے پہلے ہم سے فی کس ہزار روپے لیے جو بعد میں کھانے کے بل سے منہا ہو گئے۔ دراصل ہم جیسے لوگ جب سیاحت کو فروغ دینے کے لیے تجاویز دیتے ہیں تو ہمارے ذہن میں صرف متمول طبقہ ہوتا ہے کیونکہ اس طبقے کے پاس پیسہ ہے اور جس قسم کی سہولتیں ہم چاہتے ہیں وہ صرف پیسے سے ہی حاصل کی جا سکتی ہیں۔ لیکن ہم بھول جاتے ہیں کہ پاکستان میں ایک بہت بڑی مڈل کلاس بھی ہے، یہ لوگ بڑی مشکل سے اپنے بیوی بچوں کو سال بھر میں ایک آدھ مرتبہ سیر کے لیے لے کر نکلتے ہیں، ان کے لیے خواہ مخواہ کے ٹول ٹیکس اور داخلہ فیسیں کسی عذاب سے کم نہیں۔
پاکستان کے سیاحتی مقامات کا موازنہ ناروے اور سویٹزر لینڈ سے کرتے ہوئے ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ وہاں پانی کی ایک بوتل تین یورو میں ملتی ہے جبکہ اپنے یہاں کی سیاحت جیسی بھی ہے اب تک سستی ہے۔ پاکستانی سیاحت کی دوسری خاصیت ’جگاڑ لگانا‘ ہے۔ مثلاً ایک مقامی بندے نے تھوڑے سے پیسوں کے عوض ہماری گاڑی کے ٹائروں میں زنجیریں لگائیں اور پھر ہمارے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر اس جگہ تک چھوڑ کر آیا جس سے آگے برف سے پھسلن کا خطرہ نہیں تھا، یہ کام پاکستان جیسے ملکوں میں ہی ممکن ہے۔ یورپ میں ایسی ’سروس‘ نہیں ملتی اور شاید وہاں اس کی ضرورت بھی نہیں پڑتی۔
ہم نے حفظ ماتقدم کے تحت ٹائروں میں زنجیر لگوا کر اچھا ہی کیا کیونکہ اس ہوٹل میں چائے پیتے ہوئے برف باری شروع ہو گئی اور ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے سڑکیں برف سے اٹ گئیں۔ ذہن میں فوراً مری کے مناظر گھوم گئے۔ خوف میں مزید اضافہ اس خبر نے بھی کیا جو ہم نے سوات کے قیام کے دوران اخبار میں پڑھی کہ دیر کے علاقے میں اڑھائی سو گاڑیاں عورتوں اور بچوں سمیت کئی گھنٹوں تک برف میں پھنسی رہیں جنہیں بالآخر نکال لیا گیا۔ ہمیں اور ڈر لگ گیا۔ مگر پھر اس بات سے حوصلہ ہوا کہ راستے میں تین چار سرکاری گاڑیاں دیکھی تھیں جو برف ہٹا رہی تھیں۔ مالم جبہ میں ٹورازم والوں کی ایک گاڑی بھی گشت کر رہی تھی، ان سے پوچھا کہ کہیں ہم پھنس تو نہیں جائیں گے، انہوں نے کہا کہ ایسا کچھ نہیں ہو گا، سڑکیں صاف کی جا رہی ہیں۔ ہوٹل سے باہر نکلے تو ہماری سیاہ گاڑی برف میں سفید ہو چکی تھی۔ ہمارے چاروں طرف برف ہی برف تھی، پہاڑ اور سڑکیں برف سے سفید ہو چکے تھے، سردی مزاج پوچھ رہی تھی اور ہم ان حسین نظاروں کو دیکھ کر سوچ رہے تھے کہ کاش وقت تھم جائے اور یہ منظر جم جائے۔ برف کا موسم ابھی ختم نہیں ہوا لیکن ہر موسم کی طرح یہ موسم بھی گزر جائے گا، ہم نہ ہوں گے کوئی اور ہو گا، دنیا یونہی چلتی رہے گی۔

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 497 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments